ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی لیڈر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے دہلی میں جاری پہلوانوں کے احتجاجی مظاہرہ کو کسان یونینوں، کھاپ پنچایتوں کے علاوہ کئی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ وہیں، ہریانہ بی جے پی کے تمام رہنما خاموشی اختیار کیےہوئے ہیں، جبکہ احتجاج کی قیادت کرنے والے کئی پہلوان اسی ریاست سے آتے ہیں۔
نئی دہلی: مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے ساتھ پہلوانوں کا تعطل بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس لیے اگلے سال ہونے والے لوک سبھا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کے مدنظر ہریانہ بی جے پی کے اندر بے چینی بڑھ رہی ہے۔
ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی لیڈر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے دہلی کے جنتر منتر پر جاری پہلوانوں کے احتجاج سے ہریانہ کے بیشتر لیڈروں نےدوری بنائے رکھی ہے۔ کچھ بول رہے ہیں، لیکن بہت ہی محتاط انداز میں۔
پہلوانوں کو ریاست کی مضبوط کسان یونینوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مرکز کے ذریعے منسوخ کیے گئے متنازعہ زرعی قوانین کے حوالے سے کسان یونینوں میں پہلے ہی غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب ہریانہ بی جے پی کے تمام رہنما خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، جبکہ احتجاج کی قیادت کرنے والے کئی پہلوان اسی ریاست سے آتے ہیں۔
بی جے پی پہلے ہی ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے عوامی ڈائیلاگ کے پروگراموں کی مخالفت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنے سے گھبرا ئی ہوئی ہے۔ بعض مواقع پر، کھٹر اپنا آپا بھی کھو چکے ہیں۔
انڈین ایکسپریس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، دراصل پہلوانوں کے احتجاج کی قیادت کر رہے ساکشی ملک، وینیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا ہریانہ کے رہنے والے ہیں۔ ملک روہتک کے موکھڑا گاؤں ، وینیش چرخی دادری اور پونیا جھجر کے کھدن گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
ادھر اپوزیشن کانگریس کو بھی پہلوانوں کے خلاف احتجاج میں حکمراں بی جے پی کے خلاف موقع مل گیا ہے۔ زیادہ تر پہلوان جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کانگریس کو مضبوط حمایت حاصل ہے۔ پہلوانوں کو جاٹ مرکوز پارٹی اینیلو اور عام آدمی پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
پہلوانوں کی حمایت میں ان بڑھتی آوازوں اور برج بھوشن شرن سنگھ پر لگے سنگین الزامات کے باوجود ہریانہ کی بی جے پی قیادت کھل کر سامنے نہیں آئی ہے۔
چند مستثنیات میں سے ریاست کے وزیر داخلہ انل وج پہلوانوں کے مطالبات کو ‘پارٹی کے اندر اعلیٰ سطح پر’ اٹھانے کی پیشکش کر چکے ہیں، حصار کے رکن پارلیامنٹ برجیندر سنگھ نے کہا ہے کہ وہ ‘پہلوانوں کے درد اور بے بسی کو محسوس کرتے ہیں’، اور ان کے والد اور سابق مرکزی وزیر بریندر سنگھ جنتر منتر پر پہلوانوں سے ملاقات کر چکے ہیں۔
اس ماہ کے شروع میں، پہلوانوں نے اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کھٹر سے تعاون اور مداخلت کی درخواست کی، لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی کہ ،’معاملہ ہریانہ کا نہیں، بلکہ کھلاڑیوں کی ٹیموں اور مرکزی حکومت کا ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ معاملے کی تحقیقات کی جائے گی۔
سابق مرکزی وزیر بیرندر سنگھ نے بدھ کو انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انہوں نے یہ معاملہ بی جے پی صدر جے پی نڈا کے سامنے اٹھایا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ ‘اس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا’۔
انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پارٹی کے سربراہ سے دو بار ملا۔ دونوں بار میں نے ان سے کہا کہ پارٹی کو اسے کسی ایک ریاست کے پہلوانوں سے متعلق مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ انتہائی تشویشناک ہے اور پارٹی کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ میں نے ان سے (نڈا) سے درخواست کی کہ وہ مداخلت کریں، وزارت کھیل سے بات کریں یا جو بھی اس مسئلے کو جلد از جلد خوش اسلوبی سے حل کر سکے ان سے بات کریں۔ میں نے کہا کہ ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں، اس لیے ہمیں اس پر کام کرنا چاہیے۔
سنگھ نے مزید کہا، ‘میں نے پارٹی صدر سے یہ بھی کہا کہ اگر یہ مانا جائے کہ وہ (پہلوان) کسی سیاسی پارٹی کے کہنے پر کام کر رہے ہیں یا انہیں کسی نے اکسایا ہے، تو بھی ان کی آواز سنی جانی چاہیے۔ وہ ایک مسئلہ اٹھا رہے ہیں جسے حل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کھیل یونینوں کے کنٹرول کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے۔
انہوں نے کہا،مسئلہ سیاست دانوں، خاص طور پر اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ ساتھ صنعت کاروں اورایسے یونینوں کو چلانے والے نوکر شاہوں کے ساتھ ہے۔ حکومت کو اسپورٹس فیڈریشن کو چلانے کے طریقے میں بہتری لانی چاہیے۔
پہلوانوں کے احتجاج کے بارے میں پوچھے جانے پر ہریانہ بی جے پی کے صدر اوم پرکاش دھن کھڑ نے کہا کہ انہوں نے اسے مرکزی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر کے سامنے اٹھایا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘میں نےاس بات پر زور دیا کہ جنتر منتر پر احتجاج کرنے والی ہماری بیٹیاں ہیں اور انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ تب وزیر نے کہا کہ انہیں یقینی طو رپرانصاف ملے گا۔
بی جے پی کے ایک اور سینئر لیڈر نے کہا، ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ ہریانہ سے متعلق نہیں ہے، لیکن یہی ایشو ہے… بی جے پی کیڈر پر مبنی پارٹی ہے اور چیف منسٹر اس معاملے پر زیادہ کچھ نہیں بول سکتے‘۔
ایک اور بی جے پی لیڈر نے تسلیم کیا کہ اس معاملے پر پارٹی کی خاموشی کا منفی اثر ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کچھ ایسے ایشوز ہیں جن سے پارٹی کی پالیسیوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انسان میں نہ صرف اپنی بات کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے بلکہ زمینی حقیقت کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ احتجاج کی وجہ کچھ بھی ہو، منطقی انجام تک پہنچنے میں تاخیر زمینی تاثر کو بدل دے گی۔
Categories: خبریں