BR Ambedkar

روہت ویمولا اور پائل تڑوی (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

تعلیمی اداروں میں ذات پات کی تفریق کی جانچ کے لیے بنائی گئی یو جی سی کمیٹی کے پاس کوئی حل نہیں

مبینہ ادارہ جاتی امتیازی سلوک اور تفریق کے سبب روہت ویمولا اور پائل تڑوی کی خودکشی کے معاملے میں ان کی ماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی پر یو جی سی نے اس معاملے کی جانچ کے لیے 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اگرچہ کمیٹی کے ارکان کے پاس امتیازی سلوک اور ذات پات کی تفریق سے نمٹنے کا کوئی ٹریک ریکارڈ نہیں ہے، اور وہ بی جے پی کے قریبی ہیں۔

Constitution-of-India

آئین سازی کے دوران سوشلسٹ پارٹی کا لہجہ الگ کیوں تھا؟

دسمبر 1946 میں جب آزاد ہندوستان کے لیےآئین سازی کی مشق شروع ہوئی اور دستور ساز اسمبلی کی تشکیل ہوئی تو کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئےاس مجوزہ دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کیاکہ یہ ‘ایڈلٹ فرنچائز’ یعنی بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب اسمبلی نہیں ہے۔

rohith_vemula-PTI

امبیڈکر سے محبت کا دعویٰ کرنے والے روہت ویمولاکے نام سے کیوں گھبراتے ہیں؟

پیدائشی پہچان کے ذریعے ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کو تعلیم سے ہی ڈر لگنے لگے۔ مگر کچھ لوگ سب جھیلتے ہوئے باہر نکل ہی آتے ہیں اور اب ایسے لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہوتی جا رہی ہے۔وہ باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی اس صلاح پر عمل کرنے لگے ہیں-

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

روہت ویمولا اور پائل تڑوی کی ماؤں کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس بھیجا

2016 میں حیدرآبادیونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولا اور اس سال مئی میں ممبئی کے ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹرپائل تڑوی نے مبینہ طور پر ذات پات کی بنیاد پرامتیازی سلوک کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ دونوں کی ماؤں نے سپریم کورٹ سے یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے امتیازی سلوک کو ختم کئے جانے کی اپیل کی ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اداروں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف عدالت پہنچیں روہت ویمولا-پائل تڑوی کی مائیں

مبینہ طور پر ذات پات کی بنیا دپر امتیازی سلوک کو ذمہ دار بتاتے ہوئے حیدرآباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے روہت ویمولا نے سال 2016 میں اور اسی سال مئی میں ممبئی کے ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹر پائل تڑوی نے خودکشی کر لی تھی۔

Rajasthan-High-Court-Manu

راجستھان ہائی کورٹ میں لگا منو کا مجسمہ ایک بار پھر تنازعے میں کیوں ہے؟

منو کے مجسمہ کو ہائی کورٹ کے احاطے سے ہٹانے کی عرضیاں سال 1989 سے زیر التوا ہیں، جن پر 2015 کے بعد سے سماعت نہیں ہوئی ہے۔ سوموار کو اورنگ آباد کی دو خواتین کے مجسمہ پر سیاہی پوتنے کے بعد معاملہ پھر گرما گیا ہے۔