گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔
دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔
پہلگام حملے کے دو دن کے اندر ہی وادی میں گیارہ مکانوں کو تہس نہس کر نے اور گرفتاریوں کے سلسلہ کی وجہ سے خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مکانات ان خاندانوں کے تھے، جن کے افراد خانہ نے واردات میں مدد دی تھی۔ ابھی تو تفتیش کا آغاز بھی نہیں ہوا۔یہ کس طرح کا انصاف ہے؟
سینکڑوں کشمیری طلبہ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد نشانہ بنائے گئے 45 کشمیری طالبعلم پنجاب سے واپس آ گئے ہیں۔ انہیں امید نہیں ہے کہ وہ جلد ہی کالج لوٹ سکیں گے، اور اس سے ان کےمستقبل پر اثر پڑسکتا ہے۔
جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے، نمائشی اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردوں کے ذریعے سیاحوں پر حملے کے بعد وزیر داخلہ کے علاقے میں سیکورٹی اور امن قائم ہونے کے دعووں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سینئر صحافی سنجے کے جھا اور دی وائر کی نیشنل افیئرز کی ایڈیٹر سنگیتا بروآ پیشاروتی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری ۔
مرکزی حکومت نے 24 اپریل کو بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں کاروبار کی ترقی اور سیاحت کی واپسی سمیت سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود پہلگام دہشت گردانہ حملہ ایک ‘چوک’ تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے میٹنگ میں پی ایم مودی کی غیر حاضری اور حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
پہلگام کی بیسرن وادی میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم 26 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، کم از کم دو حملہ آوروں نے غیر مسلموں کو چن کر نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں نے لوگوں کی مذہبی شناخت کی تصدیق کی اورنزدیک سے گولی مار ی۔
اپنی یاد داشت لکھنے کے بجائے بساریہ نے، جو 2017 سے 2020 تک ہائی کمشنر کے عہدہ پر رہے، پاکستان میں 1947 سے لےکر موجودہ دور تک ہندوستان کے سبھی 25 سفیروں کے تجربات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ چند تضادات اور کچھ غلط تشریحات کو چھوڑ کر یہ کتاب، ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات و حالات پر نظر رکھنے والوں اور تجزیہ کاروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں 21 دسمبر کو دہشت گردانہ حملے میں 4 جوانوں کی موت کے بعد فوج نے کچھ لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ بعد میں ان میں سے تین افراد کی لاشیں اس جگہ کے قریب ملیں جہاں دہشت گردوں نے فوج پر حملہ کیا تھا۔ پانچ دیگر کو زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا، جن میں ایک نابالغ بھی شامل ہے۔
سی بی آئی نے جموں و کشمیر میں مبینہ انشورنس گھوٹالہ کیس کے سلسلے میں سابق گورنر ستیہ پال ملک سے نئی دہلی میں ان کی رہائش گاہ پرپوچھ گچھ کی۔ ملک نے کہا کہ وہ اس معاملے میں شکایت گزار ہیں ۔ سی بی آئی کو شکایت کرنے والے سے ایسے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے 2019 میں ہوئے پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی حکومت پر کئی سنگین الزامات عائد کیے تھے، جس کے بعد اس حملے میں جان گنوانے والے 40 فوجیوں میں سےبعض کے اہل خانہ واقعہ کی جانچ کی مانگ کر ر ہے ہیں۔
پلوامہ کے علاوہ ہندوستانی پارلیامان پر حملہ، 2008 میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ، 1995میں کشمیر کے پہلگام علاقہ سے پانچ مغربی سیاحوں کا اغواء، اسی سال یوم جمہوریہ یعنی26 جنوری کو اس وقت کے کشمیر کے گورنر کے وی کرشنا راؤ پر قاتلانہ حملہ، ایسے چند واقعات ہیں، جن کی بھر پور پیشگی اطلاعات حکومت کے پاس تھیں ،مگر ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔کیا یہ سبھی فالس فلیگ آپریشن تھے؟ کیا ان کا مقصد صرف پاکستان کو عالمی منظر نامے میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا؟
پلوامہ حملے کے حوالے سے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کی طرف سے مودی حکومت پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں انڈین آرمی کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر رائے چودھری نے کہا ہے کہ پلوامہ میں جان و مال کے نقصان کی بنیادی ذمہ داری وزیر اعظم کی قیادت والی حکومت کی ہے، جسے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال مشورہ دیتے ہیں۔
کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ پلوامہ حملہ مرکزی وزارت داخلہ کی نااہلی اور لاپرواہی کا نتیجہ تھا۔
یہ معاملہ جنوبی کشمیر کے کلگام ضلع کا ہے۔ پولیس کےمطابق، دہشت گردوں کے حملے میں ایک مزدور شدید طور پر زخمی ہو گیا۔ حملے میں ہلاک ہوئے سبھی مزدور مغربی بنگال کے مرشد آباد کے تھے۔
مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر کیے جانے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں مسیحی افراد کی ہلاکتوں کا سوگ ابھی تھما نہیں تھا کہ سری لنکا کے سینکڑوں مسلمان شہریوں کو مذہبی کشیدگی کی وجہ سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
لوک سبھا میں حکومت کے ذریعے دیے اعداد و شمار کے مطابق؛ گزشتہ 4 سالوں سے زیادہ وقت میں جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں کے معاملات میں 177 فیصدی سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ریاست میں دہشت گردی کے 222 واقعات ہوئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 614 رہی۔
کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک میں کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ لگتا ہے مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔آسام پولیس نے مئی میں ایسے ہی ایک معاملے پوچھ تاچھ کے لئے6 افراد کو حراست میں لیا۔بعد میں معلوم ہوا وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔
پولیس کا الزام ہے کہ سازش کرنے والے شخص اجمیری اس معاملہ میں نام آنے کے بعد سے فرار ہوگیا تھا۔ احمد آباد: گجرات کے دارالحکومت گاندھی نگر میں واقع مشہور اکشردھام مندر پر ستمبر 2002 میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی سازش کرنے والے ایک اہم ملزم کو […]