خبریں

منی پور تشدد کو ’سرکاری سرپرستی‘ کا نتیجہ قرار دینے والی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ارکان کے خلاف کیس

گزشتہ 28 جون سے1 جولائی کے درمیان نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے منی پور کا دورہ کیا تھا۔ اس کے تین ارکان اینی راجہ، نشا سدھو اور دکشا دویدی کے خلاف ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے، اکسانے اور ہتک عزت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

این بیرین سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/این بیرین سنگھ)

این بیرین سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/این بیرین سنگھ)

نئی دہلی: حال ہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے منی پور کا دورہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ریاست میں نسلی تصادم ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ تشدد’ کا نتیجہ ہیں۔ اب اس ٹیم کے تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

گزشتہ 8 جولائی کو اینی راجہ، نشا سدھو اور دکشا دویدی کے خلاف امپھال پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ یہ خواتین نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھیں، جس نے 28 جون سے یکم جولائی کے درمیان منی پور کا دورہ کیا تھا۔ راجہ این ایف آئی ڈبلیو کی جنرل سکریٹری ہیں، جبکہ سدھو اس کی نیشنل سکریٹری ہیں اور دویدی دہلی میں مقیم ایک وکیل ہیں۔

خبروں کے مطابق، ایف آئی آر میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی کئی دفعات شامل کی گئی ہیں، جن میں ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا، اکسانا اور ہتک عزت شامل ہے۔ ایل لبین سنگھ نامی ایک شخص نے تینوں خواتین کی طرف سے پریس کانفرنس میں دیے گئے بیانات کے حوالے سے شکایت درج کرائی تھی۔

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے خلاف یہ معاملہ امپھال کی ایک عدالت کی طرف سے ایک پروفیسر اور دو کُکی کارکنوں کو سمن جاری کرنے کے بعد سامنے آیا۔ غور طلب ہے کہ دی وائر کو دیے گئے ان کے حالیہ انٹرویو کے سلسلے میں میتیئی کے کارکنوں نے ان  کے خلاف مقدمات درج کرائے تھے۔

تینوں خواتین نے 2 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ منی پور میں جھڑپیں ‘فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہیں  اور نہ ہی یہ صرف دو برادریوں کے درمیان لڑائی ہے۔’

انہوں نے کہا تھا کہ اس میں’زمین، وسائل ، شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کی موجودگی کے سوال’ شامل ہیں۔ حکومت نے اپنے پوشیدہ پرو کارپوریٹ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہوشیاری سے حکمت عملی اپنائی، جس کی وجہ سے موجودہ بحران پیدا ہوا ہے۔

انہوں نے اسے ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ تشدد’ قرار دیا تھا۔

نیوزکلک کے مطابق، انہوں نے کہاکہ ، خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کے لیےریاست اور مرکز میں برسراقتدار حکومت کی طرف سے دونوں برادریوں کے درمیان عدم اعتماد اور تشویش  کا ایک واضح پس منظر پیدا کیا گیا تھا۔’

شکایت کے مطابق، اس دعوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین ‘لوگوں کو حکومت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے  اکسا کر جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے’ کی سازش کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ شکایت کنندہ نے منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے اپنااستعفیٰ واپس لینے کے فیصلے کو ‘ڈرامہ’ بتائے جانے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔

دی وائر نے ان خواتین میں سے ایک سے بات کی، جنہوں نے کہا کہ انہیں ایف آئی آر کے بارے میں مختلف مقامی میڈیا رپورٹ کے توسط سے پتہ چلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کی کاپی ابھی تک نہیں ملی ہے۔اس  پیش رفت پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایف آئی آر دیکھنے کے بعد ہی کچھ کہہ سکتی ہیں۔

ناگالینڈ پوسٹ کے مطابق، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 2 جولائی کو کہا تھا کہ عوام کے منتخب نمائندے کے طور پربیرین سنگھ’ریاست کے لوگوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے ذمہ دار ہیں، چاہے وہ کسی بھی برادری کے  ہوں۔’

انہوں نےکہا،

‘لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ زندگی اور معاش کے تحفظ اور سکیورٹی  کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ اس لیے انہیں اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ انہیں (وزیر اعلیٰ) 3 مئی کو تشدد کے بعد ایک ہفتہ کے اندر ہی  اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

غورطلب ہے کہ 8جولائی کو ہی ایک اور واقعہ میں منی پور کے محکمہ داخلہ نے پولیس سے زومی اسٹوڈنٹس فیڈریشن یونین کے ارکان کے خلاف کارروائی کرنے کو کہاتھا،جنہوں نے ‘دی انیوٹیبل اسپلٹ: ڈاکیومنٹس آن اسٹیٹ اسپانسرڈ ایتھنک کلینزنگ ان منی پور’، 2023 کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی ہے۔ پولیس سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ کتاب کی مزید اشاعت پر پابندی کو یقینی بنایا جائے۔

یہ کتاب 28 مئی کو شائع کی گئی تھی۔ اس کے 6 ابواب ہیں۔

اس سلسلے میں ایک خط کا جواب دیتے ہوئے زومی اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے 9 جولائی کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اس سے حیران نہیں ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘حکومت کی جانب سےہمارے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق کو دبانے کے ڈر سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔’

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔