ادبستان

  بالی وڈ کی آف اسکرین خواتین

فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔

اشونی ایر تیواری، گنیت مونگا، کارتیکی گونسالویس، امی پٹیل، شانو شرما، پونم دھامانیہ اورنیہا ویاس، فوٹو: سوشل میڈیا

اشونی ایر تیواری، گنیت مونگا، کارتیکی گونسالویس، امی پٹیل، شانو شرما، پونم دھامانیہ اورنیہا ویاس، فوٹو: سوشل میڈیا

مدھو بالا، مینا کماری، نرگس، اب حال میں عالیہ بھٹ، کرینہ کپور، انوشکا شرما یا دیپکا پڈکون کو بھلا کون نہیں جانتا۔ انہی کے دم سے توبالی وڈ میں رنگ ہے۔ مگر بالی وڈ میں کئی ایسی خواتین کام کرتی ہیں، جو پردے کے پیچھے اس انڈسٹری میں اہم کردار اد کرتی ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ اصلی ہیروئن  تو پردے کے پیچھے ہی کام کرتی ہیں اور اسکرین پر ہمیں جو نظر آتا ہے وہ ا ن کی ہی محنت و مشقت کا شاخسانہ ہوتا ہے  تو بے جا نہ ہوگا۔

ان خواتین کی فہرست طویل ہے۔اس ہفتے، جبکہ دنیا  میں خواتین کا عالمی دن منا یا جا رہا ہے،پردے کے پیچھے کام کرنے والی ان ہزاروں خواتین کو یاد کرنا اور ان کے کام کو سراہنا واجب بنتا ہے۔ 2017میں ریلیز کی گئی فلم بریلی کی برفی میں کام کرنے والی کرتی سانون کو تو سب نے اسکرین پر دیکھا، مگر یہ فلم کی اشونی ایر تیواری کی ہدایت کاری کی وجہ سے ہی شائقین تک پہنچ پائی۔

اسی طرح پنجابی فیملی سے تعلق رکھنے والی گنیت مونگا نے ابھی تک 27فلموں میں مختلف حیثیتوں میں پردے کے پیچھے کام کیا ہے۔  پریرنا اروڑا جنہوں نے انڈسٹری کو پیڈ مین اور ٹوائلٹ ایک پریم کتھا جیسی شاندار فلمیں دی نے  ان فلموں کے ذریعے بھارت میں خواتین کے حوالے سے کچھ انتہائی ذاتی مسائل کو نمایاں کیا۔

تامل ناڈو کے ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے والی کارتیکی گونسالویس نے دستاویزی فلموں خاص طور پر ماحولیات، وائلڈ لایف کو موضوع بناکر خاصی واہ واہی لوٹ لی ہے۔ ان کی دستاویزی فلمیں آسکر ایوارڈ پینل کے لیے بھی  نامزد ہو گئیں تھیں۔  اگرچہ فلم انڈسٹری میں ہر سال ہزاروں فلمیں ریلیز ہوتی ہیں، لیکن صرف چند فلمیں ہی اس باوقار اکیڈمی ایوارڈ میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

پروڈکشن اور ڈائریکشن کے شعبہ میں بھی کئی خواتین اسکرین پر آنے والے اداکاروں کے اسٹائل کو بہتر بنانے کے کام پر معمور ہوتی ہیں۔ یہ خیال رکھتی ہیں کہ اداکار اور اداکارائیں کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے جاذب نظر آجائیں۔ یہ خواتین اسکرین پر نئے نئے فیشن متعار ف کرواتی ہیں۔

اس وقت اس شعبہ میں  اسٹائلسٹ امی پٹیل کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ فی الوقت کنگنا رناوت، عالیہ بھٹ اور پرینکا چوپڑا جیسی اداکاراؤں کے لیے کیورٹر کا کام کرتی ہیں۔ ان کی انڈسٹری میں اتنی مانگ ہے کہ ہر اداکارہ پٹیل کو ہی اپنا فیشن ڈائریکٹر بناناچاہتی ہے۔وہ بھی  ان لوگوں میں سے ہیں جو لائم لائٹ کے پیچھے ان اداکاروں کو اس طرح دکھانے کی کوشش کرتی ہیں جیسے ان کے مداح انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

پٹیل کی طرح بہت سی دوسری خواتین بھی پردے کے پیچھے بالی ووڈ کی خدمت کرتی ہیں۔ کاسٹنگ ڈائریکٹر شانو شرما ہوں یا کرینہ کپور کی منتظم پونم دھامانیہ، یہ دونوں بالی ووڈ کی پاور فل خواتین میں گنی جاتی ہیں۔ دھامانیہ کا کام ہے یہ کوئی ایسی خبر یا بھنک میڈیا کو نہ لگ جائے، جس سے کپور کی بے عزتی ہو یا اس کو غیر مقبول بنائے۔

فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔

اسی طرح جوں جو ں بالی ووڈ میں اب بولڈ فلمیں بنائی جانے لگیں ہیں اور اسکرپٹ کے مطابق ہیرو اور ہیروین کو خاصے پرائیوٹ سین کرنے پڑ رہے ہیں، ہدایت کاروں کی ایک اسپیشلسٹ پود جس کو انٹی میسی ڈائریکٹر کہا جاتا ہے پیدا ہوگئی ہے۔ ان میں اکثر خواتین ہی ہیں، جو ہیجان انگیز سین کو فلمانے کے لیےمتعین ہوتی ہیں۔

ان میں کامیاب نام نیہا ویاس کا ہے، جو نہ صرف اداکاروں کو نفسیاتی طور پر ایسے سین کرنے کے لیےتیارکرتی ہیں، بلکہ فلماتے وقت اور اس سے قبل اس کے معمولی سے معمولی جزیات کا خیال رکھ کر اس سین کو اس قابل بناتی ہیں، جس سے اس کا میسیج فلم میں جذب ہو جائے۔

اس دوران ا ن کو نہ صرف اداکاروں بلکہ کیمرہ چلانے والوں اور لائٹ فکسنگ کرنے والوں کو بھی ہدایات دینی ہوتی ہیں،تاکہ مناسب لائٹ کے ساتھ ہیرو اور ہیروئین کے جسم کو اس حد تک فلمایا جائےکہ سین سینسر کے کٹ سے محفوظ رہے۔

گو کہ  ہندوستانی سنیما میں خواتین نے  ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے۔مگر سفر ابھی بھی جاری ہے۔ اس انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ابھی بھی مرد وں کو خواتین کے مقابلے معاوضہ زیادہ ملتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس صنفی امتیاز کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔کیونکہ وجود زن سے ہی ہے بالی وڈ میں رنگ…اوراگر یہ رنگ پھیکا پڑا، تو بالی وڈ بھی پھیکا پڑ جائےگا۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)