خبریں

پاکستان: عالمی شہرت یافتہ اداکار اور اپنی پڑھنت کے لیے معروف فنکار ضیامحی الدین انتقال کر گئے

 ضیا محی الدین جب اپنی پڑھنت کا جادو جگاتے تھے تو سننے والے ان  کے سحرمیں گرفتار ہوجایا کرتے تھے۔

ضیا محی الدین، فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا

ضیا محی الدین، فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا

نئی دہلی: عالمی شہرت یافتہ  پاکستانی اداکار، صداکار، ہدایت کار، ٹی وی میزبان، دانشور اور قلمکار  ضیا محی الدین کا  92 برس کی عمر میں سوموار  کی صبح کو انتقال ہو گیا۔ معروف فکشن نویس محمد حمید شاہد  نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں اس کی اطلاع دی ۔

اطلاعات کے مطابق،  ضیا محی الدین کچھ عرصے سے علیل تھے ۔

 قابل ذکر ہے کہ انگریزی اور اردو  میں تلفظ کی درست ادائیگی اور اپنے منفرد لب و لہجے کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی شہرت تھی ۔

غورطلب ہے کہ، ضیا محی الدین جب اپنی پڑھنت کا جادو جگاتے تھے تو سننے والے ان  کے سحرمیں گرفتار ہوجایا کرتے تھے۔

وہ 20 جون 1931 کو پاکستان کے فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خادم محی الدین تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے، انہیں پہلی پاکستانی فلم تیری یاد کے مصنف اور مکالمہ نگارہونے کا  بھی اعزاز حاصل ہے۔

 ضیا محی الدین نے 1949میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا تھا، بعد میں انہوں نے رائل اکیڈمی آف تھیٹر آرٹس سے وابستگی اختیار کی اوریہیں سے صداکاری اور اداکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔

رپورٹ کے مطابق، انھوں  نے ریڈیو آسٹریلیا سے صداکاری کے کام کاآغاز کیا، بہت عرصے تک برطانیہ کےتھیٹر کے لیے  کام کیا، برطانوی سنیما اور ہالی ووڈ میں بھی فن کے جوہر دکھائے، 50 کی دہائی میں لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹ سے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

دراصل سال1956 میں وہ اپنے وطن  پاکستان وپس لوٹے،  لیکن فوراً ہی ایک اسکالر شپ پر انگلستان چلے گئے، جہاں انہوں نے ہدایت کاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ۔

اطلاعات کے مطابق، 1960 میں میں جب ای ایم فوسٹر کے ناول اے پیسج ٹو انڈیا کو اسٹیج کیا گیا تو ضیا نے اس میں ڈاکٹر عزیز کا یادگار  رول ادا کیاتھا ۔ پھر 1962 میں انہوں نے فلم لارنس آف عریبیہ میں بھی ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔

رپورٹ کے مطابق، جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد ضیا محی الدین  واپس برطانیہ چلے گئے،90 کی دہائی میں مستقل پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا،ضیامحی الدین نے انگریزی اخبار دی نیوزمیں کالم بھی لکھے، ضیامحی الدین کی کتاب اے کیروٹ از کیروٹ ایک مکمل ادبی شہ  پارہ ہے۔

پاکستان میں ٹیلی ویژن پر انہوں نے  ضیا محی الدین شو کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی بھی میزبانی کی۔ٹیلی ویژن پر پائل، چچا چھکن، ضیا کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے جیسے کئی پروگرام کے لیے ان کو یاد کیا جائے گا۔

ضیامحی الدین  کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں ستارہ امتیاز اور 2012 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا،انہوں نے 2004 میں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کی بنیاد رکھی  تھی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، ضیا محی الدین ان چند پاکستانیوں میں شامل تھے، جنھوں نے پاکستان سے باہر جا کر بھی تھیٹر اور فلموں میں کام کیا تھا۔ تقریباً 67 سال تک تھیٹر اور فلم انڈسٹری سے منسلک رہنے والے ضیا محی الدین 2005 سے 2021 تک نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) سے بطور بانی اور سربراہ وابستہ رہے۔

رپورٹ کے مطابق، ضیا محی الدین نے سنہ 2022 میں شیکسپیئر کے ڈرامے ’رومیو اینڈ جولیئٹ‘ کو اردو زبان میں پیش کر کے طالبعلموں کو کلاسیکل تھیٹر بھی سکھایا۔

بی بی سی کو سنہ 2022 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں جب ان سے پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ضیا محی الدین نے کہا تھا کہ آخری بار انھوں نے 1981 میں پاکستانی ڈرامہ دیکھا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’میں ڈرامے قطعی نہیں دیکھتا، مجھے کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی، سنا ہے مگر بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ میں کبھی کبھی خبریں دیکھتا ہوں ورنہ ٹی وی دیکھنا بہت کم ہوتا ہے۔ ‘

ضیا محی الدین کا شکوہ تھا کہ پاکستانی ٹی وی پر غلط تلفظ بولا جاتا ہے۔ انھوں نے ملک، مِلک اور مُلک کا حوالہ دیا اور کہا زبر زیر اور پیش سے لفظ اور مطلب بدل جاتا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’مختلف الفاظ جنھیں ہم عام طور پر اور ٹی وی ڈراموں میں غلط ادا کرتے ہیں، جیسے قبر، فکر، صبر وغیرہ، ہم کس کس کا رونا روئیں۔‘

ضیا محی الدین سے جب بی بی سی نے ان سے کام کے ساتھ طویل عشق کے تناظر میں پوچھا کہ اگر وہ پلٹ کر دیکھیں تو دل کے قریب کیا رہا؟

تو انھوں نے بتایا تھا کہ’بہت کم موقع ملا کہ اپنے کسی کام سے مطمئن ہوا ہوں۔ ہاں، ایسی ہیں دو چار جن پر مجھے ناز بھی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیمانے بدلتے رہتے ہیں، اپنی ہی نظروں میں اس پیمانے پر نہیں پہنچا جو میری توقع تھی۔ ارادہ کچھ بھی ہو لیکن عمل نہ ہو سکے تو اکثر ان دونوں چیزوں کا ملاپ نہیں ہوتا۔‘

ضیا محی الدین کا کہنا تھا کہ ’پروفیشنلزم میرے نزدیک ایمان کی مانند ہے۔ میرا نہیں خیال کچھ بدلاؤ آیا ہے۔ سٹیج ایکٹنگ پروفیشنل ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ان کے مداح لگاتار اپنی تعزیت کا اظہار  کر رہے ہیں۔ایک ٹوئٹر صارف کامران خان نے لکھا،

ادائیگی کے شہنشاہ تلفظ کے بے تاج بادشاہ اردو ادب نثر و شعر پر مثالی دسترس انگریزی اردو ڈرامہ نگاری اسٹیج ہو یا فلم ضیا محی الدین 6 دہائیوں تک ان تمام اصناف پر حکمرانی کرنے کے بعدآج صبح ہم سب سے جدا ہوکر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پیارے ہوگئے انا للہ وانا اليہ راجعون۔

معروف کالم نگار محمد تقی نے ان کو اس شعر کے ساتھ الواداع کہا کہ،

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

برصغیر کے معروف نقاد ناصر عباس نیر نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھاکہ، بڑے آدمی رخصت ہوتے ہیں تو تاریکی بڑھتی ہے۔ ہماری دنیا جو پہلے ہی بہت تاریک ہے، یہ مزید تاریک ہوجاتی ہے؛