سال 2023 میں ہندوستانی معیشت بے تحاشہ مہنگائی اور آمدنی میں عدم مساوات کا سامنا کر رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی محض بازار کی طاقتوں کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اس سرکاری رویے کا نتیجہ ہے جہاں ایک طبقے کو دوسرے پر ترجیح دی جاتی ہے۔
جیسے ہی اہم انتخابات قریب آتے ہیں، موجودہ حکومت مہنگائی مخالف مکھوٹا پہن لیتی ہے اور ان اشیا کی قیمتوں کو کم کردیتی ہے، جنہیں حکومت نےہی پہلے بڑھایا تھا۔ گھریلو ایل پی جی کی قیمتوں میں200 روپے کی تخفیف کا حالیہ اعلان اس کی ایک مثال ہے۔ اگرچہ ایل پی جی کی قیمتیں اب بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن اس اعلان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے لاکھوں جدوجہد کرنے والے خاندانوں کو کچھ راحت ملی ہے۔
ہندوستان شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے اور مہنگائی بے قابو ہے۔ اگست 2023 میں خوردہ افراط زر 6.83 فیصد پر تھا۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کا ہدف ہے افراط زر کو 4 فیصد تک محدود کرنا ۔ پچھلے 29 مہینوں میں مہنگائی آر بی آئی کے 4 فیصد کے ہدف سے اوپر رہی ہے۔ جولائی اور اگست میں غذائی مہنگائی بالترتیب 10 اور 9 فیصد سے تجاوز کر گئی۔
دی ہندو کے ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سالوں میں کھانے کی تیاری کی لاگت میں65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران عوام کی آمدنی میں صرف 28 سے 37 فیصد اضافہ ہوا۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے دیگر ضروری اخراجات کے لیے جگہ کم رہ گئی ہے۔ مہنگائی کے معاملے پر حکومت اکثر یہ دلیل دیتی ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس سے ترقی یافتہ ممالک بھی دوچار ہیں۔ یہ استدلال یکسر رد کیے جانے کے لائق ہے۔
زیادہ آمدنی والے ممالک میں زیادہ تر لوگوں کے لیے مہنگائی صوابدیدی اخراجات کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا ہمارے جیسے کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں معیار زندگی پر براہ راست اور اکثر دردناک اثر پڑتا ہے۔ یورپ میں زیادہ مہنگائی خاندانوں کو کاریں خریدنے یا چھٹیاں منسوخ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے – لیکن ہندوستان میں دو جون کی روٹی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔
چند ہفتے قبل جب ٹماٹر کی قیمت 100 روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی تھی، تو زیادہ تر خاندانوں نے اس کی کھپت میں زبردست کمی کر دی۔ 2023 کے اوائل کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے 40 فیصد خاندانوں نے یا تو دودھ کا استعمال کم کر دیایا اسے پوری طرح سے بند کر دیا۔ اشیائے خوردونوش کامہنگا ہونا غذائیت اور بھوک کے اشاریوں(ہنگر انڈیکس ) میں ملک کی خراب پوزیشن کی وجہ ہے۔ ہندوستانی شہری اس وقت مالی طور پر مستحکم نہیں ہیں۔ کسی بھی پیرامیٹر پر ہندوستانی اور مغربی صارفین کا موازنہ کرنے سے پہلے ان وسیع تفاوتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
تاہم، اگر حکومت کو سیاق و سباق کے بغیر موازنہ کرنا ہے، تب بھی صورتحال مایوس کن ہی ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں کافی مستحکم ہو چکی ہیں۔ ایف اے او کا فوڈ پرائس انڈیکس اگست 2022 میں 137.6 پر تھا، یہ اگست 2023 میں گر کر 121.4 پر آ گیا تھا۔ ہندوستان کا ہول سیل پرائس فوڈ انڈیکس اگست 2022 میں 176 سے بڑھ کر اگست 2023 میں 186 ہو گیا۔ جب عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 11 فیصد کمی آئی تو ہندوستان میں ان میں 5.6 فیصد اضافہ ہوا۔ایف اے او کا فوڈ انڈیکس اور ہندوستان کا ہول سیل پرائس فوڈ انڈیکس کا براہ راست موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن وہ خوراک کی قیمتوں کے وسیع رجحانات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو تھوک قیمتوں کے بجائے صارفین کی اشیائے خوردونوش کی افراط زر کا تجزیہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ دیکھیں گے کہ عالمی اوسط شرح 8.51 فیصد ہے، جو ہندوستان کی 9.94 فیصد سے کافی نیچے ہے۔
ایندھن کی اونچی قیمتوں سے ہندوستانی صارفین کافی عرصے سےپریشان ہیں۔ مارچ 2022 میں ہندوستان میں قوت خریدکی بنیاد پر ایل پی جی کی قیمتیں دنیا میں سب سے زیادہ تھیں، پٹرول کی قیمتیں تیسرے نمبر پر تھیں اور ڈیزل کی قیمتیں آٹھویں پر۔ عوام ان اونچی قیمتوں سے اس وقت پریشان تھے جب عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں گر چکی تھیں۔
سال 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بی جے پی حکومت نے وقتاً فوقتاً پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرحوں میں اضافہ کیا ہے اور ایل پی جی سبسڈی کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا ہے۔ ایک وقت میں پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرحوں میں بالترتیب 250 اور 800 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ سیاسی اپوزیشن نے حکومت کو ان شرحوں کو کم کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔
مرکزی خزانے میں ایکسائز ڈیوٹی کا بڑا حصہ ہے۔ 2014 کے بعد سے حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی سے تقریباً 22.6 لاکھ کروڑ روپے جمع کیے ہیں۔ مجموعی طور پر اس دوران پٹرولیم سیکٹر کی شراکت 32.3 لاکھ کروڑ روپے رہی ہے۔
ستمبر2019 میں حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں کٹوتی کی اور 1.45 لاکھ کروڑ روپے کے ریونیو نقصان کا تخمینہ لگایا۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں تیزی سے اضافہ کرکے حکومت نےمحصولات کے نقصان کی تلافی کی۔ ایکسائز کلیکشن 2019-20 میں 2.23 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر 2021-22 میں 3.72 لاکھ کروڑ روپے ہو گیا۔ یہ 1.49 لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ ہے، جو کارپوریٹ ٹیکس میں چھوٹ کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے کافی ہے۔
ایک صدی قبل عظیم ماہر معاشیات کینز نے لکھا تھا کہ ‘مہنگائی کے ایک مسلسل عمل سے حکومتیں اپنے شہریوں کی دولت کے ایک اہم حصے کو خفیہ اورلامحدود طور پرضبط کر سکتی ہیں۔ اس عمل سے وہ نہ صرف ضبط کرتے ہیں بلکہ وہ من مانے طور پر ضبط کرتے ہیں۔ اور، جبکہ یہ عمل بہت سے لوگوں کو غریب بناتا ہے، یہ حقیقت میں کچھ کو مالا مال کرتا ہے۔
سال 2023 میں، ہندوستانی معیشت نے اپنی بلند افراط زر اور آمدنی میں عدم مساوات کے ساتھ کینز کی باتوں کو درست ثابت کر دیا ہے۔ موجودہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ سرکاری مداخلت ہے جو ایک طبقے کو دوسرے پر ترجیح دیتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس لگا کر مہنگائی کے عمل کو فروغ دیا گیا ہے۔ حکومت کی توجہ فلاحی پالیسیوں میں عوام سے اکٹھی کی گئی رقم کو لگانے کے بجائے چند منتخب افراد کو انتہائی امیر بنانے پر مرکوز ہے۔ جہاں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ غذائیت سے بھرپور خوراک کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے ضروری اخراجات کم کرنے پر مجبور ہیں، وہیں سرمایہ دار طبقے کی آمدنی دن دوگنی اور رات چار گنی ہو گئی ہے۔ یہ مودی حکومت کا حقیقی وکاس کا ماڈل ہے۔
(آکاش ستیہ ولی عوامی پالیسی کے ماہر اور کانگریس کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے نیشنل کوآرڈینیٹر ہیں۔)
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر