خبریں

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں براک اوباما کے تبصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا

وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی ددورے کے دوران سابق امریکی صدر براک اوباما نے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے  مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے الزام لگایا کہ جب اوباما امریکی صدر تھے ،تب چھ مسلم اکثریتی ممالک پر26000 سے زیادہ بموں سے حملہ کیا گیا تھا۔

نرملا سیتارمن۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نرملا سیتارمن۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: امریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے بیچ سابق صدر براک اوباما کے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بیان کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے اتوار (25 جون) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ جب اوباما امریکی صدر تھے تو چھ مسلم اکثریتی ممالک پر 26 ہزار سے زائد بموں سے حملے کیے گئے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ان کے دعووں پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔

سیتا رمن نے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی پر (اوباما کے) تبصروں کے باوجود وہ خود کو روک رہی ہیں، کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ دوستی کو اہمیت دیتی ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،  وزیر خزانہ نے کہا کہ ‘یہ حیرت کی بات ہے کہ جب وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر تھے تو ایک سابق امریکی صدر (باراک اوباما) ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بیان دے رہے تھے۔ میں احتیاط سے بول رہی ہوں، ہم امریکہ کے ساتھ  دوستی چاہتے ہیں، لیکن ہمیں وہاں سے ہندوستان کی مذہبی رواداری پر تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ ان کے (اوباما) کے دورحکومت  میں چھ مسلم اکثریتی ممالک پر 26000 سے زیادہ بم گرائے گئے۔ لوگ ان کی باتوں پر کیسے اعتبار کریں گے؟

قابل ذکر ہے کہ 22 جون کو سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق امریکی صدر براک اوباما نے ہندوستان میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ،’ ہ ‘اگر میں نریندر مودی سے بات کرتا تو میری بات چیت  کا ایک حصہ یہ ہوتا کہ اگر آپ ہندوستان میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں  تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی  نقطہ پر ہندوستان  کا شیرازہ بکھرناشروع  ہو جائے گا۔ اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آپ اس طرح کے بڑے اور اندرونی تنازعات میں شامل ہونے لگتے ہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے… یہ نہ صرف مسلم ہندوستان، بلکہ ہندو ہندوستان کے بھی مفادات کے خلاف ہوگا۔ میرے خیال میں ان چیزوں کے بارے میں ایمانداری سے بات کرنا ضروری ہے۔

وہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 جون کو ہی وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں حصہ لیا تھا۔ اس دوران پی ایم مودی نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مذہب، ذات پات وغیرہ کی بنیاد پر کوئی امتیازاور تفریق  نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا، ہ ‘ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ ہمارے یہاں ذات، پات،عمر، جنس وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی بالکل جگہ نہیں ہے۔ جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، اگر انسانی اقدار نہ ہوں، انسانیت نہ ہو، انسانی حقوق نہ ہوں تو اس حکومت  کوجمہوریت  کہا ہی نہیں جا سکتا۔

مصر کے اپنے موجودہ دورے کےدوران مودی کو’آرڈر آف دی نائل’ سے نوازے جانے کے درمیان، وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم کو 13 ممالک میں اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازا گیا ہے، جن میں سے چھ مسلم اکثریتی ہیں۔

اوباما کے ریمارکس پر پہلے آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے تنقید کی تھی، جنہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ملک میں کئی ‘حسین اوباما’ ہیں اور ریاستی پولیس اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرے گی۔

اپوزیشن لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ کے’حسین اوباما’ کے ٹوئٹ نے دراصل امریکہ میں وزیر اعظم مودی کے اس دعوے کو کمزور کر دیا ہے کہ ہندوستان میں کوئی مذہبی امتیاز اور تفریق نہیں ہے۔