کولکاتہ پولیس نے بتایا کہ پاکستان بنگلہ دیش ورلڈ کپ کرکٹ میچ کے دوران فلسطینی پرچم لہرانے کے الزام میں چار افراد کو پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ وہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ شکایت اس مبینہ واقعے کے حوالے سے کی گئی ہے جب کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران 14 اکتوبر کوہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئےمیچ میں پاکستانی بلے باز محمد رضوان آؤٹ ہو کر ڈریسنگ روم کی طرف جا رہے تھے تو ہندوستانی شائقین نے انہیں دیکھ کر نعرے بازی کی تھی۔
شاہ رخ خان بھلے ہی کہیں کہ ان کی دلچسپی صرف ‘انٹرٹین’ کرنے میں ہے، لیکن ان کی حالیہ فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انٹرٹینمنٹ کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیغام دینے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔
رائے ریاض حسین کی کتاب ‘رائے عامہ’ پاکستان کی موجودہ تاریخ کا آئینہ ہے اور یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے، جس کو پاور کوریڈورز کے اندرون تک رسائی تھی۔
ہندوستان کی وزارت دفاع کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ یعنی ڈی آر ڈی او کے ڈائریکٹرکی سطح کے سائنسدان پروفیسر پردیپ کورولکر کی پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتاری پر ہندوتوا تنظیموں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟
پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس مہم جو مجلس ثلاثہ نے مودی حکومت کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہیں۔اس صورتحال میں بات چیت کی بحالی تقریباً ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں نئی دہلی کے لیے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں وہاں پاکستان کے لیے کشمیرکے حوالے سے اختیارکردہ موقف سے پیچھے ہٹنا سیاسی اور سفارتی خودکشی سے تعبیر ہوگا۔
جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انہیں جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی ہندوستان کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک دہائی قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ ہندوستان کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کرایا جاسکے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ نے ہندوستان کو ‘ہندوراشٹر’ قرار دینے کے مطالبے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ جب ہندوستان تقسیم ہوا تو اسی مسئلے (مذہب) پر ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان بنا اور باقی ماندہ ملک ‘ہندو راشٹر’ ہے۔
میرے پاس اس وقت ہندوستانی توشہ خانہ کی 2013سے اپریل 2022 تک کی 4660 تحائف کی لسٹ ہے۔ اس کو دیکھ کر ہندوستانی سیاستدانوں اور افسران کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ان کو غیر ملکی حکمراں اونے پونے تحائف دے کر ہی ٹرخا دیتے ہیں۔اس لسٹ میں بس درجن بھر ہی ایسے تحائف ہیں، جن کی مالیت لاکھوں میں یا اس سے اوپر ہوگی۔ اکثر تحفے معمولی پیپرویٹ، وال پینٹنگ، پین، کم قیمت والے کارپیٹ وغیر ایسی چیزوں پر مشتمل ہیں۔
نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔
ضیا محی الدین جب اپنی پڑھنت کا جادو جگاتے تھے تو سننے والے ان کے سحرمیں گرفتار ہوجایا کرتے تھے۔
پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدددی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا موقع تو ملا۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
حال ہی میں ہندوستانی خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی راء سے وابستہ ایک آفیسر واپالا بالا چندرن نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ 1988میں جنرل ضیا نے محسوس کیا تھاکہ ہوشربا دفاعی اخراجات دونوں ممالک کی اقتصادیات پر ایک بوجھ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔اس لیے انہوں نے اردن کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن سے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام پہنچانے اور ثالثی کی درخواست کی۔
ویسے تو ہر سال دسمبر میں بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستانی لیڈرشپ کی ناکامی اور ہندوستانی فوج کے کارناموں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔مگر اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان کو ایک الگ ملک بنانے کی بنیاد تو 1947 میں ہی ڈالی گئی تھی، جب پاکستانی حکومت بحیرہ عرب میں جزائر لکشدیپ اور خلیج بنگال میں انڈومان نکوبار جزائر پر اپنا دعویٰ کھو بیٹھی تھی۔
پاکستانی سفارت کاری کی وجہ سے عالمی طور پر تلافی کے فنڈنگ کا ایک مسئلہ فی الحال تو حل ہوگیا، مگر ان کو اسی شدو مد کے ساتھ اپنے ہی خطے میں ہندوستان کے ساتھ دریائے سندھ اور اس کی معان ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیرزکے تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہونے کے ایشوز پر بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔
پروین کے یہاں شاید وہی بری عورت ہے جو اپنی چوڑیوں سے نیزے بناتی رہی اور بدن پر بھونکنے والے اعلیٰ نسل کے کتوں کے خلاف لکھتی رہی۔
ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے؟
یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی پر مبنی ہے، جو ایک خواجہ سرا سے محبت کرتا ہے۔ پہلے سینسر بورڈ نے اس کی ریلیز کی اجازت دے دی تھی، تاہم اب سینما گھروں میں اس کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
یہ واقعہ پنجاب کے شہر وزیر آباد قصبے کے اللہ والا چوک کے قریب اس وقت پیش آیا، جب عمران خان جلدی انتخابات کے اپنےمطالبے کے لیے اسلام آباد تک مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں سات افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص کی موت ہوگئی ، ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔
رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔
طارق عزیز اور لامبا دونوں کے جانے سے کشمیر پرہندوستان اور پاکستان کی سفارت کاری کے بہت سے پوشیدہ پہلو بھی راز میں ہی رہیں گے۔ مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ انتقال سے قبل لامبا نے اپنی کتاب کا مسودہ مکمل کر لیا تھا۔ اب انتظار ہے کہ ان کی فیملی کب اس کو شائع کراتی ہے تاکہ بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ جائےاوردونوں ممالک کی شاید کچھ رہنمائی بھی ہوجائے۔
آر جے ڈی ایم پی منوج جھا کو 23 اکتوبر کو لاہور میں انسانی حقوق کی معروف کارکن عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔ جھا نے ان کی درخواست کو مسترد کیے جانے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ سے منظوری مل گئی تھی، لیکن وزارت خارجہ نے سیاسی منظوری نہیں دی۔
اگر افغانستان پر چڑھائی سے لےکر اقتصادی امور پر بھی فیصلے اقوام متحدہ کے باہر ہونے ہیں، تو ایک بھاری بھرکم تنظیم اور اس کے سکریٹریٹ پررقوم خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ سوال اب دنیابھر کے پاور کوریڈورز میں گشت کر رہا ہے۔
ویڈیو: پاکستان میں سیلاب کے باعث بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں میں حالات خراب ہیں۔ سب سے زیادہ سنگین صورتحال سندھ کی ہے، جہاں اب تک 339 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ پاکستان میں اب تک ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوچکے ہیں، وہیں سیلاب کے باعث 150 سے زائد پل بھی ٹوٹ چکے ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل تھا، جس میں کچھ لوگ ایک خاتون کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے نیوز چینل زی ہندوستان نے دعویٰ کیا تھاکہ پاکستان میں ہندوؤں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ متاثرہ کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے اور اس معاملے میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔
سال 2014میں کشمیر کے سیلاب اور اس وقت پاکستان میں رونما تباہی یہ بتاتی ہے کہ سیاسی قضیہ یا دہشت گردی امن و امان کے لیے خطرہ تو ہیں، مگر قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔اس لیے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی ہے۔
اتوار کو دبئی میں ایشیا کپ کرکٹ میچ میں ہندوستان کی جیت کے بعد بی سی سی آئی سکریٹری جئے شاہ کا ترنگا نہ پکڑنے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ اس پر اپوزیشن نے انہیں نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پروٹوکول کے تحت غیر جانبدار رہنے کا مطلب کسی پرچم کی توہین کرنا نہیں ہے۔
جہاں وزیرا عظم مودی نے علاقائی روابط کو سفارتی ترجیحات میں رکھا ہے، وہاں وہ اس بات کو سمجھنے سے آخر قاصر کیوں ہے کہ وسط ایشیا کے ساتھ روابط کشمیر سے ہوکر اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔
پاکستان کے برعکس ہندوستان میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں؟ جمہوی نظام کو چلانے کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہوریت کے لیے آئین کو چلانے کے لیے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر کبھی مستقبل میں امن و امان کی صورت حال بن جاتی ہے اور دونوں ممالک اپنے تنازعات پر امن طور پر سلجھانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو اس کا کریڈٹ لازماً ستی لامبا کو ہی جائے گا۔ان کے لیے بہترین خراج یہی ہے کہ مزید ہزاروں بے گناہ و معصوم افراد کو موت کی بھیٹ چڑھانے کے بجائے دونوں ممالک دیرنہ تنازعات کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے عمل کو شروع کرکے اس کو منتقی انجام تک پہنچا دیں۔
عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوژ تھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن […]
پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن نے اس سلسلے میں ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے ہندوستانی شہریوں سے کہا کہ وہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کریں۔ چینی اداروں میں ہندوستانی طالبعلموں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے گریز کرنے کی وارننگ دینے کے ایک ماہ کے اندر یو جی سی اور اے آئی سی ٹی ای نے یہ ایڈوائزری جاری کی ہے۔
پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہے۔ مسلم لیگ کا ہندوستان میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کا کشمیری عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے استعمال کریں تو سودا برا نہیں ہے۔
پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے۔
ایک شاندار ماضی ہوتے ہوئے بھی اب اردو کے صرف مٹھی بھر قارئین رہ گئے ہیں اور اب اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
ہندوستان میں واجپائی تیسرے اور آخری وزیراعظم تھے، جن کو پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
معاملہ باگل کوٹ ضلع کا ہے۔ الزام ہے کہ ایک خاتون نے مبینہ طور پر 23 مارچ کو پاکستان کے یوم جمہوریہ کی مبارکباد دیتے ہوئے وہاٹس ایپ اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا، جس کے بعد انہیں ایک شخص کی شکایت پر ‘دشمنی پھیلانے’ کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ تاہم اب خاتون کو ضمانت مل گئی ہے۔
ہندوستان کی وزارت دفاع نے پہلے تکنیکی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پلہ جھاڑنے کی کوشش کی، مگر بعد میں پارلیامنٹ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ میزائلوں کی دیکھ ریکھ کے عمل کو سدھارا جائے گا اور اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ میزائل کسی انسانی غلطی کی وجہ سے فائر ہوا ہے اورجلد ہی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا ئےگا۔