فکر و نظر

نئے کشمیر کے ٹھگ

وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کا افسر بن کر جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے گجرات کے ٹھگ کرن پٹیل کی ٹھگی اور جعلسازی  کا تو پردہ فاش ہو گیا ہے، لیکن اس سے کہیں بڑا فراڈ جموں و کشمیر کے حالات کو نارمل بناکر پیش کرنا ہے، جبکہ حقیقی صورتحال مختلف ہے۔

کرن پٹیل۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

کرن پٹیل۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

مجھے اس وقت بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی، جب کشمیر میں ایک گجراتی ٹھگ اور جعلساز کے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کے افسر کے  طو ر پر بھیس بدلنے کے بارے میں خبر آئی ۔

سامنےآئے  تمام ویڈیوز میں زیڈ پلس  سیکورٹی اہلکاروں سے گھرے کرن جگدیش بھائی پٹیل بلیوارڈ روڈ پرمسکراتے ہوئے اور سرد دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے چار دوروں میں سے ایک میں اڑی میں کمانڈ پوسٹ کا  ایک دورہ بھی شامل تھا۔ اڑی ایک ایسا علاقہ ہے، جو سیکورٹی وجوہات کے باعث  عام شہریوں کی رسائی سے دور ہے۔

ان کے ٹوئٹ ان دوروں کی تصویربخوبی پیش کرتے ہیں اور انہیں اس خصوصی سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی دکھاتے ہیں۔ کوئی صرف حیران ہوسکتا ہے کہ یہ کس طرح ان انتہائی پرجوش انٹلی جنس ایجنسیوں کے رڈار پر آنے چوک سکتا ہے، جنہوں نے کشمیر میں حکومت کے زیر کنٹرول سراسر غیر منصفانہ ماحول بنا دیا ہے،اور جہاں ان کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔

اچانک ہی ہوا میں کہیں سے نمودار  ہوئے پٹیل کو ظاہری طو رپراعلیٰ انتظامی افسران  اور پولیس حکام تک آسانی سے رسائی حاصل تھی، لیکن جو بات قومی میڈیا نے یہاں  چھپالی ،  وہ  ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ۔

جہاں پٹیل کی دھوکہ دہی اور جعلسازی کا پردہ فاش ہو چکا ہے وہیں اس سے ب کہیں ڑا فراڈجموں و کشمیر کی صورتحال کو ‘نارمل’ بتا کر پیش کرنا ہے، جبکہ حقیقی  صورتحال مختلف ہیں۔

پٹیل نیو کشمیر کے بدنام زمانہ اور مسلسل بڑھتے ہوئے گروہ  کا سب سے نیا ممبر ہے۔ مرکز کی سیاسی تجربہ گاہ کے طاقتور گلیاروں میں خود ساختہ رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کا ایک ملا جلا گروپ تیار ہوکر پروان چڑھا ہے۔

اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی کے بعد سے زمینی حقیقت کو مسخ کرنے کے لیے ایک مصنوعی اور ضدی احساس پیدا کیا گیا ہے۔

مرکزی حکومت کے بڑے پلان آف ایکشن میں جموں و کشمیر میں جاری جبر کی لہر کو جائز ٹھہرانے اور چھپانے کے لیے ایک نیا چاپلوس  سیاسی طبقہ کھڑا  کرنے کی کوشش شامل ہے۔

لیکن سیاستدانوں کی نئی ‘ہاں’ میں ‘ہاں’ ملانے والی  بریگیڈ قائم کرنے کا منصوبہ اس وقت تک نامکمل ہے جب تک کہ روایتی مرکزی دھارے کی پارٹیوں کو پوری طرح سے بدنام اورغیرقانونی ثابت نہیں کر دیا جاتا۔

یہ بتاتا ہے کہ کیوں مرکزی حکومت نے سرکاری مشینری– سی بی آئی، ای ڈی، این آئی اے اور دیگر ایجنسیوں– اور میڈیا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ایماء پر مقامی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آئین کی  از سر نو بحالی کے حوالے سے اس کی شدید تنقید کر رہے ہیں۔

مجھے پتہ ہے کیونکہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے۔ میری قید کے دوران میری پارٹی پی ڈی پی  کو نئی اکائیاں میں بدلنے کے لیے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا  اور ہمارے نظریے کے پس پردہ گامزن احساس کو ختم کیا گیا۔

ایک متبادل سیاسی نظام کو شروع کرنے کے میڈیم کے طور پرپھوٹ ڈالنے کی بی جے پی کی حکمت عملی اس ملک میں  بکھرچکے جمہوری تانے بانے پر ایک اور حملہ ہے۔

سال 1999 میں اپنے قیام کے بعد سے پی ڈی پی کا وژن مقامی امنگوں اور جذبات کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔اس لیے پی ڈی پی کو ٹکڑوں میں تقسیم کردینے سے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور باوقار حل کی کشمیریوں کی خواہش ختم نہیں ہوگئی ہے۔

چار سال بعد یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ یہاں کےلوگوں کے دلوں سے  غداری اور دھوکہ دہی کی یادوں  کو مٹانے کی بی جے پی کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ ایک غیر آرام دہ خاموشی کے باوجود ان کے احساسات واضح ہیں، خواہ  وہ ان کا اظہار نہ  کریں۔

یہ غیر معمولی ‘نارمل صورتحال’ جموں و کشمیر کے لوگوں سے بھاری قیمت وصول کر رہا ہے۔ جموں و کشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت کی پالیسیاں اور فیصلے اس بنیادی مفروضے کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہر کشمیری ایک خطرہ ہے، جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ وہ خطرہ نہیں ہے۔

کشمیریوں کو گہرے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ مسلسل غیر ضروری نگرانی میں رہتے ہیں، جبکہ پٹیل اور ان کے مقامی ہم منصبوں جیسے ٹھگ اور جعلسازریاست کے تحفظ اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

تفتیشی ایجنسیوں کو جموں و کشمیر کے معاشرے کے ہر طبقے پر نظر رکھنے کا کام دیا گیا ہے – چاہے وہ صحافی ہوں، تاجر ہوں، سرکاری ملازم ہوں، ٹھیکیدار ہوں، سیاست دان ہوں یا کارکن ہوں۔ مرکز کا تازہ فرمان انٹلی جنس ایجنسیوں کو تصدیق اور سیکورٹی کے بہانے ٹھیکیداروں کو بلیک لسٹ کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے۔

معاش کو نشانہ بنانا لوگوں کو سزا دینے کی ایک اور ظالمانہ چال ہے۔ پہلے ہی، سینکڑوں ٹھیکیداروں پر برسوں پہلے مرچکے ‘دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ روابط’ کا حوالہ دے کر پابندی لگا دی گئی ہے۔

بدقسمتی سے، جیسے جیسے ہم اگلے سال کے عام انتخابات کے قریب پہنچیں گے، جموں و کشمیر کے باشندوں کو غیر انسانی بنانے کی ہندوستانی  حکومت کی کوششیں زور پکڑتی جائیں گی۔ لیکن 2019 کے انتخابات میں بالاکوٹ حملوں اور آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی، کا جو استعمال کیا گیا تھا، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر 2024 کے انتخابات کے قریب آتے ہی بی جے پی کے منصوبوں میں کیسا نظر آئے گا۔

جموں و کشمیر کی خون ریزتاریخ ان غلطیوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو نئی دہلی نے قلیل مدتی فوائد کے لیے کی ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ  اور اس کی اقدار کو مجروح کرنے کے لاپرواہ تجربات کی قیمت جموں و کشمیر اور ملک دونوں کوہی  مہنگی  پڑی ہیں۔ آج بی جے پی اس سے بھی بڑی غلطی کر رہی ہے اور صرف اقتدار میں رہنے کے لیے ریاست کو غیر یقینی اور تاریکی کے راستے پر لے جا رہی ہے۔

محبوبہ مفتی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔