فکر و نظر

’آزادی کی سات دہائیوں میں ان اُصولوں پر عمل نہیں کیا گیا، جن پر چل کر ملک کو آزادی ملی تھی‘

انٹرویو:  مؤرخ، ماہر تعلیم اور حقوق نسواں کی علمبردار اُوما چکرورتی ملک کی آزادی کے وقت چھ سال کی تھیں۔ تعلیمی سرگرمیاں، سماجی خدمات اور فلم پروڈکشن کے شعبوں میں بیش بہا کارنامہ انجام دینے والی اُوما کا کہنا ہے کہ آج مذہب کے نام پر ہو رہی لنچنگ، فسادات وغیرہ تحریک آزادی اور اس کے وعدوں کے ساتھ فریب ہے۔

اُوما چکرورتی۔ (تصویر بہ شکریہ: bangaloreinternationalcentre.org)

اُوما چکرورتی۔ (تصویر بہ شکریہ: bangaloreinternationalcentre.org)

پندرہ  اگست 1947 کو جب ملک کوآزاد ملی— معروف مؤرخ اورحقوق  نسواں کی علمبردار  اُوما چکرورتی محض چھ سال کی  تھیں اور دہلی کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھیں۔ لیکن اس دن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں۔ 20 اگست 1941 کو دہلی میں پیدا ہونے والی اُوما ایک محنتی اور حساس طالبہ رہی ہیں، انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں تحریک آزادی کے عروج، ملک کی آزادی، تقسیم کے وقت ہونے والےتشدد، گاندھی جی کےقتل  کادور اور آئین کو بنتے ہوئے دیکھا۔  اس کے بعد اُوما نے ہندوستانی جمہوریہ اور اس کے آئینی نظام کو بتدریج قائم ہوتے دیکھا اور سمجھا ہے۔

آزادی کے بعد کے برسوں میں ملک جن چھوٹے بڑےواقعات اور سوالوں سے گزرا ہے اس کا اثر بھی اُوما کی شخصیت اور علمی کارناموں  پر صاف نظر آتا ہے۔ اکثر لوگ اُوما کو حقوق نسواں کی مؤرخ اور ہندوستان میں تحریک نسواں کی ‘فاؤنڈگ مدر’ کی حیثیت  سے جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں، تعلیمی خدمات  اور دہلی یونیورسٹی کے مرانڈا ہاؤس میں تین دہائیوں (1966-98) تک درس و تدریس کا فریضہ انجام دینا ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو رہا ہے۔

وہ ستر کی دہائی سے ہی حقوق نسواں کی تحریک اور جمہوری حقوق کے لیےہونے والی مختلف تحریکوں سے وابستہ رہی ہیں اور سکھ فسادات، گجرات فسادات جیسے کئی مسائل پر متاثرین کو انصاف دلانے کے میدان میں بھی انہوں نے بیش بہا  کام کیا ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن کے طور پر اُوما کئی فیکٹ فائنڈنگ ٹیموں اور تحریکوں کا حصہ رہی ہیں۔

اُوما نے پچھلی دہائی میں مجموعی طور پر سات فلموں کی ہدایت کاری کی ہے – اے کوائٹ لٹل انٹری، فریگمینٹس آف اے پاسٹ، ایک انقلاب اور آیا: لکھنؤ 1920-1949، پریزن ڈائریز،مینی سنس بیہائنڈ اے ڈارک اسکائی، دربارِ وطن اور یہ لو بیان ہمارے) جن کے ذریعے اوما نے سیاست اور سماجی شعبے میں سرگرم خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور دکھ کی داستان سنائی ہے۔

اُوما نے ذات پات اور خواتین کے مسائل سمیت تاریخ کے کئی موضوعات پر تقریباً سات کتابیں اور پچاس سے زیادہ تحقیقی مضامین تحریر کیے ہیں۔ ان کے اہم کام ذات پات اور جنس (جینڈر)کے سماجی تانے بانے کے ساتھ ہی بدھ مت اور قدیم ہندوستان کی تاریخ کے تجزیے سے متعلق ہیں۔ انسانی حقوق کی کارکن، حقوق نسواں کی علمبردار، استاد، مؤرخ، مصنف اور فلمساز کے طور پر اُوما چکرورتی نے بار بار جمہوری اور آئینی اقدار کے حق میں اور ہر طرح کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

اس یوم آزادی پر اُوما چکرورتی سے 76 سال قبل اس دن  سے وابستہ ان کی یادیں، تجربات اور آزاد ہندوستان کے اہم واقعات کو ان کے کام اور نظریے سےسمجھنے کی غرض سے دی وائر کے لیے سرشٹی شریواستو نے  بات چیت  کی ہے۔

آپ نے ملک کو آزاد ہوتے دیکھا، پہلی بار آزاد ہندوستان کا پرچم لہراتے ہوئےدیکھا۔ 1947 میں ملک کی آزادی کےحوالے عام لوگوں کے اندرکیا احساس  گامزن تھے؟ساتھ ہی  اس کے بعد شروع ہوئے بٹوارے  کا اس جذبے اور جشن پر کیا اثر تھا؟

مجھےیاد ہے کہ 1947 میں 14-15 اگست کی آدھی رات کو جب ملک آزاد ہوا،  تو15 اگست کو میرے اسکول میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی اور ہم سب کو مٹھائی ملی تھی۔ میں نے آزادی کے اس دن کو جشن کی طرح سمجھا تھا۔ جس وقت پہلی بار ترنگا پھہرایا گیا تھا اس لمحےکی یاد آج بھی بالکل تازہ ہے کیونکہ اس ماحول میں جھنڈا پھہرائے جانےکی بڑی اہمیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ ترنگے سے میری  وابستگی آج بھی ہے۔

میں آج کے ہندوستان میں ترنگے سے وابستہ تضاد کو سمجھتی ہوں، لیکن اس دور میں ترنگا انگریزوں سے ملک کی آزادی کی علامت تھا۔ میری بہن تب  8 سال  کی تھی اور بڑا بھائی 10 سال  کاتھا۔ اس وقت سیاست کی تو سمجھ نہیں تھی، لیکن بچوں کو ان کے تجربے کی بنیاد پرآزادی اور ترنگے کے بارے میں جتنی سمجھ  ہوسکتی  ہے— وہ تھی۔ عام لوگوں میں بھی خوشی کا ماحول تھا اور اپنے ملک کے لیے بہت سے خواب اور امیدیں تھیں۔ لیکن یہ جشن زیادہ دیر تک جاری نہ رہ  سکا۔

ایک ہی پل  ملک میں آزادی کا جشن تھا، لوگوں کے دلوں میں یہ احساس تھا کہ اب ان کے ملک کے حالات بہتر ہوں گے اور دوسرے  ہی پل اس جشن کا رنگ پہلے تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے دنگے،قتل و غارت اور پھر مہاتما گاندھی کے قتل کی وجہ سےپھیکا پڑ چکا تھا۔ادھر ترنگاپھہرانے کا جشن منایا جا رہا تھا اور کچھ وقت بعد ہی تقسیم کی وجہ سے فسادات شروع ہو گئے تھے جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو مجبوری میں اپنا گھر، زمین اور اپنا ملک چھوڑنا پڑا تھا اور بے گھر ہو کر دوبارہ اپنی زندگی شروع کرنی پڑی۔

تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات سے متعلق ایک واقعہ میرے گھر کے بالکل سامنے پیش آیا،  جہاں تین مسلمان اپنی جان بچانے کے لیے پولیس اسٹیشن کی طرف بھاگ رہے تھے، جو اب سنسد مارگ تھانہ ہے۔ اس کے پیچھے ایک پولیس ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا۔ شاید وہ سوچ رہے تھے کہ پولیس اسٹیشن میں محفوظ رہیں گے۔ چونکہ یہ واقعہ میرے گھر کے سامنے پیش آرہا تھا، اس لیے میرے بھائی بہنوں نے بھی صاف دیکھا، اس عمر میں میں اس کی وجہ تو سمجھ نہیں آئی تھی، لیکن اس کا ہم پر بہت زیادہ  اثر ہوا تھا۔ اس کے فوراً بعد میں بیمار پڑ گئی تھی اور میری والدہ بتاتی ہیں کہ اس بخار کے عالم میں میں پوچھ رہی تھی کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو کیوں مار رہے ہیں۔ مجھے شاید اتنی عقل نہیں تھی کہ  میں اس کی وجہ سمجھ سکتی، لیکن دوسروں کی طرح اس  غصے کو میں بھی محسوس کر رہی تھی۔

میرا اسکول (نوین بھارت ہائی اسکول) ایک خالی زمین کے قریب منتقل کیا گیا تھا، اب اس جگہ کے قریب ارکان پارلیامنٹ کے کوارٹر ہیں۔ جہاں اسکول چل رہا تھا، وہاں کوئی گیٹ یا دیوار نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے وہاں  ایک عمر دراز سردار آتے تھے جو بہت بڑبڑاتےتھے اور قصہ  سناتےرہتے تھے۔ وہ پاکستان سے آئے ہوئے تھےاور رفتہ رفتہ میرے لیے وہ  ٹوبہ ٹیک سنگھ ہو گئے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے، ‘ماں میں کبھی نہ پنڈی جاواں اُتھے میری ماں مری سی اُتھے میرا پیو مرا سا’ (میں کبھی وہاں نہیں جاؤں گا جہاں میرے والدین مرے تھے)۔ انہوں نے اپنے خاندان کو وہاں کھویا تھا اور شاید اس اسکول میں ان کو کچھ سکون ملتا تھا۔ ان جیسے لوگوں کے لیےتوملک کی آزادی اپنے ساتھ بہت سے دکھ اور مصیبت لے کر آئی تھی۔

اسی طرح مجھے مہاتما گاندھی کے قتل کا دن بھی اچھی طرح یاد ہے۔ ہم بنگلہ صاحب گوردوارہ کے قریب رہتے تھے۔ اس وقت اکثر لوگوں کے گھروں میں ریڈیو بھی نہیں تھے، لیکن جیسے ہی یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اور بات پھیلی، تو لوگ خود کو  گھروں میں  روک نہیں پائے۔ سب  باہر آ کر ایک دوسرے کے ساتھ اس دکھ کو بانٹنے یا  یوں کہیں کہ اس صدمے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہےتھے۔ میں اپنے والد کے ساتھ کنگس وے (جواب راج پتھ ہے) گئی تھی، جہاں گاندھی جی کی جسد خاکی لائی گئی تھی اور مجھے صاف یاد ہے کہ میں نے کارکے بونٹ پر چڑھ کریہ منظر دیکھاتھا۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد راج پتھ کا منظر یاد کرتے ہوئے آج سوچتی ہوں  کہ یہ  وہ شخص تھے، جنہوں نے فرقہ پرستی کے خلاف اپنی جان  دےدی اور میں نے اس  دور کو دیکھا ہے۔

مجموعی طور پر ایسے پرتشدد واقعات میں جشن آزادی کی خوشی کہیں غائب ہونے لگی اور گاندھی جی کے قتل سے سب کو  سمجھ میں آ گیا کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ عام لوگوں کو آزادی سے جو خوشی ملی تھی یا ان کی جو امیدیں تھیں، اس کے بعد کے واقعات کی وجہ سے وہ اچانک غصے میں بدل  چکی  تھیں۔ ہمارے ملک میں آزادی اپنے ساتھ تقسیم، نقل مکانی، تشدد، گاندھی جی جیسی شخصیت کا قتل اور بہت سے ذاتی نقصانات لے کر آئی تھی۔

ایمرجنسی کو آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب کہا جاتا ہے۔ تب تک آپ نے انسانی حقوق کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا تھا، اس دور کو کیسےیاد کرتی ہیں؟

سال 1975 میں جب ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تو میں دہلی یونیورسٹی کے مرانڈا ہاؤس میں پڑھا رہی تھی جہاں بہت سی سیاسی سرگرمیاں ہوتی تھیں جن میں لڑکیاں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھی۔ 70 کی دہائی سوالوں سے بھری ہوئی تھی اور پورے ملک میں نوجوان اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے اور بہار، گجرات اور دہلی میں بھی طلبہ کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ طلبا بہت سے جمہوری مسائل اٹھا رہے تھے جس کے مثبت اثرات بھی مرتب ہو رہے تھے۔

اسی وقت، سماج وادی دھڑا اپنی زبان (ہندی) میں پڑھائے جانے کی لڑائی شروع کر رہا تھا، جس کے نتیجے میں آج دہلی یونیورسٹی کے طلباکو اپنے امتحانات ہندی یا انگریزی میں دینے کا اختیار ہے۔

سال 1973 میں ایک اسٹوڈنٹ لیڈر (آر کے جین) نے پہلی بار ہندی میں ایم اے ہسٹری کا امتحان دیا اور اس میں ٹاپ کیا تھا۔ اس سال اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کانووکیشن میں آئیں جہاں انہوں نے اس اسٹوڈنٹ لیڈر کو ڈگری  اپنے ہاتھوں سے دی  اوراس  طالبعلم نے اندرا گاندھی کے سامنے اس ڈگری کو لے کر پھاڑ دیا اور سوال کیا کہ جب اس  ڈگری سے نوکری نہیں مل سکتی تو اس کا کیا فائدہ ہے۔

اس واقعہ سے اندرا گاندھی کو بہت صدمہ ہوا اور کچھ دنوں بعد جب وہ مرانڈا ہاؤس کے یوم تاسیس پر مہمان بن کر آئیں تو انہوں نے لڑکیوں کے سامنے اس واقعہ کا ذکر کیا اور اسے غلط قرار دیا۔ اس وقت کالج یونین کے لیڈر نے وہیں ان کی مخالفت کی اور ڈگری پھاڑنے یا سوال اٹھانے کو صحیح ٹھہرایا تھا۔

سیاست ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ رہی ہے۔ ہم نے طلبا، اساتذہ، مزدوروں، نوجوانوں اور ان تمام لوگوں کے ساتھ ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے اور حالات کو مزید جمہوری اور بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایمرجنسی کا دور حکومت کے جابرانہ رویے اور سنسر شپ سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن یہ 19 مہینوں میں ختم ہو گیا اور اس سے پہلے اور بعد میں اتنی جگہ تھی کہ لوگ جمود کو چیلنج کر سکتے تھے اور غلط کے خلاف آواز اٹھا سکتے تھے۔

اس سے پہلے بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران دہلی میں ہونے والے مظاہروں میں ہمارے طلبہ ہمیں لے  کرجایا کرتے تھے اور وہاں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ایک طرح کی سیاسی شراکت ہوتی تھی۔ ایک دوسرے کی ترقی میں  ان کا حصہ ہوتا تھا اور یونیورسٹیوں میں ترقی پسندانہ ماحول ہوتا تھا۔ سماجی کارکنان، اساتذہ، طلباسب مل کر جمہوری سرگرمیوں کے ذریعے ایک بہتر معاشرہ بنانے کی کوشش کرتے تھے۔

پھر ایمرجنسی کے اعلان کے بعد کیا کچھ بدلا؟ اس دور کو آج کےوقت ، جب حال میں بہت سے طلبا، سماجی کارکنوں اور نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں، کے مقابلے کس طرح دیکھتی ہیں؟

ایمرجنسی کا دور آیا تو سارے سوال، تحریک اور احتجاجی مظاہروں  کو دبا دیا گیا۔ پریس پر بھی سنسر شپ لگائی گئی اور اپوزیشن لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ یہ ہم سب کے لیے صدمہ تھا کیونکہ کئی اساتذہ کو بھی گرفتار  کیا گیا جن میں سے تقریباً 6 اساتذہ کو 19 ماہ تک جیل میں رہنا پڑا۔ وہ دور بہت خوفناک تھا کیونکہ انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا۔ میری سمجھ میں وہ دور جبراستبداد اور حکومت کے مطلق العنان رویے کا غماز تھا۔

 روما مترا لوہیا کے ہمراہ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

روما مترا لوہیا کے ہمراہ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

میری ایک ساتھی تھی- روما مترا جو لوہیا کی قریبی تھیں اور سوشلسٹ سیاست میں سرگرم تھیں۔ روما کو ہندوستانی آئین کا بہت علم تھا اور میری اس سے اچھی دوستی تھی۔ اس دوران روما کو بھی انڈر گراؤنڈ ہونا پڑا۔ روما باہر آنے کے بعد بہت بیمار ہوگئیں کیونکہ ایک متوسط طبقے کی عمر دراز عورت کو ایسے مرحلے سے گزرنا پڑا۔

اس دوران ایسے واقعات اور لوگوں کی گرفتاریوں کی وجہ سے میں شہری حقوق کی تحریک میں شامل ہو گئی  اور جیل میں بند لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کی شروعات کی۔ اسی زمانے  میں پی یو سی ایل اور پی یو ڈی آر بنا اور میں نے بھی ان تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔ ایمرجنسی کے بعد پی یو سی ایل اور پی یو ڈی آر کے کچھ لوگوں نے مل کر جیل ریفارمز کمیٹی بنائی اور ہمیں تہاڑ جانے کی اجازت مل گئی۔ میں نے وہاں جو حالت دیکھی، خاص طور پر جیل ملاقاتوں سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس جگہ  پر بہت زیادہ غیر انسانی سلوک کیا جاتاہے جس میں اصلاح  کی ضرورت ہے۔

اسی وقت سے میں نے ہسٹری آرکائیو پر فلمیں بنانا شروع کیں، تمام فلموں میں میں نے ان خواتین کی کہانی دکھانے کی کوشش کی جن کو ان کے سیاسی اور سماجی کام کے لیے جیل میں ڈالا گیا۔ مجموعی طور پرتعلیمی کام ہو یا تدریسی کام ہو یا بطور سماجی کارکن یا فلمساز، میرا مقصد ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا رہا ہے۔

ملک میں نوجوان طالبعلموں کی حالیہ گرفتاریاں ہمیں ایمرجنسی کے وقت کی یاد ضرور دلاتی ہیں، لیکن موجودہ دور اُس سے بھی زیادہ خوفناک ہے کیونکہ ایمرجنسی کاباقاعدہ  اعلان کیا گیا تھا اور 19 ماہ میں ختم ہو گیا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ نوجوان طلبہ اور کارکن ہماری ادھوری لڑائی کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ایک مساوی اور جمہوری ملک بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اوما چکرورتی کی چند کتابیں۔ (بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن/فیس بک)

اوما چکرورتی کی چند کتابیں۔ (بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن/فیس بک)

آپ نے 1984 کے سکھ فسادات اور 2002 کے گجرات فسادات پر ایک اکیڈمک اور ایکٹوسٹ کے طور پر کام کیا ہے، اس دور کا ہندوستانی جمہوریہ پر کیا اثر ہوا ہے؟ آج کل جس قسم کے فرقہ وارانہ واقعات ہو رہے ہیں انہیں آپ کیسے دیکھتی ہیں؟

سال 1984 کے فسادات ملک پر منظم تشدد کا پہلا حملہ تھا، جس کے بعد یہ ایک ماڈل  بن گیا۔ بڑی بات یہ بھی تھی کہ یہ پرتشدد واقعات دارالحکومت دہلی میں ہو رہے تھے۔ میں نے اور میری ایک طالبہ نندیتا ہسکر نے اس دور کے واقعات کو ریکارڈ کرنے کا کام شروع کیا۔ ہم نے فسادات کے متاثرین، فسادیوں اور امدادی کارکنوں کے ساتھ بات چیت ریکارڈ کی۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سی سکھ عورتیں اس وقت کہتی تھیں،’اتھے کچھ نہ ہوئیاہمیں اپنے وطن وچ مارا’ (ہم پاکستان سے تو سلامتی کے ساتھ آگئےاور ہمیں ہمارے وطن  میں مار دیا)۔ وہ  ایک بہت برا دور تھا جس کی بنیاد پر میں نے نندیتا ہسکر کے ساتھ مل کر اپنی پہلی کتاب (دہلی رائٹ: تھری ڈیز ان دی لائف آف اے نیشن) لکھی۔

اس کے بعد بابری تشدد ہوا، پھر 2002 کے گجرات فسادات اور ایک مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنا کرمنصوبہ بند تشددیا منظم تشدد کو ہم نے پہلی بار اس شکل میں سمجھا۔ گجرات فسادات کے بعد میں نے وہاں فیکٹ فائنڈنگ کی تھی۔ اس وقت، پہلی بار، ہم نے کسی کو نشانہ بنانے یا شناخت کرکے تشدد کرنے کو ایک الگ طرح  کے تشدد کے طور پر سمجھا تھا اور ساتھ ہی ہم نے اس کڑی میں نشاندہی کرکے خواتین کے خلاف ہونے والےجنسی تشدد کابھی مشاہدہ کیا تھا۔

پھر ہم نے اس موضوع پر کام شروع کیا اور فرقہ وارانہ تشدد کے بل کا مطالبہ کیا اورریپ  قوانین کے تحت ٹارگیٹیڈ وایلنس کو ایک الگ جرم کے زمرے میں  لانے کی بات  شروع کی تھی۔ اس بنیاد پر مئی 2023 میں مظفر نگر فسادات (2013) کے دوران ہوئے ریپ کیس میں پہلی بار اس قانون کے تحت  (دفعہ 376 (2) (جی))سزا دی گئی ہے۔ اس قانون میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ہونے والےریپ کو ایک مخصوص تشدد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

نوے کی دہائی میں منڈل کمیشن کے دور میں آپ نے ذات پات اور پدرشاہی نظام کے درمیان کے وسیع تر تعلقات پر کافی کام کیا ہے۔ آزادی کے 76 سال بعد ذات پات کے تشدد اور دلت خواتین کے خلاف صنفی تشدد کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں؟

پندرہ سال کی عمر میں، میں نے امبیڈکر کو بدھ مت اختیار کرتے دیکھا، اس وقت مجھے یہ بات زیادہ سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیایا اس کا کیا مطلب ہے۔ لیکن اس واقعے نے مجھے بھی متاثر کیا۔ امبیڈکر نے کہا تھا کہ ‘پیدا ہوا تو ہندوہوں، لیکن مروں گا ہندو نہیں’۔اس وقت میرے اندر اس بات کو لے کر بہت تجسس تھا کہ سماج کے وہ کون لوگ ہیں جو بدھ مت کی طرف متوجہ ہوئے اور کیوں، جس کے لیے میں نےاپنی سب سے پہلی تحقیق میں بدھ مت کے سماجی تانے بانے کو سمجھنے کی کوشش کی۔

ہندوستان میں جمہوری حقوق اور مساوات کی لڑائی ذات پات کے سوال کو سامنے رکھے بغیرنہیں لڑی  جا سکتی۔ 90 کی دہائی میں نو لبرل ازم کے ساتھ ذات پات کے سوال کو بھی سنجیدگی سے لیا گیا۔ دہلی جیسے بڑے میٹروسٹی میں یہ مانا جاتا ہے کہ کوئی ذات پات نہیں ہے کیونکہ یہاں ذات پات کا سوال اور اس کی بنیاد پرہونے والے امیتازی سلوک کو اکثر طبقے اور زبان کے سوال کے پیچھے چھپا دیا جاتا  ہے۔

منڈل کا آرڈیننس ہمارے سامنے نافذ ہوا اور ہم نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں طلبہ دہلی یونیورسٹی کے گوئیر ہال کے سامنے سڑکوں پر نکل کرآرہے ہیں اور نوکریوں  پراپنا حق ظاہر کرتے ہوئے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کے رویے کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور ان سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے جواب میں ان کی ذات پرستانہ ذہنیت صاف دکھائی دے رہی تھی۔

 کچھ لڑکیوں کے جواب سے مجھے جھٹکا لگا تھا, کیونکہ وہ کہہ رہی تھیں کہ ‘ہمیں بے روزگار شوہر نہیں چاہیے’، یہ بات واضح طور پران کی ذات پرست ذہنیت کو ظاہر کر رہی تھی کیونکہ آرڈیننس میں توایک طبقے  کے لوگوں کو ریزرویشن ملنے کی بات کہی گئی تھی  یہ تو کہیں  نہیں لکھا تھا کہ آپ اس ذات کے لوگوں سے شادی نہیں کر سکتے۔

ذات پات اور بالخصوص انٹر کاسٹ میرج کے حوالے سے جولوگوں کی سوچ ہے وہ  صاف نظر آرہی تھی۔ اسی تجربے کے ساتھ میں نے ‘برہمنوادی پتر ستا’ مضمون لکھا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ جس سماج اور تاریخ کو ہم سنہری دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، درحقیقت، ذات اور جنس کے کے بیچ کے تانے بانے کی جڑیں اسی تاریخ میں پیوست  ہیں۔ برہمنیت – یعنی وہ نظام جو سماج میں ذات پات کو برقرار رکھے اور پدرانہ نظام کا مطلب ہے کہ خواتین پر اپنا اختیار برقرار رکھنا اور اس نظام میں خواتین پر مؤثر جنسی کنٹرول کے لیے  صرف پدرانہ نظام  ہی نہیں ، بلکہ ذات پات کو بھی برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی  ہے۔

آج بھی جب دلتوں، بالخصوص دلت خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، بائیکاٹ یا تشدد کی خبریں آتی ہیں تو پھر سات دہائیوں کے بعد و ہی سوال اٹھتا ہے کہ ‘ کون آزادہوا’۔ یہ توآزادی کی جدوجہد اور آئین کی اقدار کے ساتھ دھوکہ  ہے جہاں امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور مساوات لانے کی بات کی گئی تھی۔ ان سوالات کو آج  بھی جمہوری تحریکوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

اوما چکرورتی کی فلموں کے پوسٹر۔ (بہ شکریہ: فیس بک)

اوما چکرورتی کی فلموں کے پوسٹر۔ (بہ شکریہ: فیس بک)

آج کے ہندوستان میں آپ کو تحریکوں کا  کیا رول نظر آتا ہے؟

جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں نے 70 کی دہائی میں انسانی حقوق کی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور خواتین کی تحریک بھی اسی دور میں شروع ہوئی۔ میرا اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا ایک پاؤں خواتین کی تحریک میں تھا اور دوسرا جمہوری حقوق کی لڑائی میں۔

اسی کی دہائی میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے نصاب پر نظر ثانی کی گئی تھی اور یہ میرے ذریعے کیے گئے سب سے اہم تعمیری کاموں میں سے ایک ہے۔ ہم 15 اساتذہ ایک ایک ریڈنگ، کتاب  پہلے پڑھتے تھے اور پھر اس پر بات چیت کرکے اس کو شامل کرنے یا نہ شامل کرنے کا فیصلہ کرتے تھے  جس کا طلبا پر کئی سالوں تک مثبت اثر رہا۔

اسی ہفتے، دہلی یونیورسٹی کے گریجویشن کے تاریخ کے نصاب سے برہمنائزیشن اور عدم مساوات پر پیپر کو ہٹا دیا گیا ہے۔ یعنی اب طلبا ذات پات، جنس اور طبقے کی عدم مساوات کے بارے میں اس طرح نہیں پڑھ سکیں گے جس طرح وہ پڑھتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول کس طرح بدل گیا ہے، جو نصاب پہلے اساتذہ جمہوری طریقے سے تیار کرتے تھے، اب اچانک کئی طرح کے دباؤ کی وجہ سے تبدیل کر دیا جاتا ہے اور بہت سی اہم کتابیں یا موضوعات کو  باہر کر دیا جاتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ میں اور میرے دوسرے ساتھی اپنے تمام کاموں کے ذریعے ملک میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس وجہ سے یونیورسٹی کا مقام میری زندگی میں بہت خاص رہا ہے۔ وہاں صرف آپ کسی موضوع کے بارے میں نہیں پڑھا سکتے، ایسا ماحول اور بات چیت  ہونی چاہیے، جس سے کہ  وہ اچھے انسان بنیں اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

مجھے فخر ہے کہ میرے کچھ طلبا نے ہماری لڑائی کو آگے بڑھایا ہے۔ ناانصافی اور جبر کے خلاف کسی بھی طرح کا کام،آواز اٹھانا یا تحریک جمہوریت اور ہندوستانی جمہوریہ کو مضبوط بناتا ہے۔

جب ملک آزاد ہوا اور پھر آئین نافذ ہوا، تب لوگوں میں آزاد ہندوستان کے بارے میں جوسمجھ تھی  یا خواب تھے، اس کو آپ 76 سال بعد کیسے دیکھتی ہیں؟

جب ملک آزاد ہو رہا تھا یا آئین نافذ ہو رہا تھا، تب لوگوں کو یقین تھا کہ اب حالات بہتر ہوں گے اور کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، جو انہوں نےانگریزی حکومت میں جھیلا تھا۔ آزاد ہندوستان کے تصور میں لوگوں کے ذہنوں میں خوشحالی، امن اور مساوات جیسے نظریےشامل تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ غربت اور بھوک  مری جیسی چیزیں ختم ہو جائیں گی اور جمہوریہ ہند قائم ہو گا۔ لیکن اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے انہی اقدار کو الٹ  کر رکھ دیا جن پر تحریک آزادی کھڑی تھی، جیسا کہ میں نے تقسیم کے دور اور گاندھی جی کے قتل کو یاد کرتے ہوئے بتایا۔

ان اصول ونظریات کو الٹنے کی ایک مثال ہے برطانوی دور کے بہت سے جابرانہ قوانین کو طویل عرصے تک نافذ رکھنا ۔ میں نے ایک فلم  بنائی تھی ‘ایک انقلاب اور آیا’جس میں میں نے ایک حقیقی کہانی دکھائی کہ کس طرح ایک 17 سالہ لڑکی کو حکومت ‘احتیاطی نظر بندی ایکٹ’ کے تحت گرفتار کر کے 9 ماہ تک جووینائل ہوم  میں رکھتی ہے۔

اس کے بعد اگر حالیہ واقعات کو دیکھیں تو سی اے اے تحریک سے وابستہ کئی نوجوان طلبہ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، جو طلبہ سڑک پر آئین پڑھ رہے تھے انہیں گرفتار کیا گیا اور ہم آج بھی ان جابرانہ قوانین پر  ہی بحث کر رہے ہیں۔

سال 1949 میں لوگ کہہ رہے تھے کہ،’یہ آزادی جھوٹی ہے، ملک کی جنتا بھوکی ہے’ اور 2020 میں جب اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اور لاکھوں مزدور سڑکوں پر دو وقت کی روٹی کے لیےمیلوں پیدل چل رہے تھے، تو سوال  وہی اٹھتا ہے کہ سات دہائیوں میں ہم نے ملک کے اصل مسائل پر کام نہیں کیا، ان  اصولوں پر کام نہیں کیا گیا، جن کے دم پر ملک  کوآزاد کرایا گیا تھا۔

میں نے اس ملک کو آزاد ہوتے دیکھا ہے، میری عمر اس جمہوریہ سے زیادہ ہے اور میں مانتی ہوں کی یہ میرا میدان عمل ہے۔ اب جب میں دیکھتی ہوں کہ اس ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں، ماہرین تعلیم یا سوال کرنے والے ترقی پسند لوگوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو مجھے یہ اس جذبے سے دھوکے بازی لگتی ہے جس کے ساتھ لوگوں نے آزادی کی لڑائی  لڑی تھی۔

آج کے ہندوستان کی حالت کودیکھتی ہوں تو یہی لگتا ہے کہ گاندھی جی نے تو فرقہ پرستی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنی جان دے دی، کتنےاور لوگوں نے طویل عرصے تک جدوجہد کی، جیل میں رہے اور شہید ہوئے، کیا انھوں نے اسی ہندوستان کے لیے یہ سب کیا جہاں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کی لنچنگ ہو، یا مذہب کی بنیاد پر فسادات ہوں یا ٹرین میں ایک مذہب کے لوگوں کو ان کی پہچان کی بنیاد پرقتل کر دیا جائے۔

میں پھر کہوں گی کہ یہ تحریک آزادی اور اس کے خوابوں اور وعدوں کے ساتھ دھوکہ  ہے۔

میں کئی بار کہتی ہوں کہ میں اس دور میں پیدا ہوئی جہاں خواب تھے اور امیدیں تھیں اور اب میں شاید اس انتہائی مایوسی کے دور میں ہی اس دنیا کو الوداع کہوں گی۔ مجھے یہ بات سب سے زیادہ پریشان کرتی  ہے کہ جس ملک کو ہم سونے کی چڑیا کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں، اس کی آج یہ حالت ہے کہ اب ہم پوچھتے ہیں کہ آخر کون آزادہوا۔

لیکن ہاں، مایوسی کے اس دورمیں جو ہماری چھوٹی چھوٹی جیت ہوئی ہیں،جو بھی کام  میں نے  ہندوستان کو اورزیادہ جمہوری بنانے کے لیےکیا ہے، اگر اس کا تھوڑا سا بھی مثبت اثر ہوا ہے، تو اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ہمیشہ مساوات اور سیکولر انسانیت کے لیے لڑتی رہوں گی اور جس ترنگے کو میں نے پہلی بار آزاد ہندوستان میں پھہراتے ہوئے دیکھا تھا وہ ایک آزاد اور سیکولر ملک کی علامت تھا اور اس کے لیے میں آج بھی اپنا کام جاری رکھوں گی۔