بی جے پی کی جیت: جیت کا بگل بجانے والی بی جے پی کو کل ووٹ ملے ہیں 48133463 جبکہ انتخابات میں ‘شکست’ کا سامنا کرنے والی کانگریس کو ملے ہیں 49077907 ووٹ۔ اس کا مطلب ہے کہ مجموعی طور پر کانگریس کو بی جے پی سے تقریباً ساڑھے نو لاکھ ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ پھر بھی چاروں طرف ہنگامہ ایسے ہےگویا بی جے پی نے کانگریس کو نیست و نابودکر دیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا ‘ہیٹ ٹرک’۔ باقی سب نے بھی کہا ‘ہیٹ ٹرک’۔ صبح ہوتے ہوتے یہ پیغام پورے ملک میں پھیل گیا کہ تین ریاستوں میں جیت کے بعد اب بی جے پی کو تیسری بار لوک سبھا الیکشن جیتنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ بی جے پی کے حامی ابھی سے جیت کے جوش میں ہیں، اور مخالفین مایوس ہیں۔ کسی کے پاس یہ پوچھنے کی فرصت نہیں ہےکہ ؛ کیا یہ نتیجے اخذ کرنا درست ہے؟
نفسیاتی کھیل ایسے ہی کھیلے جاتے ہیں اور جیت حاصل کی جاتی ہے۔ ایک چھوٹےسے سچ کا اتنا بڑا غبارہ پھُلا دو کہ اس میں ہر متضاد سچ چھپ جائے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی حریف کے حوصلے پست ہو جائیں، میچ میں واک اوور مل ہی جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ٹھنڈے دماغ سے اس دعوے کی جانچ کریں ۔
پہلا قدم: شروعات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سےکیجیے۔ چار ریاستوں میں تمام پارٹیوں کو ملنے والے کل ووٹوں کو جوڑ دیجیے۔ جیت کا بگل بجانے والی بی جے پی کو کل ووٹ ملے ہیں 48133463جبکہ انتخابات میں ‘شکست’ کا سامنا کرنے والی کانگریس کو ملے ہیں49077907 ووٹ۔ اس کا مطلب ہے کہ مجموعی طور پر کانگریس کو بی جے پی سے تقریباً ساڑھے نو لاکھ ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ پھر بھی چاروں طرف ہنگامہ ایسے ہےگویا بی جے پی نے کانگریس کو نیست و نابودکر دیا ہے۔
اگر ہم تین ہندی ریاستوں میں سیٹوں کی تعداد دیکھیں تو بی جے پی ہی بی جے پی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں ووٹوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ راجستھان میں بی جے پی کو 41.7فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ کانگریس کو 39.6فیصد ووٹ ملے ہیں، یعنی فرق صرف دو فیصد کا ہے۔ دوسری طرف، چھتیس گڑھ میں فاصلہ 4 فیصد کاہے؛ بی جے پی کے پاس 46.3 فیصد ووٹ ہیں تو کانگریس کے پاس 42.2 فیصد ووٹ۔ صرف مدھیہ پردیش میں فاصلہ 8 فیصد سے زیادہ ہے: بی جے پی کو 48.6 فیصد تو کانگریس کو 40فیصد ووٹ۔ تینوں ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنے کے باوجود کانگریس کے پاس 40 فیصد یا اس سے زیادہ ووٹ ہیں، جہاں سے واپسی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ہندی بولنے والی تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جو مجموعی طور پر برتری حاصل ہوئی ہے اس کی تلافی صرف ایک تلنگانہ سے ہو جاتی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کو 39.4 فیصد (92 لاکھ سے زیادہ) ووٹ ملے، جبکہ بی جے پی کو 13.9 فیصد (32 لاکھ سےبھی کم) ووٹ ملے۔ جس ریاست میں 2018 کے بعد کانگریس انتخابی دوڑ سے باہر ہونے کے دہانے پر تھی، وہاں اس کا چوٹی پر پہنچنا سیاسی عروج اور اس کے زندہ رہنے کی خواہش کی علامت ہے۔
دوسرا قدم: ہیٹ ٹرک والے متھ کی جانچ کرنے کے لیے تاریخ کا جائزہ لیجیے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے انتخابات کے کچھ ہی مہینوں میں لوک سبھا کے انتخابات گزشتہ دو دہائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ پچھلی بار 2018 میں بی جے پی ان تینوں ریاستوں میں ہار گئی تھی۔ لیکن تب وزیر اعظم یا میڈیا نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے یقینی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
جب پارلیامانی انتخابات ہوئے تو بی جے پی نے ان تینوں ریاستوں اور باقی ہندی بیلٹ میں زبردست جیت حاصل کی۔ دوسری طرف 2003 میں جب کانگریس ان تین ریاستوں میں ہار گئی تھی، اس کے چند ماہ بعد ہی کانگریس نے 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں غیر متوقع کامیابی حاصل کی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور لوک سبھا کے بارے میں براہ راست اسمبلی سے نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا۔ اگر بی جے پی اسے پلٹ سکتی ہے تو کانگریس کیوں نہیں؟
ویڈیو:ہیٹ ٹرک کا متھ اور اعدادوشمار کی سچائی
تیسرا قدم: 2024 میں اقتدار کی تبدیلی کے ایکویشن کو دیکھیے۔ بی جے پی کا انحصار ہندی پٹی کی ان تین ریاستوں پر ہے، لیکن اپوزیشن کی امیدیں ان کے سہارے قائم نہیں ہیں۔ انڈیا الائنس کی انتخابی قواعد کرناٹک، مہاراشٹر، بہار اور بنگال میں بی جے پی کی سیٹ کم کرنے پر ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کی 65 سیٹوں میں بی جے پی کے کھاتے میں 61 سیٹ پہلے سے ہی ہے اور کانگریس کے پاس صرف 3 ہیں۔ یعنی بی جے پی کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ ان تمام سیٹوں کو برقرار رکھے اور اگر ممکن ہو تو تلنگانہ میں جو چار سیٹیں جیتی تھی اس میں اضافہ کریں۔ دوسری طرف کانگریس کے پاس ان ریاستوں میں کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ان اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے کچھ بھی نیا حاصل نہیں کیا ہے۔
چوتھا قدم: اسمبلی انتخابات کے اس نتیجہ کو لوک سبھا کے حساب سے شمار کر لیجیے۔ دراصل کانگریس کو لوک سبھا انتخابات میں اسمبلی کے ان نتائج کو الٹنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم میں مجموعی طور پر لوک سبھا کی 83 سیٹیں ہیں۔ سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو یہاں 65 سیٹیں ملی تھیں،کانگریس کے حصے میں آئیں صرف 6، باقی بی آر ایس ، ایم این ایف اور ایم آئی ایم کے حصے میں تھیں۔
اگر 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ہر اسمبلی حلقے میں بی جے پی اور کانگریس کو ٹھیک وہی ووٹ ملے جو کہ انہیں 2023 کے اسمبلی انتخابات میں ملے ہیں، تو اعداد و شمار اس طرح ہوں گے—راجستھان؛ بی جے پی 14، کانگریس 11، چھتیس گڑھ: بی جے پی 8، کانگریس 3، مدھیہ پردیش: بی جے پی 25، تو کانگریس 4 اور تلنگانہ: کانگریس 9، بی جے پی 0 (بی آر ایس کو 7 اور ایم آئی ایم کو 1)، میزورم: جے ایم پی کو 1 سیٹ۔ مجموعی طور پر ان اسمبلی انتخابات کے مطابق لوک سبھا کی 83 سیٹوں میں بی جے پی کو 46 اور کانگریس کو 28 سیٹیں بنتی ہیں۔ یعنی فائدہ کے بجائے ان اسمبلی نتائج کے لحاظ سے بی جے پی کو 19 سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے جبکہ کانگریس کو 22 سیٹوں کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ بس کانگریس کو یہ یقینی بنانا ہے کہ اسے اسمبلی میں جو ووٹ ملے وہ لوک سبھا میں بھی مل جائے۔
اب کوئی کہے گا کہ یہ تو سادہ سا حساب ہے۔ آپ نے ‘مودی میجک’ کا حساب تو کیا ہی نہیں۔ مودی کا جادو چلے گا تو ان تمام ریاستوں میں بھگوا لہرائے گا اور کانگریس کا صفایا ہو جائے گا۔ لیکن اگر ‘مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے’ تو اس کے لیے اسمبلی انتخابات میں ہیٹ ٹرک کی دلیل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ جادو پر یقین ہے تو اسے عقیدہ کہیے ،اسمبلی انتخابات کے نتائج کی آڑ لینے کی کیا ضرورت ہے؟
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر, ویڈیو