فکر و نظر

’کشمیر میں میڈیا کو چپ کرایا گیا، نیویارک ٹائمز میں میرے مضمون کی تنقید صحیح نہیں‘

دی کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی طرف سےکشمیر میں صحافیوں کی صورتحال پرنیویارک ٹائمز  میں لکھے گئے مضمون کو مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ‘شاطرانہ  اور فرضی پروپیگنڈہ’ قرار دیا تھا۔ بھسین نے کہا کہ وزیر کا ردعمل ان کے معروضات کو درست ثابت کرتا ہے۔

کرن تھاپر اور انورادھا بھسین۔ (تصویر: دی وائر)

کرن تھاپر اور انورادھا بھسین۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: دی کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے کشمیر میں صحافت کی تشویشناک صورتحال اور حکومت کی طرف سے کشمیری صحافیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا ذکر کرتے ہوئے گزشتہ دنوں نیویارک ٹائمز میں اس موضوع پر  لکھے گئے اپنے مضمون کوحق بجانب قرار دیا ہے۔

دی وائر کے لیےسینئر صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے اس مضمون سے متعلق مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر کے دعووں کوغلط بتایا۔

وزیر نے کہا تھا کہ،’کشمیر میں پریس کی  آزادی سے متعلق نام نہاد آرٹیکل شاطرانہ اور فرضی ہے اور اسے اخبار نے صرف ہندوستان اور اس کے جمہوری اداروں اور اقدار کے بارے میں پروپیگنڈہ کرنے کے ارادے سے شائع کیا ہے۔’

بھسین نے اس کی کلی طور پر  تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے (وزیر نے) حقائق کو چیلنج نہیں کیا،  بلکہ اپنی تشریح کے مطابق  بیان دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر کا ‘اوور –ری ایکشن’  ان کے معروضات کو صحیح ثابت کرتا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے مضمون پر قائم ہیں۔

کشمیر میں صحافیوں کی حالت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں نے ایک طرح سے میڈیا کو خاموش کر دیا ہے۔ صحافی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں زبانی سمن ملتے ہیں، پوچھ گچھ ہوتی ہے اور چھاپے پڑتے ہیں۔ ان سے مسلسل پولیس ویریفیکیشن کے لیے کہا جاتا ہے۔ ان کے دفاتر اور گھروں پر این آئی اے کے چھاپے پڑتے ہیں… ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

بھسین نے کہا، ‘مودی کی جابرانہ میڈیا پالیسیاں کشمیری صحافت کو برباد کر رہی ہیں، میڈیا اداروں کو سرکاری بھونپو بننے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں…صحافیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے…اپنے حساب سے کوریج کو یقینی بنانے کے لیے حکومت میڈیا اداروں کے خلاف سخت ہتھکنڈے اپنا رہی ہے۔ …صحافیوں کو ریگولر طور پرپولیس طلب کرتی ہے، ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور ان سے انکم ٹیکس کی خلاف ورزیوں یا دہشت گردی یا علیحدگی پسندی جیسے الزامات کے ساتھ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ بہت سے ممتاز صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے… بہت سے صحافیوں نے خود کو سینسر کر لیا ہے یا یوں ہی چھوڑ دیا ہے۔ کچھ گرفتاری کے خوف سے بیرون ملک جلاوطنی اختیار کر چکے ہیں… کم از کم 20 دیگر ایسے ہیں جو نو فلائی لسٹ میں ہیں تاکہ انہیں ملک چھوڑنے سے روکا جا سکے… ہم خوف کے سایے میں کام کر رہے ہیں۔

جب بھسین سے یہ کہا گیا کہ مرکزی وزیر داخلہ اور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر بار بار کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں، اس لیے وہ ان کے بتائے ہوئے حالات کو جھوٹ قرار دیں گی، تو بھسین نے کہا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی ہیں، لیکن وہ  لوگ بول رہے ہیں۔

بھسین نے کہا کہ ان کا بڑا خوف یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے قومی رہنما خطوط میں مجوزہ ترامیم 2021 میں کشمیر میں اعلان کردہ میڈیا ضوابط سے ملتی جلتی ہیں، اور جس طرح کشمیر میں 2021 کے ضابطے حکام کو کشمیر میں میڈیا کے مواد کو ‘فرضی خبر’ سرقہ اور غیر اخلاقی یا ملک دشمن’، قرار دینے کا اختیار دیا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ قومی رہنما خطوط بھی انہی اختیارات کی بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما خطوط قانون بن جاتے ہیں تو’باقی ہندوستان کی حالت بھی کشمیر جیسی ہو جائے گی۔’

اس بات چیت میں انہوں نے قومی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر بھی کڑی تنقید کی، جو کہ ان کے بقول کشمیر میں صحافت کی حقیقی اور ابتر حالت اور وہاں کے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔