انٹرویو: مؤرخ، ماہر تعلیم اور حقوق نسواں کی علمبردار اُوما چکرورتی ملک کی آزادی کے وقت چھ سال کی تھیں۔ تعلیمی سرگرمیاں، سماجی خدمات اور فلم پروڈکشن کے شعبوں میں بیش بہا کارنامہ انجام دینے والی اُوما کا کہنا ہے کہ آج مذہب کے نام پر ہو رہی لنچنگ، فسادات وغیرہ تحریک آزادی اور اس کے وعدوں کے ساتھ فریب ہے۔
حقوق نسواں کی علمبردارکملابھسین اپنی سادگی اور صاف گوئی سےکسی بھی مسئلہ کےاندرون تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔انہوں نے ماہرین تعلیم اورحقوق نسواں کے علمبرداروں کےدرمیان جس سطح کی عزت حاصل کی، وہ سماجی کارکنوں کے لیےعام نہیں ہے۔ان کے لیے وہ ایک آئی-کان تھیں،تانیثی ڈسکورس کو ایک نئے نظریے سے برتنے کی ایک کسوٹی تھیں۔
ہندوستان اورجنوب ایشیائی خطے میں تحریک نسواں کی علمبردار رہیں 75 سالہ کملا کا سنیچر کوانتقال ہو گیا۔ وہ صنفی مساوات ،تعلیم ، غریبی کے خاتمے،انسانی حقوق اور جنوبی ایشیا میں امن کے مسئلوں پر 1970 سے مسلسل سرگرم تھیں۔
راجپوت کمیونٹی کی کھاپ پنچایت نے کہا کہ جینس جیسےملبوسات مغربی کلچر کا حصہ ہیں اور خواتین کو ساڑی، گھاگھرا اورسلوارقمیص جیسے روایتی ہندوستانی ملبوسات پہننا چاہیے۔ پنچایت نے وارننگ دی ہے کہ جو بھی اس حکم کی خلاف ورزی کرتے پائے جا ئیں گے انہیں سزا دی جاسکتی ہےاوران کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔
معاشرتی عدم مساوات سے گھرے ہوئے ہندوستانی قصبوں اورگاؤں کی عورتیں اپنے حالات کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف اپنی سطح پر کسی بھی طرح اگر پدری نظام کو چیلنج دے رہیں ہیں تو کیا وہ بڑے شہروں میں تانیثیت کی آواز بلند کر رہی خواتین سے کسی طور پرکمتر ہیں؟
ہم ساوتری بائی پھولے کو صرف ڈاک ٹکٹ کے لئے یاد نہ کریں۔یاد کریں تو اس لئے کہ اس وقت کا سماج کتنا گھٹیا اور ظالم تھا۔ اس سماج میں ایک دلیر خاتون بھی تھیں جن کا نام ساوتری بائی پھولے تھا۔
انٹرویو: کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال اور می ٹو تحریک سے جڑے مختلف پہلوؤں پر معروف مؤرخ اور حقوق نسواں کی علمبرداراوما چکرورتی اورامبیڈکریونیورسٹی کی استادوسودھا کاٹجو سے سرشٹی شریواستو کی بات چیت۔
تھیٹر میں عورتوں کی موجودگی اور ان کے مسائل پر تھیٹر آرٹسٹ اور ہدایت کار پرینکا شرما سے فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
اُردو کی معروف افسانہ نگاراورمنٹو پرتحقیق کرنے والی محقق نگارعظیم سے عورتوں کے لکھنے کی جدوجہد اور پدری نظام کے موضوع پر فیاض احمدوجیہہ کی بات چیت۔