خبریں

جموں و کشمیر: کشتواڑ میں مدارس کو سیل کرنے والے مقامی انتظامیہ کے احکامات عدالتی جانچ کے دائرے میں

جموں خطہ کے کشتواڑ ضلع میں دو مدارس کو مقامی انتظامیہ نے ایف سی آر اے کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے ٹرسٹ کے ساتھ الحاق کی وجہ سے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، حالانکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا دی تھی۔ اس کے باوجود مدارس کو سیل کر دیا گیا۔

(فوٹوبہ شکریہ: اے این آئی)

(فوٹوبہ شکریہ: اے این آئی)

سری نگر: جانکاری ملی ہے کہ جموں خطہ کے کشتواڑ ضلع میں دو مدارس کو سیل کرنے سے متعلق جموں و کشمیر انتظامیہ کےاحکامات پہلے سے ہی جموں  و کشمیر ہائی کورٹ کی جانچ کے دائرے میں ہے۔

تاہم ،ہائی کورٹ کی روک  کے باوجود انتظامیہ، جو براہ راست بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی  مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے، نے منگل (4 جولائی) کوکشتواڑ کی تحصیل دراب شالہ کے تاتانی سرورمیں واقع  مدرسہ تعلیم القرآن اور مدرسہ اشرف العلوم کو سیل کر دیا ہے۔

حکام کے مطابق، دونوں مدارس جموں واقع مولانا علی میاں ندوی ایجوکیشنل چیرٹیبل ٹرسٹ (ایم اے ایم این ای سی)سے الحاق شدہ ہیں۔ ان پر فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کے اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔

غور طلب ہے کہ 4 جولائی کو عدالت نے انتظامیہ کو ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کے علاوہ یونین کے زیر انتظام علاقوں میں دیگر مدارس کے خلاف کوئی بھی تعزیری کارروائی کرنے سے روک دیا تھا۔انتظامیہ کے حالیہ  اقدام کے بعد سیل کیے گئے ان دونوں مدارس میں 100 کے قریب بچے  زیر تعلیم ہیں۔

مدرسہ تعلیم القرآن کے مہتمم کو دیے ایک خط میں لکھا ہے کہ ،ڈویژنل کمشنر، کشتواڑ کے ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرکےحکم کے مطابق،یہ  مدرسہ  (انتظامیہ) کے حوالے کیا جاتا ہے اور بند کیا جاتا ہے۔

اسی طرح کا خط مدرسہ اشرف العلوم کے مہتمم کو بھی دیا گیا ہے۔

کشتواڑ کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر دیوانش یادو نے کہا کہ دونوں مدارس مبینہ طور پر ایم اے ایم این ای سی ٹرسٹ سے الحاق رکھتے  تھے۔ انہوں نے کہا، یہ ایم اے ایم این ای سی ٹرسٹ کے کام کاج  کے بارے میں تفصیلی تحقیقات کا حصہ ہے۔اس کے ساتھ ہی، انہوں نے کہا کہ اس سے بچوں  کی تعلیم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

تاہم دونوں مدارس کے منتظمین نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ مدرسہ تعلیم القرآن کے مہتمم محمد ارشد نے دی وائر کو بتایا،ہمیں وضاحت  کا موقع دیے بغیر مدرسہ بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہمارا کسی ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مدرسہ پورے جموں و کشمیر کے لوگوں کے عطیات اور عوامی پیسے سے چلتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘اگر ہمارے بینک اکاؤنٹ میں ایک بھی لین دین پایا جاتا ہے، جوایم اے ایم این ای سی ٹرسٹ سے منسلک ہے، تو حکومت ہمیں پھانسی چڑھا  دے، لیکن بغیر کسی وجہ کے ہمارے مدرسے کو بند کرنا، جہاں چھوٹے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، ناانصافی اور غلط ہے۔’

قبل ازیں انتظامیہ نے ڈویژنل کمشنر کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ایم اے ایم این ای سی ٹرسٹ کے ساتھ الحاق رکھنے کےلیے جموں میں جمعیت الصالحات اور کم از کم دو دیگر مدارس کو سیل کر دیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس فیصلے کورد کر دیا تھا۔

ہائی کورٹ نے منگل (4 جولائی) کو کہا تھا، مذکورہ احکامات کے جائزے  سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کہیں بھی متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کو دوسرے ٹرسٹوں کے ذریعہ چلائے جانے والے مدارس کوقبضہ میں لینے  کا اختیار نہیں دیتا۔ڈویژنل کمشنر جموں کا حکم خاص طور پر ایم اے ایم این ای سی ٹرسٹ کے لیے ہے۔

ہائی کورٹ نے جموں میں دو دیگر مدارس کو بند کرنے کے حکم کو معطل کرتے ہوئے انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ جمعیت الصالحات مدرسہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرے۔

انتظامیہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ جمعیت الصالحات مدرسے کے خلاف ‘بغیر کسی معقول حکم کے’ کارروائی نہ کی جائے، جبکہ دیگر دو مدارس کو  قبضہ میں لینے کے حکم کو ‘معطل’ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا، تاہم، یہ حکم دوسرے فریق کے اعتراضات سے مشروط ہے۔

مدارس کے خلاف کارروائی جموں و کشمیر میں غیر سرکاری تنظیموں  اور ان سے وابستہ اداروں کے خلاف کارروائی کا حصہ ہے، جن پر غیر ملکی فنڈنگ کے اصولوں کی خلاف ورزی کا شبہ ہے۔

سال 2013 میں حکومت ہند کے سروے کے مطابق، جموں و کشمیر میں372 مدارس ہیں۔ ڈاکٹر نثار اے بھٹ کی 2022 میں ‘جموں و کشمیر میں مدرسہ کی تعلیم’ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں یہ  تعداد 499 ہے، جن میں سے 16 مدرسے صرف کشتواڑ ضلع میں ہیں۔

اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ان مدارس کی لائبریریوں میں تقریباً پانچ لاکھ کتابیں موجود ہیں، لیکن صرف 94 نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کو اپنایا ہے۔ ان مدارس میں ہزاروں بچے، جن میں زیادہ تر یتیم ہیں اور معاشی طور پر غریب گھرانوں سے آتے ہیں، خوراک اور دیگر سہولیات کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

ایک آزاد آن لائن نیوز آؤٹ لیٹ چناب ٹائمزنے اپنی رپورٹ میں کہا ہے، مدارس کی سیلنگ نے جاری تنازعہ کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے، جس نے اپنی جانب خاصی توجہ مبذول کرائی ہے اور ڈپٹی کمشنر کے حکم کی قانونی حیثیت اور غیرجانبداری پر سوال اٹھائے ہیں۔حکام کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نے ان اداروں میں نامزد بچوں کی تعلیم میں ممکنہ رکاوٹ کےحوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔

مدرسہ تعلیم القرآن کے مہتمم ارشد نے کہا کہ حکومت کے اس فیصلے سے یہاں پڑنے والے بچوں کی تعلیم متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا، ‘عوام کی فیاضی کی وجہ سے میرے طلباء مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انہیں اپنے مذہب کے بارے میں جاننے کا موقع دینے سے روکنا غلط ہے۔

تاہم، کشتواڑ کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر یادو نے کہا کہ جہاں  ضلع انتظامیہ ایک سرکاری استاد کی تقرری کا ارادہ رکھتی ہے، وہیں طلباء کو اپنی مذہبی تعلیم جاری رکھنے کا اختیار دیا جائے گا۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا، یا طلباء ضلع میں کہیں بھی سرکاری اسکول میں داخلہ لے سکتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ایف سی آر اے کے تحت غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ تاہم، 2021-22 میں، این جی اوز اور دیگر ایسوسی ایشن نے 22000 کروڑ روپے سے زیادہ کے غیر ملکی فنڈز حاصل کیے، جو پچھلے دو سالوں میں حاصل کیے گئے فنڈز سے زیادہ ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔