شویتا اسٹوڈیو میں ہل رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر لوگ ہنس رہے ہیں،مگر شویتا ویڈیو میں سنجیدگی سے ہلی جا رہی ہیں۔ یہ نریندر مودی کا آج کا ہندوستان ہےاور ان کے دور کا میڈیا ہے۔ آج کے ہندوستان کی ذہنی اور فکری سطح یہی ہے۔
مجھے ری پبلک انڈیا کی شویتا اور ری پبلک انڈیا کے پی ایم کے لیے برا لگ رہا ہے۔ 14 جون سے ایک ویڈیو وائرل ہے۔ یہ ویڈیو ری پبلک انڈیا کی اینکر شویتا کا ہے۔ شویتا اسٹوڈیو میں چھتری کے ساتھ اینکرنگ کر رہی ہیں۔ پس منظر میں دیوہیکل اسکرین پر ایک اور ویڈیو چل رہاہے، اس میں طوفانی ہوا چل رہی ہے۔ ہوا ویڈیو میں چل رہی ہے اور شویتا اسٹوڈیو میں ہل رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر لوگ ہنس رہے ہیں، لیکن شویتا ویڈیو میں سنجیدگی سے ہلی جا رہی ہیں۔
یہ نریندر مودی کا آج کا ہندوستان ہے اور ان کے دور کا میڈیا ہے۔ اس طرح سےہونے لگا تو جلد ہی مودی کے حامی سینما ہال میں فائرنگ کے سین پر کرسی اکھاڑ کر’کوچ’ بنالیں گے۔ اس کو سینے سےچپکا کر وہ پردے کے سامنے جائیں گے اور گولی چلانے والے کو پکڑنے کے لیےپردہ ہی پھاڑ دیں گے۔ آج کے ہندوستان کی ذہنی اور فکری سطح یہی ہے۔ ورنہ گودی میڈیا سے زیادہ عام ناظرین اس کی تنقید کرتے۔
اینکر شویتا کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کے مالک کو بھی۔ پوری دنیا کے سامنے اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔اس ویڈیوکودیکھنا واقعی افسوسناک ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ شویتا کا مذاق اڑائیں۔ یہ شویتا کا انتخاب نہیں ہوگا۔ اسے کرتے وقت بھی برا لگا ہوگا۔ ڈری سہمی اپنی نوکری کی فکر میں وہ اسکرین کے پاس گئی ہوگی اور جا کر ہلنے–ڈلنے لگی ہو گی۔ اس کی ریکارڈنگ کرنے والی ٹیم ہنس رہی ہوگی۔
اگر کوئی ادیب اس سین کاتصور کرتا تو وہ اس طرح لکھتا۔ اس دن شویتا کی طوفانی اینکرنگ کے بعد مدیر اپنے کمرے سے نکلا اور سب کے سامنے شویتا کی تعریف کرنے لگاکہ یہی ٹی وی ہے۔ ایکشن ہونا چاہیے۔ ہمیں شویتا کی انرجی چاہیے۔ اس بات پر سب نے زوردارتالیاں بجائیں۔ لیکن دنیا کے سامنے شویتا نے اکیلے گالی کھائی۔ اس دن مدیر مودی جی کی طرح نیوز روم میں گھومتا رہا، سب کو گھورتے ہوئے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مدیر نے دروازہ بند کیا اور شیکھرگٹکھا کھا لیا۔ وہ جب بھی اس قسم کی صحافت کی تعریف کرتا، کمرے میں گٹکھا کھاتا تھا تاکہ گلے میں جو صحافت اٹکی ہے، اس گٹکھے کے ساتھ پیک دان میں تھوک دے ۔ کہانی ختم۔
یہ ویڈیو دیکھ کر یہی لگا کہ شویتا اور نہ جانے کتنے نوجوان دوست ان چینلوں میں غلام کی طرح کام کر رہے ہیں۔ وہ چھٹپٹا رہے ہیں کہ کوئی انہیں ان چینلوں سے بچالیں، مگر اب کوئی چینل ہی نہیں ہے، جہاں یہ نوجوان جا کر ڈھنگ کی نوکری کر سکیں۔ ہر چینل تباہ کیا جا چکا ہے۔ میں مان کر چلتا ہوں کہ شویتا جیسے نوجوان صحافت کی پڑھائی صحافت کے لیے ہی کرتے ہوں گے۔ اپنے لیے اچھی رپورٹ، اچھی اینکرنگ کے خواب دیکھتے ہوں گے۔ 2014 کے بعد اس پیشےکو ختم ہی کر دیاگیا۔ جب وہ پڑھائی مکمل کر کے باہر آئے ہوں گے تو اس پڑھائی کو جینے کے لیے پیشہ اور ادارہ ہی نہیں بچے۔ یہ کچھ ایسا ہے کہ جب آپ ایم بی اے کرنے کے بعد باہر آتے ہیں اور شہر کی تمام کمپنیاں غائب ہوجاتی ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ اب بہت سے نئے اور پرانے صحافی دل و دماغ سے مودی-مودی کرنے لگے ہیں۔ اینٹی مسلم صحافت نے انہیں اسی پالے کے کسی شرپسندگروہ کا کارکن بنا دیا ہے۔ پھر بھی میں یقین کرنا چاہوں گا کہ ریکارڈنگ کرتے وقت شویتا کو اچھا نہیں لگا ہوگا۔ اس ویڈیوکے وائرل ہونے پر شویتاکافی پریشان ہوں گی۔ یہ اس وشو گرو بھارت کی لفندر ہوچکی صحافت کی وجہ سے ہوا، جس میں داخل ہونے کے لیے تو ایک ہی دروازہ ہے، لیکن اس سے نکلنے کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
ایک وقت تھا اور آج بھی ہے، جب بہت سے فراڈ کسی نیوز چینل کا آئی کارڈ اپنی گاڑی پرچسپاں کر کے گھوماکرتے تھے، اب وہی کام نیوز چینل والے کر رہے ہیں۔ اخبار والے کر رہے ہیں۔ خود فراڈ کرتے ہیں اور شناختی کارڈ اصلی دے دیتے ہیں۔ اب توسب نے مان لیا ہوگا کہ صحافت کرنی ہے تو صحافت کے نام پر ہی کام کرنا ہو گا۔
افسوس ہوتا ہے۔ہم لوگوں کوکتنے موقعے ملے۔ بہت ساری تعریفیں ملتی تھیں۔ ایڈیٹر اور کیمرہ پرسن کے ساتھ بحث ہوتی تھی کہ تم نے صحیح شاٹ نہیں لیا، تو تم نے ٹھیک سے ایڈٹ نہیں کیا۔ دونوں مل کر رپورٹر کی کلاس لگادیتے تھے کہ تم نے ٹھیک سے ری ایکٹ نہیں کیا ورنہ فریم صحیح تھا۔ حالت یہ تھی کہ دوسرے چینل کے مدیر اور ساتھی رپورٹر اگلے دن اسٹوری پر بات کرتے تھے۔ ان چینلوں میں کام کرنے والے صحافی اب کیا بات کر تے ہوں گے؟ دارو بھی اچھی برانڈ کی نہیں پیتے ہوں گے؟شایدگئو موترکی پارٹی کرتے ہوں گے۔ ایک اینکرگئو موترکی خوبیاں بتا تا ہے۔ خود نہیں پیتا ہے۔ غنیمت ہے کہ اس ملک میں گٹکھا کی سپلائی بند نہیں ہوئی ہے۔ کینسر ہوتا ہے پھر بھی لوگ گٹکھا کھا رہے ہیں۔ یہ صحافت نہیں ہے،جانتے ہیں مگر کر رہے ہیں۔ یہ کر نہیں رہے ہیں، ان سے کروایا جا رہا ہے۔
مجھےپورایقین ہے کہ شویتا اور اس کے گھر والے اس وائرل ویڈیو کو دیکھ نہیں پارہے ہوں گے۔ جس طرح سے مودی کی مقبولیت بتائی جاتی ہے، میں مان کر چلتا ہوں کہ شویتا کے گھر میں بھی مودی-مودی ہوتا ہوگا۔ کیا اس کے والدین اسی مودی دور میں اپنی بیٹی کو صحافی کے اس رول میں دیکھ پاتے ہوں گے؟ کیا شویتا اپنے والدین یااس کے والدین شویتا سےنظر ملا پاتے ہوں گے کہ شاندار اینکرنگ کی ہے تم نے یا ہنستے ہوں گے کہ کیا یار، ہمارے مودی جی نے بھارت کو وشو گرو بنانے کےنام پر تم صحافیوں کووشو دھرت بنا دیا ہے۔
اگر ہم پانچویں بڑی معیشت ہیں تو اس ملک کے چینل کا یہ حال ہے۔ یہ سب توساٹھ سال پہلے کی فلموں میں ہوتاتا تھا کہ پیچھے سڑک کا سین چل رہا ہوتا ہے اور اسٹوڈیو کے سیٹ پر ہیروکار میں بیٹھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان چینلوں کے مدیر کیسےسامنا کرتے ہیں۔ جس مدیر نے شویتا سےیہ کام کروا یا ہے، وہ آج کے دن نیوز روم میں کیسےسینہ تان کر گھوم رہا ہوگا۔ اوپر کے لوگوں کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی بروکر سے ملیں گے تو اس کی زبان بہت مہذب ہوگی، کپڑے اچھے ہوں گے، گاڑی لگژری ہوگی اور وہ اچھی جگہ پر کافی پلائے گا۔ کئی افسروں کے نام لے گا، وزیروں کے بیٹے کو دوست بتائے گا۔ ایک صنعتکار کی شادی میں نظر آجائے گا۔ جب تک آپ اقتدار کےباہری دلالوں کے بارے میں کوئی رائے قائم کر پاتے ہیں، آپ اس کی باتوں میں کھو ہو جاتے ہیں۔ برا کہنا چاہتے ہیں مگر وہ آپ کا کام کروا دیتا ہے توچپ ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح گوڈی میڈیاکے چینلوں کےدلال مدیر اور مالکان ہیں۔ ان کی سوسائٹی کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ صحافت نہیں کر رہا ہے۔ وہ دلالی کر رہا ہے، لیکن اس کی شان و شوکت دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر کسی کو نوکری دے دےگا یا کوئی کام کروا دےگا۔ اسی لیے اوپری مدیر کو شناخت کا بحران نہیں ہوتا۔ گھٹیا صحافت کرنے والے لوگ بھی اپنی گرمی کی چھٹیاں لندن میں مناتے ہیں۔
نوجوانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ نئے لوگوں سے اناپ شناپ کام کرائے جا رہے ہیں۔ ان کادل تو کرتا ہوگا کہ غلط کو غلط لکھ دیں، لیکن چپ ہوجاتے ہوں گے۔ انکار کریں گے تو نوکری چلی جائے گی اور نوکری کے لیے کوئی اور اچھا چینل بھی نہیں ہے۔ اس لیے اس ویڈیو پر تنقید کرتے ہوئے شویتا کا خیال رکھیں۔ اس پر اتنانہ ہنسیں کہ وہ ذہنی دباؤ میں چلی جائے۔ اس کے مدیر نے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا۔
ہم سب سکھاتے اور سیکھتے بھی ہیں کہ خواتین کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا ہے۔ ان کے ساتھ کیسے پیش آنا ہےتاکہ پیشہ ورانہ تعلقات میں کسی طرح کا شک نہ رہے۔ اس کے لیے اس ملک کی خواتین کو کتنی کڑی محنت کرنی پڑی ہے۔ حقوق نسواں کا تصور یہ بھی کہتا ہے کہ کوئی بھی نوکری کے نام پر جسمانی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس میں آپ کسی عورت سے کیسے بات کرتے ہیں، کس آواز میں بات کرتے ہیں، یہ سب آتا ہے۔
میں شویتا کے اس ویڈیو کے تناظر میں جنسی ہراسانی کی وسیع تعریف کودیکھ رہا ہوں۔ جس بھی مدیر نے شویتا سےیہ کام کرایا ہے، اس نے شویتا کے پیشہ ورانہ وقار کو ختم کر دیا ہے۔ پیشہ ورانہ وقار ختم کردینابھی جنسی ہراسانی کی ایک شکل ہے۔ ایک پیشہ ور عورت کا وجود صرف اس کے جسمانی وقار سے نہیں بلکہ اس کے ہنر سے بھی بنتا ہے اورکام کی مہارت سے بھی۔ اگر چہ لغوی معنوں میں اس قسم کی جنسی ہراسانی نہ بھی ہو لیکن اس کیس میں مدیر نے شویتا کے وقار کو ختم کر دیا ہے۔ بات صرف شویتا کی نہیں، اس کے ساتھ ساتھ کسی بپن کی بھی ہے۔ ان نیوز چینلوں میں ہمارے نوجوان دوست خواہ وہ عورت ہوں یا مرد، وہ اس طرح کی ہراسانی سے گزر رہے ہیں۔
نریندر مودی دس سال تک وزیر اعظم رہے۔ مستقبل میں بھی ان کے جیتنے کا چرچا ہے۔ کبھی ملاقات ہوتی تو کہہ دیتا کہ خود کو بڑا لیڈر کہلانے کا شوق تھاتو کم از کم اٹھنے بیٹھنے کے لیے صحافی تو صحیح چن لیتے۔ اقتدار کے گلیاروں میں دلال کم گھومتے ہیں جو آپ صحافت سے دلال اٹھا کر اپنے ساتھ گھما رہے ہیں۔ اس ملک میں جب بہترین لڈو بنانے والے ہیں تو چینی سے بھرے لڈو کیوں کھا رہے ہیں، ٹیسٹ بدلیے۔
آپ جس عہدےپر ہیں، آپ میں اگراس کے لائق نفاست نہیں ہے تو یہ چیز سیکھی جا سکتی ہے۔ دنیا سیکھتی ہے۔ تمام لیڈر سیکھتے ہیں۔ آپ رپورٹر کی سطح کے وزیراعظم تونہیں، آپ چینلوں کے مالک کی طرح ملک کے وزیراعظم ہیں۔ بھگائیےان سب کو اپنے آس پاس سے۔ کھدیڑیے اپنے یہاں سے۔ حال میں دیکھا گیا کہ وزیر داخلہ امت شاہ ایک ہی میز پر مدیر اور مالک اینکر کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ بی جے پی کا ہی کوئی محنتی لیڈر،جو20 سال سے ایم ایل اےہوگا، اس کو اس طرح کا موقع نہیں ملا ہو گا کہ وہ آپ کے ساتھ یا امت شاہ کے ساتھ میز پر کھاناکھائے، اور آپ ان لوگوں کو اپنے یہاں ڈنر کرا رہے ہیں؟
کم از کم شویتا کے والدین کو بھی لگے کہ جس لیڈرکے لیےاپنے رشتہ داروں کے وہاٹس ایپ گروپ میں دس سال مودی-مودی کیا،اس کے راج میں ان کی بیٹی کو یہ سب نہیں کرنا پڑے گا ۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ہوجائے گا۔
اور آخر میں۔ پردھان منتری جی،اگر ان چرکٹ مدیران اور رپورٹروں کے بغیرآپ کا کام نہیں چلتا ہے تو آپ سیاست چھوڑ دیجیے۔اس سےبہتر ہے کہ آپ جے پی نڈا کو فون کریں اورکہیں کے ایم ایل سی بن جائیے۔آگے کی زندگی کا جگاڑ ہوجائےگا۔ ایسے چینلوں کے مدیر کے ساتھ ڈنر کرنے سے بہتر ہے کہ اقتدار چھوڑ دیں۔
وزیراعظم جانتے ہیں کہ اگر میں ان سے ملا تو یہی سب بول دوں گا، اسی لیے وزیراعظم نے 9 سال سےپریس کانفرنس نہیں کی۔خیر، مجھے شویتا کے لیے دکھ ہے تو وزیر اعظم مودی کے لیےبھی ہے کہ انہیں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے کے بعد ان چرکٹ اینکروں اورمدیر کو جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس ویڈیو کو وائرل نہ کریں۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر