مشہور اداکارنصیر الدین شاہ نے کہا کہ شدت پسندی اور پروپیگنڈہ کے لیے بنائی جانے والی فلموں سے لڑنے کا واحد طریقہ اداکاروں کا بولنا ہے۔اگرچہ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بہت سے ایکٹر ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
نئی دہلی:مشہور اداکار نصیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی، پروپیگنڈے اور گمراہی پھیلانے کے لیے بنائی گئی فلموں سے لڑنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فنکار اپنی آواز بلند کریں اور تبدیلی لانے کے لیے اپنی آواز کا استعمال کریں۔ تاہم، شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کے ساتھ صرف ایک مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ایکٹر ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں حساس مسائل پر مبنی فلموں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جسے بہت سے لوگوں نے سراسر پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔ انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شاہ نے اس دور کو ‘تشویشناک’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیسے ‘خالص اور سراسرپروپیگنڈہ’، جواپنی فطرت میں اسلامو فوبک تھا، کو لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے ‘قبول’ کیا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ ایسے دور میں ایک فنکار کا کیا کردار ہے، شاہ نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ بولیں اور کسی ایسی چیز کی حمایت نہ کریں جو ان کے آفاقی نظریہ کے مطابق نہ ہو۔
شاہ نے کہا، ‘اپنی آواز کو سنانے کے لیے، اگر اس میں کوئی وزن ہے؛ ایسی فلموں کا حصہ نہیں بننا چاہیے جو آپ کے اپنے عقائد سے متصادم ہوں، یا کوئی ایسا کام جو آپ کے بھروسےسے متصادم ہو۔ کسی کی آواز سنانا، بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے، جن کی آوازاگر بلند کی جائے تو فرق پڑتا ہے۔ لیکن وہ سب خوفزدہ ہیں۔ وہ سب جیتنے والے کی طرف رہنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے کہا کہ صرف آرٹ اسے ٹھیک نہیں کر سکتا۔ اس کی حمایت کاموں سے ہونی چاہیے، جو بے خوفی سے آتی ہے، جو اس وقت بہت کم ہے۔
حال ہی میں نصیر الدین شاہ کو زی فائیو کی تاریخی ڈرامہ سیریز ‘تاج’ کے دوسرے سیزن میں دیکھا گیا تھا۔
Categories: خبریں