خبریں

یوپی: بچے کا ختنہ کرنے کے دعوے پر ہندوتوا گروپوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد اسپتال کا لائسنس رد

واقعہ بریلی کے ڈاکٹر ایم خان اسپتال کا ہے۔ وہاں ڈھائی سالہ بچے کو بھرتی کرایا گیاتھا، جس کے والدین کا دعویٰ ہے کہ اسے زبان کی سرجری  کے لیے لایا گیا تھا، لیکن ڈاکٹر نے اس کا ختنہ کر دیا۔ ڈاکٹر  نے اس دعوے کو من گھڑت بتایا ہے۔

معاملے کی تحقیقات کا حکم دینے والے اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

معاملے کی تحقیقات کا حکم دینے والے اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

لکھنؤ: ایک سرجن کے ذریعے ایک بچے کا ختنہ کرنے کے دعوے پر ہندوتوا کارکنوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے بعد بریلی کے ایک اسپتال کا لائسنس رد کر دیا گیا ہے۔ وہیں،  ایک اعلیٰ سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں اب تک علاج  ومعالجہ کی کوئی لاپرواہی نہیں پائی گئی ہے۔

گزشتہ ہفتے اتر پردیش کے بریلی کے ڈاکٹر ایم خان اسپتال میں ڈھائی سالہ بچے کو داخل کرایا گیا تھا۔ اس کے والدین نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے زبان کی سرجری کے لیے بھرتی کرایا گیا تھا ،کیونکہ وہ ہکلاتا تھا۔ بچے کے والدین ہندو ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ڈاکٹر (جو مسلمان ہے) نے زبان کی سرجری کرنے کے بجائے اس کا  ختنہ کر دیا۔

بچے کے والد نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر نے بچے کا ختنہ کرنے سے قبل اہل خانہ کی رضامندی نہیں لی تھی اورکہا کہ  ڈاکٹر کا مقصد بچے کو سرجری کے ذریعےمسلمان بنانا تھا۔ دی وائر بچے کے پہچان مخفی  رکھنے کے لیے والد کا نام شائع نہیں کر رہا ہے۔

والد نے کہا، ‘ہسپتال انتظامیہ مجھ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے، لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا کیونکہ مجھے اپنے بھائیوں کو بھی بچانا ہے۔’

اس واقعہ کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی اور سینکڑوں ہندوتوا کارکن اسپتال میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ کارکنوں نے دعویٰ کیا کہ ختنہ کی سرجری کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہےکہ ہسپتال کا نام ایک مسلمان ڈاکٹر کے نام پر رکھا گیا ہے۔

تاہم، ڈاکٹر جاوید خان نے کہا ہے کہ جب بچہ گزشتہ ہفتے ہسپتال پہنچا تو پتہ چلا کہ اسے فیموسس نامی بیماری ہے اور اس کے والدین کو فوراً  مشورہ دیا گیا کہ ختنہ کرانے سے اس مرض کا علاج ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر خان کے مطابق، سرجری والے دن بچہ اپنے چچا کے ساتھ ہسپتال آیا تھا، جنہوں نے ختنے کی رضامندی بھی دی تھی۔ ڈاکٹر خان نے مقامی صحافیوں کو مریض کے چچا کے دستخط شدہ رضامندی کا خط بھی دکھایا۔ انہوں نے کہا، مریض کے اہل خانہ نے ہکلانے کے مسئلے کے لیے کبھی مشورہ نہیں لیا۔

ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک، جو محکمہ صحت کو سنبھالتے ہیں، نے 24 جون کو ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کہ انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے محکمہ صحت کی ایک ٹیم کو اسپتال بھیجا ہے۔

ڈپٹی چیف منسٹر نے یہ بھی کہا کہ اگر شکایت درست پائی جاتی ہے تو اسپتال انتظامیہ اور قصوروار ڈاکٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے اور مذکورہ اسپتال کا رجسٹریشن فوری اثر سے منسوخ کرنے اور اس  کارروائی کی مکمل رپورٹ 24 گھنٹے کے اندر دستیاب کرائے جانے کے حکم بریلی کے چیف میڈیکل آفیسر (سی ایم او) کو دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘مذکورہ ہسپتال کو تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر سیل  بھی کیا جائے گا۔’

رابطہ کرنے پر چیف میڈیکل آفیسر بلبیر سنگھ نے کہا کہ ہسپتال کا لائسنس رد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں پائی گئی تھی۔

سی ایم او کے مطابق، پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ ہسپتال نے مریض کی سرجری سے متعلق کسی بھی دستاویز میں ہیرا پھیری نہیں کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی جانچ پوری نہیں ہوئی ہے اور رپورٹ کی بنیاد پر حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)