تقسیم اور فرقہ وارانہ سیاست پر مبنی بھیشم ساہنی کے ناول ‘تمس’ کے خلاف سوشل میڈیا مہم کا آغاز بی جے پی کے سابق ایم پی بلبیر پنج کے ایک پیغام سے ہوا، جس میں انہوں نے ساہنی کو بائیں بازو کا فرد بتاتے ہوئے دعویٰ کیاتھا کہ تمس میں فرقہ وارانہ تشدد کے لیے ‘براہ راست یا بالواسطہ’ طور پرآر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے منسلک اکاؤنٹس کے ذریعے شروع کی گئی سوشل میڈیا مہم کے چند دنوں بعد نیشنل اسکول آف ڈراما (این ایس ڈی) نے نامور ادیب بھیشم ساہنی کے ناول ‘تمس’ کی پیشکش کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق، این ایس ڈی ریپرٹری کو 14 سے 20 اگست تک ابھیمنچ آڈیٹوریم میں ڈراما اسٹیج کرنا تھا۔ یہ اس کے سیزن اینڈ شو کا حصہ بننا تھا، جس کے لیے تقریباً دو ماہ کی ریہرسل ہو چکی تھی۔ تاہم شو شروع ہونے سے دو روز قبل سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں اسے ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ساہنی کا یہ ناول، جو 1973 میں شائع ہوا تھا، تقسیم اور فرقہ وارانہ سیاست کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
اخبار کے مطابق، سوشل میڈیا مہم کی شروعات بی جے پی کے سابق راجیہ سبھا ایم پی بلبیر پنج کے ایک چیٹ گروپ پر بھیجے گئے ایک پیغام سے ہوئی، جس میں انہوں نے ساہنی کو بائیں بازو کا فرد بتایا اور دعویٰ کیا تھا کہ تمس نے اس دوران فرقہ وارانہ تشدد کے لیے ‘ براہ راست یا بالواسطہ طور پر’ آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ پنج کے مطابق، یہ ‘حقائق کی رو سے غلط’ تھا۔
بعد میں اخبار کے ذریعے رابطہ کیا گیاتو پنج نے کہا کہ ان کوجو کچھ کہنا تھا وہ چیٹ گروپ پر پوسٹ کیے گئے پیغام میں کہہ چکے ہیں اور مزید کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
خبروں کے مطابق، پنج کا یہ پیغام کئی چیٹ گروپ، ٹوئٹر اور دیگر عوامی فورم تک پہنچ گیا۔ مہم میں حصہ لینے والوں نے مرکزی وزراء ارجن رام میگھوال اور میناکشی لیکھی کو ٹیگ کیا، جو 14 اگست کو افتتاحی شو کے لیے مہمان خصوصی کے طور پر پہنچنے والے تھے۔
تاہم، این ایس ڈی ریپرٹری کے سربراہ راجیش سنگھ نے اخبار کو بتایا کہ شو کو’کچھ اندرونی وجوہات سے’ ملتوی کیا گیا ہے۔
سنگھ نے کہا کہ انہیں اس بارے میں جانکاری نہیں ہے کہ سوشل میڈیا مہم کا اس پیشکش کو ملتوی کرنے میں کوئی رول ہے یا نہیں۔
قابل ذکر ہے کہ شیام بینگل نے 2005کےاپنے ایک میموریل لیکچر میں تمس اور آر ایس ایس سے متعلق ایک واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ، پہلی فلم جس نے تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم اختلافات کے مسئلے کو پیش کیا وہ بھیشم ساہنی کے ناول ‘تمس’ پر مبنی ہے جسے گووند نہلانی نے 1987ء میں منی سیریز کی شکل میں بنایا تھا۔ اس سیریز کی خوش قسمتی تھی کہ اسے فلم سنسر بورڈ کے ذریعے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئی، چونکہ یہ ٹیلی ویژن کے لیے تیار کی گئی تھی، ورنہ سنسر اس بنیاد پر اس کے اوپر پابندی عائد کردیتا کہ اس میں دو فرقوں کے درمیان عداوت اور جنگ و جدال کو نمایاں کیا گیا ہے۔
بینگل کہتے ہیں، جس وقت نیشنل ٹیلی ویژن چینل’دوردرشن’ اسے ٹیلی کاسٹ کرنے پر غور کر رہا تھا اس وقت آر۔ ایس۔ ایس اور اس کی دیگر ہمنوا جماعتوں نے اس کو دکھائے جانے کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ممبئی میں واقع نہلانی کی قیام گاہ پر حملہ کیا گیا اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دئی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ‘دوردرشن’نے سیریز کو نہ دکھانے کا فیصلہ اس عذر کی بنا پر کیا کہ اس سے نقص امن کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے بھی ٹیلی ویژن اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی تھی۔
وہ مزید کہتے ہیں، نہلانی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ‘سیریز’ کو ملاحظہ کرنے کے بعد بمبئی ہائی کورٹ نے دوردرشن کو اسے دکھلانے کی ہدایت دی، کیوں کہ اس فلم میں کوئی ایسی بات خلاف دستور نہیں تھی جس پر پابندی عائد کی جاتی، اس کے بعد ہی پوری فلم کو دوردرشن پر ایسے وقت دکھایا گیا جب بڑی تعداد میں ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔ تین شاموں تک دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا اور اس دوران کوئی (ناخوشگوار) واقعہ نہیں ہوا۔
Categories: خبریں