ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ حصہ سیندوریا بنیا کمیونٹی کے بارے میں ہے۔
سیندوریا بنیا- ان کا نام ہی ان کی پہچان ہے اور ان کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ وہ ہیں جو خوشیاں بانٹتےہیں۔ ان تمام ہندوعورتوں کو، جو سہاگن ہوتی ہیں۔ اس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ سیندور لگانا پدرشاہی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ اس زمین پر مردوں کو جتنے حقوق حاصل ہیں، اتنے ہی عورتوں کو بھی۔ وہ بن سنور سکتی ہیں، اورجیسے چاہیں زندگی گزار سکتی ہیں۔ ان کا کام تو اس میں صرف ان کی مدد کرنا ہے۔
یہ کہیں نہیں درج نہیں ہے کہ اس ملک میں پہلی بار سیندور لگانے کا رواج کب شروع ہوا۔ تاہم، وادی سندھ کی تہذیب میں نیل کی موجودگی کے ثبوت ضرور ملتے ہیں، جن کا استعمال رنگ کے لیے کیا جاتا ہوگا۔ یہاں سے اس کمیونٹی کا آغاز تصور کیا جا سکتا ہے، لیکن اس پر اصرار نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے کہ جیسے سیندور اس کمیونٹی کے لوگ کمیلا نامی ایک پودے کے بیج سے تیار کرتے ہیں، ویسے ہی نیل کے پودے سے حاصل ہونے والے بیجوں سے نیل حاصل کرتے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ اس زمانے میں خواتین میں سیندور لگانے کا رواج نہ رہا ہو۔
ہاں، اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ وادی سندھ کی تہذیب کے باقیات میں تانبے سے بنے رقاصہ کے مجسمے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کے بدن پر آج جیسے کپڑے نہیں ہیں۔ اس کا اپنا لباس ہے اور اس نے اپنے ہاتھوں میں کنگن پہن رکھے ہیں، جو یقیناً تانبے کے ہوں گے یا سیپ کے۔ سیپ سے بنے کنگن تو آج بھی شمالی ہندوستان میں، خاص طور پر بہار، مغربی بنگال اور اڑیسہ جیسی ریاستوں میں خواتین پہنتی ہیں۔
چونکہ تاریخ میں ان کے بارے میں کوئی خاص معلومات درج نہیں ہیں اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس سے ان کے روایتی پیشے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عین ممکن ہے کہ جب آریہ اس ملک میں آئے ہوں گے تو انہوں نے مقامی عورتوں کو بھی اپنا غلام بنایا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ آریوں نے ان سے اپنی غلامی کی شناخت کے لیے سیندور لگانے کو کہا ہو۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ آریہ خود جینؤ پہنتے ہیں یا شکھا رکھتے ہیں، جس سے ان کی شناخت ہو جاتی ہے۔
خیر، سیندوریا بنیا کمیونٹی اور خواتین کی بحثوں میں نہیں الجھتے۔ وہ کمیلا کے پودے اگاتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے پھلوں کو خشک کرکے سیندور تیار کرتے ہیں۔ سکھانے کے بعد گھر کی خواتین بھی اسے باریک پیسنے میں برابر کی مدد کرتی ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ سیندور کا کاروبار کرتے ہیں۔
ان کی تیار کردہ اس پراڈکٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی ان کی مصنوعات کو ادھار میں نہیں خریدتا۔ ’اُدھار کا سیندور‘ ایک الگ ہی معنی رکھتا ہے۔
یہ دوسرے بنیوں کی طرح نہیں ہیں، جو خود پیداوار نہیں کرتے ہیں۔یہ جوگی اور چوڑی ہاروں کی طرح بھی نہیں ہیں۔ ہاں، ان سب کا تعلق یقیناً ایک ہی کمیونٹی سے ہے جو اس ملک کی خواتین کو کاسمیٹکس مہیا کراتی ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر سہاگ کی چوڑیاں اور سہاگ کی علامت سیندورلازمی طور پر شامل ہیں۔
لیکن سیندوریا بنیا ایک لحاظ سے دوسرے بنیوں سے مختلف اس لیے ہیں کہ انہوں نے ذات پات کی تفریق کو کبھی نہیں مانا، تمام ذاتوں کی خواتین کو سرمہ فراہم کرایا اور خواہش کی کہ ان کا سہاگ سلامت رہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کام نیکی کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس ملک میں اگرچہ بہت سی چیزیں مہنگی ہو جائیں، لیکن سیندور کبھی مہنگا نہیں ہوا۔ یہ لوگ کبھی بلیک مارکیٹنگ یا ذخیرہ اندوزی میں ملوث نہیں رہے۔ اسی لیے انہیں ہندوستانی معاشرے میں کتھ بنیا کہا گیا۔ آپ کتھ بنیا کو اس تناظر میں سمجھیں کہ- ‘کہا گیا بنیا’ مطلب صرف نام کے لیے بنیا۔ بہار میں انہیں کیتھل ویشیہ بھی کہا گیا۔ جبکہ اڑیسہ اور مغربی بنگال میں یہ لوگ سیندوریا بنیا کہلاتے ہیں۔
بہار کی بات کریں تو آج بھی پورے بہار میں ان لوگوں کی آبادی 176310 ہے۔ تاہم، اس ڈیٹا کے ساتھ دو طرح کے مسائل ہیں۔ اول تو یہ لوگ اب سیندوریا بنیا کہے جانےسے بچنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس شناخت کی وجہ سے ان کے بچوں کی شادی امیر بنیا گھرانوں میں نہیں ہو پاتی۔ وہاں تو ان لوگوں کے لیے سیندوریا ہونا ایک لعنت بن جاتا ہے۔
وہیں دوسری طرف 5 اپریل 2013 کے بعد ایک نئی بات سامنے آئی، دراصل ہوا یہ کہ اس دن بہار حکومت نے ان لوگوں کو خوشحال او بی سی ذاتوں کی فہرست (شیڈول-2) سے نکال کر انتہائی پسماندہ ذات کی فہرست (شیڈول-1) میں شامل کیا۔ تب سے، بنیا برادری کی دوسری ذاتوں کے لوگوں نے بھی اپنی شناخت سیندوریا بنیا کے طور پر کرتے ہوئے کاسٹ سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں۔
خیر، اصل بات یہ ہے کہ آج ان کے روایتی پیشے کو ایک سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ بڑی کمپنیاں اب سیندور بنانے میں لگی ہیں۔ وہ اسے کاروبار سمجھتی ہیں۔ وہ قدرتی سیندور میں کیمیکل استعمال کرتی ہیں۔ اس سے ان کے منافع میں اضافہ ضرور ہوتا ہے لیکن خواتین کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن ان سیندوریا بنیوں کے لیے یہ صرف ایک کاروبار نہیں ہے، وہ اسے سہاگن عورتوں کے چہروں پر سہاگ کی علامت کو برقرار رکھنا اپنا فرض تصور کرتے ہیں۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر