خبریں

گلزار اعظمی: دہشت گردی کے معاملوں میں غلط طریقے سے پھنسائے گئے ملزمین کے مددگار

اعظمی کی نگرانی میں جمعیۃ علماء ہند ایک سماجی اور مذہبی تنظیم سے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم میں بدل گئی۔

گلزار اعظمی، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

گلزار اعظمی، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

ممبئی : سال 2006 میں تین الگ الگ معاملوں—ممبئی سیریل ٹرین بلاسٹ، اورنگ آباد ہتھیار برآمدگی معاملہ  اور مالیگاؤں بم بلاسٹ معاملہ—میں گرفتار کیے گئے 30 سے زائد مسلم نوجوانوں کے ایک گروپ نے ممبئی میں جمعیۃ علماء ہند کے دفتر کو ایک مایوس کن خط لکھا۔ اس خط میں، جیل میں بند افراد – جن پر ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کے ممبر ہونے کا الزام ہے – نے  اپنی سماجی و اقتصادی حیثیت کے بارے میں بتایا اور دلیل دی کہ انہیں غلط طریقے سےمعاملوں میں پھنسایا گیا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند، جو اس وقت تک صرف ایک سماجی اور مذہبی تنظیم تھی، جلد ہی ہندوستان بھر میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں پھنسےلوگوں کے لیے قانونی امداد فراہم کرنےکے مرکز میں تبدیل ہوگئی۔ اورتبھی سے اس قانونی مہم کی قیادت کرنے والے شخص جمعیۃ کےسینئر رہنما گلزار اعظمی تھے۔ اس وقت اعظمی 74 سال  کے تھے۔

غورطلب ہے کہ گزشتہ دنوں گرنے اور اس کےنتیجے میں سر میں چوٹ لگنے کے بعد20 اگست کو شہر کے ایک اسپتال میں اعظمی کا انتقال  ہوگیا۔ وہ  90 سال کے تھے۔ لیکن انتقال سے کچھ وقت قبل تک، ان کے معاونین کا کہنا ہے کہ وہ ممبئی کے امام باڑہ کمپاؤنڈ میں جمعیۃ کےدفتر میں شام تک کام کر رہے تھے۔

جمعیۃ کے قانونی سیل کے سکریٹری کے طور پر ڈیڑھ دہائی سے زیادہ کے اپنے کاموں میں اعظمی نے 500 سے زیادہ افراد کے معاملوں کی نگرانی کی، یہ سبھی ہندوستان بھر میں دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسے ہوئےتھے۔

ان کے معاون وکیل شاہد ندیم کہتے ہیں،’ان کا بنیادی اصول یہ تھا کہ جب تک کسی شخص کو غلط طریقے سے پھنسایا جاتا ہے، ہمیں انہیں قانونی مدد فراہم کرنی ہوگی۔’

ندیم کہتے ہیں، اس لیے جب جیل میں بند لوگوں کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ کیا تو،  اعظمی نے یہ جاننے میں حد درجہ دلچسپی لی کہ ان کے خلاف  لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت ہے یا نہیں۔

اپنی موت کے وقت اعظمی جمعیۃ کی قانونی ٹیم (لیگل ٹیم)کے ساتھ 75 سے زیادہ ایسےافراد کے معاملوں کو سنبھال رہے تھے ،جنہیں موت کی سزا دی گئی تھی اورساتھ ہی وہ عمر قید کے 125 سے زیادہ مجرموں کے مقدمات کو  بھی سنبھال رہے تھے۔

اعظمی وکیل نہیں تھے۔ ندیم کہتے ہیں، دراصل  انہوں نے صرف پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن ان کی قانونی واقفیت  کی وجہ سے لوگ انہیں وکیل سمجھ لیتے  تھے۔

بنیادی طور پر اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والےاعظمی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ممبئی کے بھنڈی بازار علاقے میں گزارا، جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں وہ سوشلسٹ تحریک میں شامل ہو ئے اور کئی سماجی اور مذہبی گروہوں کا حصہ بنے۔ وہ 1950 کی دہائی سے جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ تھے۔ ان کے ساتھی یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے 65 سال سے زائد عرصے تک مسلم کمیونٹی کی خدمت کی۔

گلزار اعظمی کی نماز جنازہ، فوٹو: امتیاز شیخ

گلزار اعظمی کی نماز جنازہ، فوٹو: امتیاز شیخ

واحد شیخ، جنہیں 11 جولائی 2006 کے ممبئی سیریل ٹرین بلاسٹ کے کیس میں جھوٹا پھنسایا گیا تھا اور نو سال سے زیادہ عرصے تک  جیل میں رکھاگیا تھا، کہتے ہیں کہ  اعظمی کے کام نے ان سینکڑوں خاندانوں کو امیدیں دیں جو ریاستی اقتدار سے لڑنے کی قوت نہیں رکھتے تھے۔

شیخ کہتے ہیں،’ایک بار جب آپ گرفتار کر لیے جاتے  ہیں تو لڑائی صرف ٹرائل کورٹ تک محدود نہیں رہتی۔ سپریم کورٹ تک لڑنا پڑتا ہے۔ اور زیادہ تر خاندان اس مشکل قانونی لڑائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

شیخ کے مطابق، اعظمی قابل احترام شخصیت  کے مالک تھے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ شیخ یاد کرتے ہیں،’لیکن یہ اس وقت ان کے دفاع  میں نہیں آئے، جب ان کے دو بھتیجوں کو مکوکا [مہاراشٹرکنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ] کے معاملے میں گرفتار کیا گیا۔’

گزشتہ دو دہائیوں میں اعظمی نے  پورے ملک میں قانونی ٹیم بنانے کاغیرمعمولی  کارنامہ انجام  دیا۔ وکلاء کی یہ ٹیم ہندوستان میں ٹرائل کورٹ کی سطح سے لے کر سپریم کورٹ تک زیادہ تردہشت گردی سےمتعلق معاملوں کوسنبھال رہی  ہے۔

شاہد اعظمی، ان کے ساتھ کام کرنے والےاولین وکیلوں میں سے تھے، جنہیں 2010 میں مبینہ طور پر گینگسٹر چھوٹا راجن کے ساتھیوں نے قتل کر دیا۔ اپنی موت کے وقت، شاہد 7/11 ٹرین بم بلاسٹ کے معاملوں، مالیگاؤں 2006 کے بم بلاسٹ کے معاملوں، اورنگ آباد ہتھیاربرآمدگی معاملے، گھاٹ کوپر بم بلاسٹ معاملے اور 26 نومبر 2008 کے ممبئی دہشت گرد انہ حملےسے متعلق معاملے میں کئی ملزمین کی نمائندگی کر رہے تھے۔

شاہد کی وفات کے بعد، گلزاراعظمی نے قانون کی پڑھائی میں دلچسپی رکھنے والے طالبعلموں کے لیے اسکالر شپ شروع کی۔

ندیم کہتے ہیں، ‘ہر سال جمعیۃ مسلم اور دلت برادریوں کے 25-30 قانون کے طالبعلموں کی پڑھائی کو اسپانسر کرتی رہی ہے۔ اعظمی کا خیال تھا کہ گرفتار کیے گئے لوگوں کی مدد کرنے کے علاوہ کمیونٹی کو ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے وکیلوں کی بھی ضرورت ہے۔’

جب بھی پولیس دہشت گردی کے ایک نئے ماڈیول کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ کرتی، تو اعظمی اپنے مقامی نیٹ ورک سے اس کے بارے میں پتہ لگاتے اور اس میں ملزم بنائے گئے افراد کا پس منظر معلوم کرتے  اور ان کے لیے قانونی حکمت عملی وضع کرتے۔

فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

اس لیے، جب مفتی عبدالقیوم منصوری، جنہیں اکشردھام بلاسٹ کیس میں سزائے موت  سنائی گئی ، لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے  بری کر دیا، کو قانونی امداد کی ضرورت پڑی تو اعظمی مدد کا ہاتھ بڑھانے  والے پہلے شخص تھے۔

منصوری کہتے ہیں،’اعظمی صاحب مجھ سے اور معاملے میں گرفتارکیے گئے دیگر لوگوں سے ملنےسابرمتی جیل آئے تھے۔ انہیں اس کی کوئی  ضرورت نہیں تھی، لیکن انہوں نےایسا کیا۔ انہوں نےہمیں یقین دہانی کرائی کہ جمعیۃ اس معاملےپر توجہ دے گی۔ اور انہوں نے آخر تک ایسا ہی کیا۔

منصوری، ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ممبئی میں تھے۔ ہزاروں لوگ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آئے تھے، جن میں سے اکثر دہشت گردانہ جرائم کے ملزمین اور ان کے اہل خانہ  تھے۔

جمعیۃ علماء ہند عوامی مدد سے چلنے والی تنظیم ہے ۔تاہم، 2014 میں، بی جے پی کے ایم ایل اے آشیش شیلار نے مہاراشٹر حکومت سے جمعیۃ علماء ہند پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر کے طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ شیلار نے اعظمی پر بھگوڑے گینگسٹر چھوٹا شکیل سے روابط رکھنے کا الزام لگایا تھا۔ اس بیان نے ہنگامہ برپا کر دیا  تھااور آخر کار شیلار کو اپنا بیان واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔