خبریں

پلوامہ: اگر سی آر پی ایف کو ان کے مانگے گئے ایئر کرافٹ دیے گئے ہوتے، تو 40 جوانوں کی جان نہ جاتی

کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ پلوامہ حملہ مرکزی وزارت داخلہ کی نااہلی اور لاپرواہی کا نتیجہ تھا۔

پلوامہ حملے کے بعد موقع پر موجود سیکورٹی اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

پلوامہ حملے کے بعد موقع پر موجود سیکورٹی اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے 2019 میں ہوئےپلوامہ دہشت گردانہ حملے کے لیے مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس واقعہ کے حوالے سے تھاپر کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ سسٹم کی خرابی کا نتیجہ تھا۔

تقریباً چودہ مہینوں تک  گورنر رہے ملک نے کہا، ‘میں آپ کو حقائق بتاتا ہوں۔ سی آر پی ایف کے لوگوں نے جوانوں کو لانے اورلے جانے کے لیےایئر کرافٹ کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ اتنا بڑا قافلہ سڑک سے نہیں جاتا۔انہوں نے وزارت داخلہ سے پوچھا تھا، راج ناتھ جی کے وہاں۔ انہوں نے منع کر دیا۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میں انہیں ایئر کرافٹ دے دیتا،چاہے جیسےدیتا۔ انہیں صرف 5 ایئر کرافٹ  کی ضرورت تھی۔ انہیں وہ نہیں دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا، واقعے کی شام ہی میں نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ ہماری غلطی سے ہوا ہے، اگر ہم ایئر کرافٹ دے دیتے تو ایسا نہ ہوتا۔ تو انہوں نے کہا کہ تم ابھی چپ رہو۔ میں نے ایک دو چینل کو بول دیا تھا۔ پھر انہوں نے کہا اس کے بارے میں مت بولیے۔ این ایس اے اجیت ڈوبھال نے بھی مجھے اس بارے میں خاموش رہنے کو کہا۔ …تو مجھے لگ گیا تھا کہ اب سارا الزام پاکستان کی طرف جانا ہےتوچپ رہیے۔

اس پر تھاپر نے سوال کیا کہ کیا یہ حکومت کی چالو پالیسی تھی کہ الزام پاکستان پر جائے اور ہم اس کا کریڈٹ لیں اور اس سے انتخابات میں مدد ملے؟

ملک نے جواب دیتے ہوئے اس دن کے واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ‘مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہ نیشنل کاربٹ پارک کے قریب تھے، اپنی کچھ شوٹنگ کروا رہے تھے، وہاں فون کام نہیں کرتا ہے،تو  انہوں نے باہر کسی ڈھابے وغیرہ سے فون کیا تھا۔ پوچھا  کیا ہوا، تو میں نے بتایا کہ ایسے ایسے ہوا، میں تو بہت دکھی ہوں۔ اگر ہم ایئر کرافٹ دے دیتے تو ایسا نہ ہوتا۔ تو انہوں نے کہا کہ اس پر چپ رہیے آپ۔

تھاپر نے اگلے سوال میں پوچھا کہ جہاں سےیہ قافلہ جانا تھا، اس پورے راستے کے حفاظتی انتظامات ٹھیک سے نہیں کیے گئے تھے؟

ملک نے کہا، ‘اس علاقے میں آٹھ دس لنک روڈ مین روڈ سے ملتے ہیں۔ لہٰذا جہاں وہ مین روڈ پر مل رہے ہیں، اس پوائنٹ پر جپسی یا کوئی حفاظتی دستہ تعینات ہونا چاہیے تاکہ کوئی وہاں سے نہ آ سکے اور نہ ہی کچھ کر سکے۔ یہ بھی ہماری غلطی تھی، میں نے اس کے بارے میں بھی انہیں  بتایا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مرکزی وزارت داخلہ اور سی آر پی ایف کی لاپرواہی اور نا اہلی کا نتیجہ تھا۔ ‘اگر میں وزیر داخلہ ہوتا تو میں  ذمہ داری قبول کرتا۔ میں عہدے سے استعفیٰ دے دیتا۔ یہ ملکی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔ ہماری نا اہلی کی وجہ سے 40 بیش قیمتی جوانوں نے اپنی جان گنوا دی ۔

انہوں نے ایک اور جواب میں کہا، ‘جس شخص کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا، وہ اندر (ملک میں) داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ پاکستان  ہی تھا ، جس نے یہ سب انتظامات کیے۔ لیکن یہ شرم کی بات ہے اور میں بھی یہ غلطی مانتا ہوں کہ وہ کار اس علاقے،گاؤں –دیہات میں دس بارہ دنوں  تک گھومتی رہی اور ہم اس کا پتہ  نہیں  لگا سکے۔

جب تھاپر نے کہا کہ یہ انٹلی جنس کی بہت بڑی لاپراہی تھی، ملک نے کہا، 100 فیصدی ۔ یہ سسٹم کی غلطی تھی۔ اس کا ذمہ دار میں بھی ہوں کیونکہ اس وقت ریاست کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ اس معاملے میں سب کی طرف سے لاپرواہی ہوئی تھی۔

اس کے بعد جب تھاپر نے پوچھا کہ کیا پلوامہ کی پوری سچائی کبھی سامنے آئے گی، تب  ملک نے کہا، ہاں، آ سکتی ہے۔حکومت کے پاس سب کچھ ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ نہ جانتے ہوں۔ حکومت کے پاس اس کے بارے میں عام لوگوں کو آگاہ نہ کرنے اور اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کی وجوہات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، میں دہرا رہا ہوں کہ اس سانحہ کو کسی اور چیز کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم  نے معاملے کی تہہ تک جانے کے بجائے الزام کسی اور پر ڈال دیا۔ کسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔