بائیڈن کی تاجپوشی، امیدیں اور اندیشے
بڑا سوال ہے کہ اوبامہ نے مشرق وسطیٰ میں جس طرح امیدیں جگائیں تھیں، کیا بائیڈن ان میں کوئی رمق پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بارہ سال قبل کا خوشگوار ماحول اب نفرت میں تبدیل ہو گیا ہے۔
بڑا سوال ہے کہ اوبامہ نے مشرق وسطیٰ میں جس طرح امیدیں جگائیں تھیں، کیا بائیڈن ان میں کوئی رمق پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بارہ سال قبل کا خوشگوار ماحول اب نفرت میں تبدیل ہو گیا ہے۔
سوال ہے کہ آخر مودی نے صدسالہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے پر کیوں اصرار کیا؟ کیامودی نے مسلم دنیا کو پیغام دینے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب کا انتخاب کرکے موقع کا فائد ہ اٹھایا۔ عرب حکمرانوں کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کے پیش نظر مودی حکومت کے لئے ضروری تھا کہ وہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار ان کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک اور مختلف قوانین کے بہانے انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
گجرات 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد سیکولر اور لبرل طاقتوں نے کانگریس کو اقتدار میں پہنچایا تھا، اس لیے کئی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس قتل عام میں ملوث سیاسی لیڈران بالخصوص نریندر مودی پر قانون کا شکنجہ کسنا چاہیے۔کئی مقتدر کانگریسی لیڈران بھی اس پر مصر تھے، مگر احمد پٹیل نے دلیل دی کہ مودی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔اس طرح ایک گجراتی نے دوسرے گجراتی کو قانونی شکنجہ سے بچاکر کئی سال بعد اس کے لیے وزارت اعظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا آسان بنایا۔
پچھلے 27 برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور ممبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کی نمازیں ادا کیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مساجد جانوروں کے باڑوں یا موٹر گیراج کا کام دے رہے تھے۔پچھلے 27 برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کی نمازیں ادا کیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مساجد جانوروں کے باڑوں یا موٹر گیراج کا کام دے رہے تھے۔
مودی کے رتھ کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ دارکانگریس ہے، جس کی من مانی اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں لڑنے کی ضد نے سیکولر اتحاد کی کامیابی میں روڑے اٹکائے۔اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا جنوبی صوبہ کیرالا کا ماڈل اپنا لیں؟
اندازہ ہے کہ افغانستان، فلسطین،عرب-اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جوبائیڈن کی انتظامیہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو برقرار رکھے گی مگر حقوق انسانی کے حوالے سے امریکہ سے اب کچھ زیادہ چیخ و پکار سنائی دی جائےگی۔
ایک جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، مگر کسی بھی مہذب سوسائٹی میں آزادی مطلق نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر سوسائٹی میں کسی بھی طرح کا کنٹرول نہ ہو، تو کمزوروں کے حقوق پامال ہوں گے اور انارکی کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔ ڈنمارک کے […]
بہارکے انتخابی نتائج کا ہندوستان کے مجموعی سیاسی نقشہ پراثر اندازہونا یقینی ہے۔کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دوران مہاجربہاری مزدوروں کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے جب بی جے پی نے دیکھا کہ اس کا’وکاس’کا نعرہ کام نہیں کر رہا ہے، تو وہ اپنی سابقہ روش پر اتر آئی ہے۔
اگر موجودہ حالات و کوائف پرنظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں 47 کے واقعہ کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق کابینہ وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو 47یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔
ہندوستان اور اسرائیل کی موجودہ حکومتیں ٹرمپ کی سب سے زیادہ حمایتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو ٹرمپ کے لیے امریکہ اور پھر ہندوستان میں جلسوں کا بھی اہتمام کیا۔
نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
خصوصی مضمون : ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ نگاری کتنی اہم اور اس سے کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کس طرح ہوسکتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال دہلی یونیورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی ہیں، جن کو دہلی کی ایک عدالت نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر ہوئی بات چیت کی وجہ سے پارلیامنٹ حملہ میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے میں یونان اور ترکی کے مابین کشیدگی کا کیا انجام ہوگا؟ خیر عالمی گریٹ گیم شروع ہوچکی ہے۔ بس انتظا ر ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
بہت سے اسکالرز کی طرح مولانا امین عثمانی نے بھی اپنے پیچھے تصنیفات نہیں چھوڑیں،مگر انہوں نے جس طرح اجتہاد کا دروازہ کھولنے کا کام کیا اور فقہ اکیدمی کے توسط سے ایسے کام کروائے جو سوچنا بھی محال تھا۔وہ مدارس اور مسلمانوں کی زندگی میں اصلاح کے حامی تھے۔خصوصاً اسلام میں خواتین کو دیے گئے حقوق کےنفاذ کے زبردست حامی تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اس پر سختی سے عمل کریں۔
پرنب مکھرجی نے ہند و قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دفتر جانا منظور کیا تو ان کے کئی دوستوں کو جھٹکا لگا۔ابھی ان کی سوانح حیات کی تیسری جلدکا انتظا ر ہے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ اس جلد کو ان کی وفات کے بعد ہی شائع کیا جائے۔
جے کے سی سی ایس نے اپنی ایک جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ مواصلاتی رابطوں کو بند کرنے میں کشمیر دنیا کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال رواں کے ماہ جنوری میں جب ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کی گئیں، تب سے بھی 70 بار عارضی طور پر اس کو معطل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمراں اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرکان لگا کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکال کر اسرائیل اور امریکہ کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلہ کا حل ڈھونڈ کر خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
جنوبی ایشیاکے جید ماہرین تعلیم سروپلی رادھا کرشنن، ذاکر حسین، خواجہ غلام السیدین یا پاکستان کے عطا الرحمان جیسی شخصیات کی صف میں آغا صاحب کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ انہوں نے خاص طور پر کشمیر ی مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کروانے اور خطے کی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
گر چہ لگتا تھا کہ آبادی کے تناسب کو بگاڑنے میں کئی سال لگ جائیں گے اور امید تھی کی اس دوران تاریخ کا پہیہ پلٹ کر شاید کشمیری عوام کی مدد کو آئےگا، مگر باہری افراد کی اتنی بڑی تعداد کو اگر یک مشت شہریت دی جاتی ہے تو آباد ی کا تناسب راتوں رات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
ایک سال کے بعد اس آئینی اسٹرئیک کی افادیت اور حصولیابیو ں کی جو دستاویز ہندوستانی حکومت نے جاری کی ہے، اس کے مطابق کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے سے کھلے میں رفع حاجت کرنے کو روکنے پر صد فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔لیجیے ہم تو سمجھےتھے کہ پانچ اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور ہندوستان کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا تھا، مگر مودی حکومت نے تو اس سے بھی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
بیشتر اقوام نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی ہے۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہےتو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا۔
بندوقوں کے دہانے ان لوگوں کی طرف کردیے گئےجو باغ میں نماز ادا کرنے کےلیے صف بستہ تھے۔ ایک شخص دیوار کی بلندی سے اذان دے رہا تھا کہ پولیس کی گولی سے ڈھیر ہوگیا۔ جو ش وجنوں کا یہ عالم تھا کہ اس کی جگہ دوسرے نے اذان وہاں سے جاری رکھی، جہاں سے پہلا شخص گولی لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ اس کو بھی گولی سے بھون دیا گیا۔ اس طرح 22افراد جام شہادت نوش کر گئے۔
مودی کی طرح نتین ہاہو بھی غیر روایتی اور خطرات مول لینے والے سیاستدان ہیں۔جس طرح انتہا پسند ہندوؤں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے، اسی طرح یہودی انتہا پسندو ں کے لیے بھی نتین یاہو ایک عطیہ ہیں۔حالاں کہ اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نتین یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ دنیا کی سب سے بڑی کہلانے والی جمہوریت،ہندوستان کے لیے ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی حب الوطنی کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے
نریندر مودی چاہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔مگر اب اس گیم میں چین دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا کام کر رہا ہے، جس کی شہہ پر چھوٹے پڑوسی ممالک بھی ہندوستان کی نو آبادیاتی طرز فکر کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔
افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اس کو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔
شجاعت کا قتل نہ صرف امن مساعی بلکہ کشمیر میں صحافت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا تھا، جس سے کشمیری صحافت ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہے۔
ہتھنی کی موت مسلم اکثریتی ضلع مالا پورم کے ایک دریا میں ہوئی تھی، تو مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا موقع کیسے گنوایا جاتا۔پاکستان اور مسلمانوں کو نشانہ بناکر اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا حکمران بی جے پی اور اس کے حواریوں کے لیے ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔
چین کی ناراضگی کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جو دستاویزات سامنے آئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان-چین سرحدی تنازعہ بس ایک مفروضہ ہے، جس سے پچھلے 70سالوں سے ہندوستانی حکومت عوام اور میڈیا کو بیوقوف بنارہی ہے۔
چند برس قبل بی جے پی کی آئی ٹی سیل میں کام کرنے والے ایک نوجوا ن نے بتایا کہ ان کو مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی بھر پور ٹریننگ دی جاتی ہے۔مختلف ناموں سے شناخت بناکر سوشل میڈیا پر کسی مسلم ایشو کو لےکر بحث شروع کروائی جاتی ہے یا قرآن و حدیث و شریعت کو لےکر دل آزاری کی جاتی ہے۔
افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔
ہندوستان افغانستان کے معاملات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے، اس لیے بین الاقوامی برادری کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں امن و سلامتی تبھی ممکن ہے جب کشمیر میں بھی سیاسی عمل کا آغاز کرکے اس مسئلہ کا بھی کوئی حتمی حل تلاش کرایا جائے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مساجد میں اذانیں تو ہو رہی ہیں، مگر آپ نماز اور افطار کے لیے باہر نہیں جاسکتے ہیں۔لاک ڈاؤن سے یقیناًکائنات کی رنگینیاں پھیکی پڑ گئی ہیں، مگر گھروں کے اندر کا رمضان پھر بھی تہاڑ جیل کے روزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔
کورونا وائرس سے اب تک کشمیر میں 6افراد ہلاک ہوئے ہیں، مگر بندوقوں سے 50افراد پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران جاں بحق ہوئے ہیں۔صرف اپریل کے مہینے میں ہی اب تک 37افراد ہلاک ہوئے ہیں، جس میں ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے، جو لائن آف کنٹرول کے آر پار گولیوں کے تبادلہ میں ہلاک ہوگیا۔
ہندوستان میں جہاں اس وقت پورا ملک لاک ڈاؤن کی زد میں ہے، پولیس نے اس کا فائدہ اٹھا کر چن چن کر ایسے نوجوان مسلمانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو پچھلے کئی ماہ سے شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ میں پیش پیش تھے۔
تین سالوں میں وزارت صحت نے وبائی امراض سے متعلق قانون کو حتمی شکل دینے کے لیے صلاح ومشورہ کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس کو پارلیامنٹ میں لانے کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، جہاں اسکو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر غور و خوض کیا جاسکتا تھا۔ جہاں حکومت کی تمام تر توجہ اقلیتی طبقہ کو زچ کرنا، اکثریتی فرقہ کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے نیشنل ازم کا راگ الا پ کر ووٹ بٹورناہووہاں صحت سے متعلق قانون سازی کی کس کو فکر ہوتی۔
جس وقت حکومت کی ترجیحات میں اسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانا اور لاک ڈاؤن کے درمیان عوام کے لیےراشن پانی کا خیال رکھنا تھا، اس وقت مشین گن خریدنے اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر خرچ کرنے کا کام نیرو جیسا حکمراں ہی کر سکتا ہے۔ پورے ہندوستان میں 1.3بلین آبادی کے لیے صرف 40ہزار وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسرائیلی مشین گن کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ روپے ہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہیں تو اس رقم سے 17ہزار وینٹی لیٹرز ہی خریدے جاسکتے تھے۔
ہندوستان میں میڈیا اور حکومتی حلقے اعتراف کرتے ہیں کہ کیرالہ صوبہ کی بائیں بازو اتحاد حکومت نے قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے دوران عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھ کر بغیر خوف و ہراس پھیلائے خاصی حد تک وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔