ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ گیارہواں حصہ جٹ کے بارے میں ہے۔
پچھلی قسطوں میں آپ بہار کی ان ذاتوں کے بارے میں جان چکے ہیں، جو یا تو کاشتکار ہیں یا کاریگر۔ آج اس ذات کے بارے میں جانتے ہیں جو نہ تو کسان ہے اور نہ ہی کاریگر۔ یہ فنکاروں کی ذات ہے۔ ایک ایسی ذات جس کا سارا وجود ہی فن سے عبارت ہے۔ فن کا مطلب ہے رقص و سرود۔
اس ذات کا نام جٹ ہے۔ اس ذات کے بارے میں مزید جاننے سے پہلے ایک سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے کبھی ثقافت کو مجسم صورت میں دیکھا ہے؟ یہ ان مورتیوں کی بات نہیں ہے جو ہندو مذہب کے تہواروں کے موقع پر نصب کیے جاتے ہیں۔ بہار کے دیہاتوں میں اب بھی دیوی دیوتاؤں کا مطلب مورتی نہیں ہے۔ وہاں تو ہر دیوی دیوتا پنڈ اورچبوتروں میں رہتے ہیں۔ لیکن جٹ دیوی دیوتانہیں ہیں جو پنڈ اور چبوتروں میں رہیں۔ یہ زندہ لوگ ہیں، جو بذات خود ایک ثقافت ہیں۔ ایک ایسی ثقافت جس کی مٹھاس آج بھی بہار کو سب سے خاص بناتی ہے۔
انہیں پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کے جاٹوں سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ جاٹ تو کھیتی باڑی کرنے والی قوم ہے اور بہار کے جٹوں کا کام زرعی مزدور کے طور پر کام کرنا بھی رہا ہے، لیکن ان کا بنیادی کام کاشتکاری نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ناچتے اور گاتے ہیں۔ جب بھی تیج یا تہوار ہوتا ہے تو وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رقص کرتے ہیں۔
اس میں ان کے گھر کی خواتین ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ جس طرح وہ جٹ کہلاتے ہیں اسی طرح ان کی خاتون ساتھی جٹن کہلاتی ہیں۔ ان دونوں کو ایک ساتھ جٹ-جٹن کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔
ان کے آباؤ اجداد نے یہ کام کب اور کیوں شروع کیا اس کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ جنگلوں میں رہتے ہوں اور قبائلی ثقافت کو جنگلوں سے میدانی علاقوں میں لے کرآئے ہوں۔ یہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے رقص کا انداز صرف قبائلی معاشرے میں ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں بھی لوگ شام یا کسی تہوار پر ناچتے، گاتے اور ڈھول بجاتے ہیں۔
یہ ایک غور طلب سوال ہے کہ آخر ثقافت کو تاریخ کا معیار کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم تاریخ میں اس بات کا تذکرہ ضرور ہوتا کہ جب ان کے آباؤ اجداد جنگلوں سے میدانی علاقوں میں آئے تو ان کے گانوں اور رقص کے انداز کیسے بدلے۔
آج جٹ ذات کے لوگ بہار کے صرف چند اضلاع تک محدود ہیں۔ ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ-2022 میں بہار حکومت نے بتایا ہے کہ یہ لوگ سہرسہ، سپول، مدھے پورہ، ارریہ، دربھنگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی اور کھگڑیا اضلاع میں رہتے ہیں۔
ان کے بارے میں ایک دلچسپ معلومات یہ ہے کہ یہ لوگ ہندو اور مسلمان دونوں ہوتے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے اس ریاست میں نٹ ذات کے لوگ ہیں۔ وہ بھی ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔ نٹ اور جٹ ذات کے لوگوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ ایک بڑی مماثلت یہ ہے کہ وہ بھی ناچتے اور گاتے ہیں۔ لیکن وہ بنیادی طور پر گنگا کے اس پار رہتے ہیں۔
ممکن ہے کہ مگدھ، بھوجپور وغیرہ کے علاقوں کے نٹ ان کے ہی لوگ ہوں۔ لیکن اس بات کو ثابت کون کرے؟
ایک اور مماثلت یہ ہے کہ نٹ ذات کے لوگوں کی طرح اس ذات کے اکثر لوگ یا تو بے زمین ہیں یا پھر ان کے پاس زمین ہے بھی تو برائے نام۔
خیر، ہندوؤں کے طور پر جٹ ذات کے لوگوں کی کل آبادی 7781 ہے اور وہ صرف سہرسہ، سپول، مدھے پورہ اور ارریہ اضلاع میں رہتے ہیں۔ جبکہ مسلمان ہونے کے طور پر یہ لوگ مدھوبنی، سیتامڑھی، دربھنگہ، کھگڑیا میں رہتے ہیں اور کچھ لوگ ارریہ میں بھی رہتے ہیں جن کی آبادی 44 ہزار 949 ہے۔
تاہم ناچ، گانے اورموسیقی ان لوگوں کی زندگی کا لازمی حصہ رہا ہے۔ چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، وہ اپنے گانوں میں نہ تو کسی ہندو دیوتا کی تصویر اتارتے ہیں اور نہ ہی صوفیوں جیسے کسی غیر مرئی چیز کی شان میں کلمہ پڑھتے ہیں۔ یہ دنیا دار لوگ ہیں اور اسی دھرتی کے باسیوں کے لیے ناچتے اور گاتے ہیں۔
جہاں تک سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعلق ہے تو ان لوگوں کو محض جٹ-جٹن ہی کہاجاتا ہے۔ ہندو اور مسلمان کے طور پر ان لوگوں کی آبادی کو جوڑ دیا جائے تو کل آبادی 52 ہزار 730 بنتی ہے۔ ہاں اگر اس آبادی میں نٹ ذات کے لوگوں کو شامل کیا جائے تو- ہندو نٹ 1 لاکھ 5 ہزار 358 اور مسلم نٹ 61 ہزار 629 ہیں جو کہ 2 لاکھ 19 ہزار 717 بنتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد اتنی نہیں کہ سیاسی محاذ پر کوئی آواز اٹھے۔
ویسے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ بہار میں ان کے فن کو کچھ اور لوگوں نے بھی اپنایا ہے۔ وہ اسٹیج پر جٹ-جٹن کا رقص پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ جٹ ذات کے لوگ نہیں ہوتے۔ جٹ لوگ اب روزی روٹی کی تلاش میں نہ صرف اپنے اصل مسکن بلکہ اپنی ثقافت سےبھی دور ہو رہے ہیں۔
اگر میں ان کی کہانی ان کےہی گانے کے ذریعے بیان کروں تو—
‘جائے دیہی ہے جٹن دیش رے بدیش
تور لاگی لیبےجٹن سکری سنیس..’
اور جواب میں ان کی ساتھی کا دکھ بھی سنیے-
‘سکری تنرے جٹا تربوک دھور
ٹھاڑی رہی رے، کلبورنا نائک حضور..’
ہجرت کا درد اس گیت میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ پہلے بند میں جٹ اپنی جٹن سے کہتا ہے کہ وہ اسے دیش بدیش جانے دے تاکہ وہ پیسہ کما سکے۔ وہ اسے یہ بھی لالچ دیتا ہے کہ جب وہ واپس آئے گا تو اسے سونے کی چین (سیکری) اور مٹھائیاں (سنیس) لا کر دے گا۔
لیکن جواب میں اس کی جٹن کہتی ہے کہ سونے کی چین اس کے پاؤں کی دھول کی طرح ہے اور وہ اسے اپنی ثقافت سے دور جانے کی بات سن کر کلبورنا یعنی کل ناشک (خاندان کو تباہ کرنے والا) کہتی ہےاور اسےاپنی آنکھوں کے سامنے رہنے کو کہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جٹ لوگوں کی نقل مکانی کےاس درد کو کون سمجھے گا؟
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر