تحریک آزادی

فوٹو بہ شکریہ : وکی پیڈیا

سیڈیشن کا الزام عائد کیے جانے پر مولانا آزاد نے کیا کہا تھا

میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں؛ گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

سیڈیشن پر سپریم کورٹ کے تبصرے سے وکلاء کا اتفاق، کہا-اختلاف رائے کو دبانے کے لیے تھوپے جاتے ہیں مقدمے

وکیل ورندا گروور نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2019 میں سیڈیشن کے 30 معاملوں میں فیصلہ آیا، جہاں 29 میں ملزم بری ہوئے اور محض ایک میں سزا ہوئی۔ گروور نے بتایا کہ 2016 سے 2019 کے بیچ ایسے معاملوں کی تعداد 160فیصد تک بڑھی ہے۔

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ نے سیڈیشن کے قانون پر تشویش کا اظہار کیا، پوچھا-آزادی کے 75 سال بعد بھی اس کو بنائے رکھنا ضروری کیوں

آئی پی سی کی دفعہ124اے کو چیلنج دینے والی عرضی پر مرکز سے جواب طلب کرتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ یہ نوآبادیاتی دور کا قانون ہے، جسے برٹش نے آزادی کی تحریک کو دبانے اور مہاتما گاندھی اور دوسروں کو چپ کرانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ کیا آزادی کے اتنے وقت بعد بھی اسے بنائے رکھنا ضروری ہے۔

بھگت سنگھ، فوٹو: وکی میڈیا کامنس

بھگت سنگھ کے فکر و فلسفہ کو نہیں ماننے والا رائٹ ونگ ان کو اپنا ہیرو کیوں بنانا چاہتا ہے؟

بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو بنانے کی کوشش وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے اسلاف ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بھگت سنگھ جیسے انقلابی لیڈروں کے فلسفے سے نہ صرف خود کو الگ تھلگ رکھا تھا بلکہ ان کی پھانسی کے وقت مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کر لی تھی۔

بھگت سنگھ، فوٹو: وکی میڈیا کامنس

بھگت سنگھ اور نیشنل کالج

بھگت سنگھ اپنے کھلے جسم اور قد کاٹھ کی وجہ سے ہر طرح سے ہیرو لگتا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنی پاٹ دار آواز میں ڈائیلاگ کی ادائیگی کرتا تو ڈرامہ سامعین کے دلوں میں اُتر جاتا۔ ان ڈراموں کا مقصد بھی یہی تھاکہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی جائے اور لوگوں میں دیش بھگتی کے جذبات اُبھارے جائیں۔ جلد ہی حکومت نے کالجوں میں ایسے ڈرامے کرنے پر پابندی لگادی جن میں دیش بھگتی کا پیغام ہوتا تھاکیونکہ دیش بھگتی سے مراد انگریز حکومت سے بغاوت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

فوٹو : پی ٹی آئی

سیڈیشن جیسا ظالمانہ قانون کیوں ختم نہیں کیا جا رہا ہے؟

اس کتاب میں سیڈیشن جیسے پیچیدہ موضوع پراس طرح اور عام فہم زبان میں بات کی گئی ہے کہ پرائمر بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔اس میں میں کچھ ایسے بھی اہم سیڈیشن معاملات پر گفتگو کی گئی ہے جس کا عام طور پر سیڈیشن سے متعلق مباحث میں ذکر نہیں ہوتا۔