انٹرویو: سوشل میڈیا پلیٹ فارم سگنل کی پریسیڈنٹ میریڈیتھ وہیٹیکر کا خیال ہے کہ آرٹیفیشل انٹلیجنس کو ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔ نیز، ان کا ماننا ہے کہ صارفین کی پرائیویسی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
سان ہوزے (کوسٹا ریکا): سوشل میڈیا پلیٹ فارم سگنل کی پریسیڈنٹ میریڈیتھ وہیٹیکر، ٹیک ورکر ہونے کے ساتھ ہی ایک اسکالر بھی ہیں۔ موجودہ رول سنبھالنے سے پہلے، وہ گوگل سے وابستہ تھیں اور مشیرکی حیثیت سےحکومتوں کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔ وہ پرائیویسی اورآرٹیفیشل انٹلیجنس میں انسانوں کےرول کی مضبوط پیروکار ہیں۔ وہیٹیکرنےمعروف میسجنگ ایپ سگنل کے بنیادی اصولوں اورآرٹیفیشل انٹلیجنس کی دنیا میں مچی ہلچل کے بارے میں دی وائر سےبات کی۔
اس دلیل کے ساتھ کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نشر کیے جانے والے پیغامات کے حوالے سےآنکھیں بند نہیں کر سکتے، حکومتیں ان پلیٹ فارمز سے انکرپشن کو توڑنے (بریک کرنے)کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اس پروہیٹیکر نے کہا، ‘ہم اس کے خلاف ہیں۔کسی بڑے کارپوریشن یا طاقتور حکومتوں کی جانب سے جاسوسی کو ہم فطری خیال نہیں کر سکتے ہیں۔ ہزاروں سال کی انسانی تہذیب میں ہمارے باہمی رابطے پر اس قسم کی نگرانی کبھی بھی فطری بات نہیں رہی۔ یہی مثالی صورت حال تھی۔ ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ پرائیویسی کا حق صرف اس وجہ سے ختم نہیں ہوجاتا کہ ہمیں ڈیجیٹل ٹکنالوجی کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔ یہ یاد رکھنا نہایت ضروری ہے۔
کمپیوٹیشنل ٹکنالوجی کی تاریخ پر کام کر چکی وہیٹیکر نے کہا کہ برطانوی حکومت کا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے انکرپشن کوبریک کرنے کی مانگ کرنےوالامجوزہ بل ایک ‘نقصاندہ روایت’ کی ابتدا ہے جو ‘ٹکنالوجی کی صلاحیت کے کسی طلسمی خیال’ پر مبنی ہے۔
برطانوی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ جو آج تک نہیں ہوا، اس کو کرنے کے لیے اس کے پاس ماس سرولانس (نگرانی) کا حق ہے۔ اس کی نقل دوسرے ممالک بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ‘انکرپشن کو توڑے بغیر تمام پیغامات کو دیکھنا’ ممکن نہیں ہے۔ دونوں ہی چیزیں ‘بنیادی طور پر متضاد’ ہیں۔
سرولانس ماڈل
اپریل میں ہندوستانی حکومت کی طرف سے نوٹیفائیڈ متنازعہ آئی ٹی قوانین کا خصوصی حوالہ دیتے ہوئے، وہیٹیکر نے کہا کہ انکرپشن کو بریک کرنے کے لیے کہے جانے پر سگنل راضی نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا، ‘جو ہم پر بھروسہ کرتے ہیں ، ہم ان کے ساتھ کیے گئےپرائیویسی کے وعدے کو کبھی نہیں توڑیں گے۔ یہ ایک لکشمن ریکھا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ہم ایک چھوٹا ساادارہ ہیں۔ لیکن ہم غیر منافع بخش ہیں، اور اس لیے پوری دنیا کے لوگوں کو ایک حقیقی پرائیویٹ کمیونی کیشن ایپ فراہم کرنے کے علاوہ ہمارے ہونے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہم کوئی اور کام کرسکتے ہیں، تو ہم کوئی اور کام کریں گے۔یہ ہمارا معیار ہے۔’
کیا سگنل، وہاٹس ایپ (ریلائنس کے ساتھ شراکت میں) کی طرح میسجنگ پلیٹ فارم کے بزنس ماڈل کو اپنانے پر غور کرے گا – جس نے بڑے پیمانے پر خدشات کو جنم دیا ہے۔
ہم پھونک پھونک کرقدم رکھناچاہیں گے۔ سرولانس ماڈل کو منیٹائز کرنا ایک اہم بزنس ماڈل رہا ہے۔ پچھلے 20 سالوں سے ٹیک انڈسٹری میں اس کا دبدبہ رہا ہے۔ اشتہارات کوفروخت کرنا، صارف کے ڈیٹا کا استعمال اے آئی کو ٹرین کرنے یا دیگر ڈریٹو فنکشنز(مشتق افعال)کے لیے کرنا… یہ سب سے اہم بزنس ماڈل ہے اور یہی وجہ ہے کہ سگنل نے غیر منافع بخش ہونے کو ترجیح دی۔ ہم نہیں چاہتے کہ سرمایہ کار یا شیئر ہولڈرزکبھی بھی پرائیویسی کی خلاف ورزی کے لیے ہم پر دباؤ ڈالیں۔ ‘وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پیسہ نہیں کما رہے ہیں،اس لیے کیوں نہ ہم پرائیویسی کی خلاف ورزی کرکے کچھ اور پیسہ کمائیں۔’ اس لیے ہم کبھی بھی سرولانس بزنس ماڈل کو اپنانے نہیں جا رہے ۔
وہیٹیکر کہتی ہیں،’ہم پر بھروسہ کرنے والوں کے ساتھ جو ہم نے پرائیویسی کا وعدہ کیا ہے، ہم اس کوکبھی نہیں توڑیں گے۔ایسا کرنےسے پہلے، ہم کمپنی کو تالا لگادیں گے۔ یہ خطرے کی لکیر ہے، ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم لڑیں گے۔
اے آئی نام کے بارے میں
آرٹیفیشل انٹلیجنس یا اے آئی کے بارے میں بات کرتے ہوئےوہیٹیکر نے کہا، ‘پرائیویسی اور اے آئی پر بحث ایک دوسرے سے متعلق ہے۔ بہت سی ٹیک کمپنیاں دعویٰ کر رہی ہیں کہ اے آئی باشعور ہے اور اس میں انسانی زندگی کو ختم کرنے کی طاقت ہے۔ (وہ ایسے) دعوے کر رہے ہیں، جن کے کوئی سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں۔’
‘یہ مشینوں کے ذریعے جادوئی سوچ’- جس پر سیاستداں بھی یقین رکھتے ہیں- کے خیال کو ہوا دیتا ہےاور یہ ریگولیشن کے اسٹینڈرڈ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے اکثر بگ ٹیک پر کنٹرول کرنے کے لیے کوئی فریم ورک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔’
سائنس فکشن لکھنے والے معروف مصنف ٹیڈ چیانگ نے حال ہی میں فنانشل ٹائمز کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اے آئی کی اصطلاح بذات خود ایک مسئلہ ہے اور اس کو حقیقت میں اپلائیڈا سٹیٹسٹکس کہنازیادہ مناسب ہو گا ۔
وہیٹیکر نے کہا، ‘ہمارے پاس کاؤنٹر فیکچوئل ہسٹری نہیں ہے – برلن میں ریپبلیکا سے بات کرتے ہوئے میں نےاس نام کی تاریخ پر غور کیا تھا- اے آئی نام کتنا بامعنی ہے؟ 1950 کی دہائی میں کمپیوٹر سائنسداں جان میک کارتھی نےاس نام کو منتخب کیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایسا نام چاہتے تھے ، جو مبالغہ آمیز بیان کو پسند کرنے والے ملٹری فنڈرز کومتوجہ کرے۔ اس کے پیچھے ان کا ایک مقصد اپنے اکیڈمک حریف نارمن وینر کو الگ رکھنا تھا۔ وینر وہی تھا جس نے ‘سائبر نیٹکس کا لفظ ایجاد کیا اور اس وقت یہ پورا شعبہ اس اصطلاح کے ذیل میں آتا تھا’۔
ٹیڈ چیانگ پر لوٹیں، تواس اصطلاح کو 2010 کی دہائی کے آخر میں کارپوریٹ ٹیک،جس کے لیے بڑی مقدار میں ڈیٹا کی ضرورت تھی، کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کے لیے دوبارہ لایا گیاتھا۔ اگر ہمیں سرولانس کو سمجھنا ہے تو ہمیں اسےسمجھنا ہوگا۔ اس کے لیےبہت بڑے کمپیوٹیشنل انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اور اتنے وسائل صرف چندکمپنیوں کے پاس ہی ہیں۔ اس لیے یہ ایک مارکیٹنگ کی اصطلاح یا ٹرم ہے، نہ کہ کوئی تکنیکی اصطلاح ۔ اور یہ ایک طاقتور لفظ ہے۔ کسی چیز کوہر دن انٹلیجنٹ بتانا، اس کی جادوئی خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے۔
اے آئی کا ریگولیشن
اے آئی کی سربراہی کر رہےکئی سرمایہ کارو ں کے ان تبصروں، جن میں وہ مستقبل میں اے آئی کے ہاتھوں انسانوں کی معدومیت کے خطرے کے بارے میں بات کرتے ہیں، سے سے پوری طرح متفق نہیں ہیں۔
‘میں اسے دو طرح سے دیکھتی ہوں – میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ وہ تمام لوگ جویہ مانتے ہیں، ایماندار نہیں ہیں، لیکن یہ ان کمپنیوں اور ٹکنالوجی کو جمہوری طریقے سے چلانے کے امکانات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ خطرے کی گھنٹی کافی آگےکی، مستقبل میں 20، 40، 70 سال دور کی بات ہے… اور اجارہ داری، سرولانس سے ہونے والے نقصانات، اور جو نقصان ابھی ہو رہا ہے، کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ تکنیک لوگوں کےروزمرہ کی زندگی سے ان کے کنٹرول /اختیار کوہٹا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور چیز جو وہ کر رہے ہیں، وہ ہے مسائل کوایک ریگولیٹری نقطہ نظر سے نئے ڈھانچے میں ڈھالنا۔
‘ہم مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے رہے ہیں، مثال کے طور پر، آٹومیشن کے ذریعے ان کی صوابدید کو ختم کرنا۔ ہم ان بنیادی مسائل کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو اس وقت پیش آ رہے ہیں اور یہ وہ مسائل تھے، جن کا حل ریگولیٹرز کو تلاش کرنا تھا۔ انہوں نے اب اس مسئلے کو نئی شکل دی ہے – وہ اسے مستقبل میں بہت دور لے گئے ہیں اور وہ ریگولیٹرز کو حقیقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ فنتاسی کی بنیاد پر ریگولیٹ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ یہ ریگولیشن کو کھوکھلا کرنے اور اسے بے معنی بنانے کا ایک آزمودہ حربہ ہے – جب کاروباریوں کو یہ محسوس ہو کہ ریگولیشن ہو کر ہی رہے گا، تو اسے ہی اپنے حساب سےڈھالنے کی کوشش کرنا…’
نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم جاسنڈا آرڈن نے حال ہی میں اے آئی کو ریگولیٹ کرنے کواڑتے ہوئے راکٹ کی مرمت کے مترادف قرار دیا تھا۔ کیا وہ اے آئی کو ریگولیٹ کرنے کو ایک ناممکن کام بھی سمجھتی ہیں؟
‘میں اسے ایک ناممکن کام کے طور پر نہیں دیکھتی- اس کے خلاف کئی دباؤ ہیں، لیکن یہ دباؤ سیاسی ہیں، تکنیکی نہیں۔ اگر یورپ میں سرولانس پر پابندی کا قانون بنتا ہے تو یہ اے آئی کے راکٹ پربریک لگا دے گا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ہم ڈیٹا فلواور اے آئی کے مرکز میں موجود معاشی ضروریات کو الگ کر دیں گے ۔ اسٹرکچرل بٹوارہ یا ان مشترکہ (ٹیک) اجارہ داریوں کو تقسیم کرنے کا حکم دینے والا قانون ان نقصانات کو کم کرنے کی سمت میں ایک دور رس نتیجہ دینے والا ہوگا۔ اس کام کو کرنے کےکئی عملی طریقے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہ سائنس کی مطلق العنانیت یا زیادتی نہیں ہے، بلکہ یہ ضرورت سے زیادہ طاقتور کارپوریٹ اداروں کا قابو سے باہر ہونا ہے، اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کو کیسےحل کیا جانا ہے۔’
اے آئی میں کام کرنے والوں کا رول
ایک اسکالر کے طور پروہیٹیکر نے جدید ٹکنالوجی میں لیبر کے رول اور ایک بڑے اور آٹومیٹک ( خودکار) اور نام نہادآرٹیفیشل سسٹم (مصنوعی نظام) کو تیار کرنے میں انسانی کوششوں کو کم سے کم کرنے کی نظاماتی مہم پر کام کیا ہے۔
‘اگر آپ اے آئی سسٹم کو تیار کرنےمیں لیبر کی ضرورت کا پتہ لگانا شروع کر تے ہیں، تو ان سسٹمز کے بارے میں، وہ سسٹم کیا ہیں، اور انٹلیجنس حقیقت میں کہاں ہے، کے حوالے سے ایک بالکل مختلف کہانی سامنے آتی ہے۔اس لیےاے آئی کو جن ڈیٹا سیٹ سے ٹرین کیا جاتا ہے ،اس کو تیار کرنے، ان کی لیبلنگ کرنے، ان سسٹمز کوشکل دینےکے لیے اورانہیں ٹرین کرنےکے لیے اور انہیں روزمرہ کے قوانین کے مطابق قابل قبول بنانے کے لیےکئی مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ نسل پرستانہ اور خاتون مخالف بکواس نہ کریں- کیونکہ فطری طورپر انہیں ایسا کرنا چاہیے، کیونکہ انہیں انٹرنیٹ پر ٹرین کیا جاتا ہے، ہے نا! اور پھر دوسرے سرے پر بھی کام کرنے والے چاہیے، جو آؤٹ پٹ کی جانچ کرتے ہیں اور جس ماحول میں وہ کام کرتے ہیں، اس کے حساب سے انہیں نئے سرے سےشکل دینے کا کام کرتے ہیں ۔آپ کو ان کا خیال رکھنے کے لیے لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ یہ (سسٹم) کبھی بھی کام نہیں کرتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا ایک شماریاتی قیاس آرائی کے لیے تربیت یافتہ خودکار نظام کی صلاحیت سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ ہے۔
وہیٹیکر کی سمجھ اس حوالے سے بہت واضح ہے کہ ‘اے آئی میں شامل انٹلیجنس یا ذہانت کام کرنے والوں کا تصور ہے، یہ کام کرنے والوں کی موروثی مہارت ہے، یہ کام کرنے والوں کے ذریعے اپنی حقیقی ذہانت کے ساتھ مداخلت کرنے کی صلاحیت ہے، تاکہ شماریاتی ماڈل کو دوبارہ پٹری پر لایا جاسکے، تاکہ یہ عقلمند نظر آئے۔ اور مشینوں کو عقلمند قرارد ینا اور کام کرنے والوں کو ہٹا دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ان تکنیکوں کے ذریعہ کافی حد تک بڑھائی گئی ہے۔
تو کیاابھی ہم جہاں کھڑے ہیں ، اس سے پیچھے لوٹ سکتے ہیں اور کام کرنے والوں اور انسانوں کو پھر سےکام میں شامل کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا، ‘ہم سےجو بن پڑے گا، وہ کرنے والے ہیں۔’
اے آئی اور جمہوریت
وہیٹیکر رائٹرز گلڈ آف امریکہ، ہالی ووڈ کے ان مصنفین جو اے آئی کے ممکنہ استعمال کے حوالے سے بڑے مسائل کو لے کر ہڑتال پر ہیں، کے بارے میں پر امید ہیں۔ وہ اے آئی کے استعمال کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پروڈکشن ہاؤسز کو اس ٹکنالوجی کا استعمال کرکے ان کے کام، ان کی صلاحیتوں اور ان کی روزی روٹی کو نقصان پہنچانے اور ان کے کام کوگگ ورک میں بدلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسکرین ایکٹرز گلڈ نے اس ہڑتال کو منظوری دی ہے۔
تو، کیا ریگولیشن کے حوالے سے کوئی امید ہے؟
چیٹ جی پی ٹی کے بہت سے ورژن اور دیگر ٹولز کے ذریعے بڑے پیمانے پرمعلومات باہر نکالنے کی وجہ سے ہمارے سامنے بہت سے’انفارمیشن’ ہیں۔ انفارمیشن اور باخبر سول سوسائٹی ایک صحت مند جمہوریت کےاصلی جوہرہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ اے آئی کے انفارمیشن اور بالآخر جمہوریت کے ساتھ رشتے کی تشکیل کو کیسے دیکھتی ہیں، انہوں نے کہا، میں بہت فکر مند ہوں۔ کیونکہ ہمارے پاس پہلے سے ہی ایک انتہائی بگڑا ہوا انفارمیشن سسٹم ہے، جس کی بڑی وجہ پلیٹ فارم کابزنس ماڈل ہے، جس نے مقامی خبروں اور صحافت کو سپورٹ کرنے کی ہماری صلاحیت کو کافی کم کر دیا ہے۔ اور یہ مسلسل جاری ہے۔
‘اب ہم اس کے اوپر ان دھندلے سینٹرلائزڈ سسٹم کو جوڑ دیتے ہیں ،جن کابے معنی اور حقیقت کے لحاظ سے باطل مواد- جو ظاہری طور پر قابل غور لگتا ہے، لیکن جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان میں صداقت کا کوئی احساس ہے – اگلنے کے معاملے میں کوئی ثانی نہیں ہے۔اس لیے یہ یقینی طور پر پروپیگنڈہ مہم کے معاملے کواہم بنا دیتا ہے۔ میرے خیال میں ان کمپنیوں کا اس وقت ان ٹولز کا استعمال کرنا غیر معمولی حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے۔
کیا کوئی امید ہے؟
وہ سر ہلا کر کہتی ہے، ہاں۔فرنٹ لائن پر یونینوں کے ساتھ تنظیم سازی ۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر