آج ایودھیا کے ‘بڑےبڑے’ مسائل نے کئی ‘چھوٹے’ مسائل کو اتنا چھوٹا بنا دیا ہے کہ وہ نہ صحافی کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی سرکاری عملے کو۔ ایسے میں ایودھیا کے ان عام باشندوں کے مسائل بے توجہی کا شکار ہیں جو ‘اونچی اڑانوں’ پر نہیں جانا چاہتے یا جن کو ان اڑانوں کے منتظمین اپنے ہمراہ نہیں لے جانا چاہتے۔
ایودھیا میں 6 دسمبر کو اب ویسا کچھ نہیں ہوتا، جیسا 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے فیصلے یا 5 اگست 2020 کو وزیر اعظم نریندر مودی کے رام مندر کے بھومی پوجن سے پہلے ہوا کرتا تھا۔
ہو بھی کیسے سکتا ہے، جب اس سے وابستہ ‘شوریہ دوس’ اور ‘یوم غم’ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، یکطرفہ طور پر انہدام ایک مسلسل عمل بن گیا ہے اور ایودھیا بابری کے انہدام کے دور سے نکل کر گھروں ، دکانوں اور اداروں کی مسماری کے دور میں داخل ہو چکی ہے، جس کی بنیاد پر اس کی سڑکیں چوڑی، دوسرے لفظوں میں کہیں تو ‘ٹورسٹ فرینڈلی’ بنائی جا رہی ہیں۔ سب کچھ اتنا یکطرفہ ہو گیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتا ہے کہ ‘بابری مسجد کا تو اب نام بھی نہ لو’۔
دریں اثنا، ایودھیا کو عقیدت مندوں، تیرتھ یاتریوں، زائرین اور سیاحوں وغیرہ کی راحت اور سہولت کے لیے چمکاکر، نہیں نہیں، ‘عظیم الشان’ اور ‘روحانی’ بنا کر ‘تریتا کی واپسی‘ کرانے میں مبتلا جماعتوں کے لیے چھپانا مشکل ہو رہا ہے کہ انہوں نے اس واپسی کے تکیے پر کتنی اونچی پرواز کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
ان کا یہ منصوبہ 22 جنوری کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے ‘رام للا’ کی پران پرتشٹھا کی تقریب تک کیسے اور کس حد تک اچھلے گا، اس کی ٹوہ لینےکے لیے صحافی ایودھیا پہنچنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ ابھی تک اس بیماری سے نجات نہیں پاسکے ہیں، جس کے تحت اپنی نیک نیتی یا بد نیتی کے پیش نظر وہ میڈیا کے ذریعے مشتہر ایودھیا کا کو ئی ایسا تصور،جس کا زمینی حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اپنے دل و دماغ میں لے کر آتے ہیں،اور پہنچتے ہی اس کی تلاش شروع کردیتے ہیں اور جب کہیں نہیں پاتے تو مایوس اور افسردہ ہونے لگتے ہیں ۔
فی الحال انہیں ایودھیا میں کچھ بھی عظیم الشان اور روحانی نظر نہیں آ رہا، حیرت کی بات بھی نہیں۔ لیکن اونچی اڑان کے خواہشمند انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ یہ جلد ہی نظر آنے لگے گا – اتنا عظیم الشان کہ اس کے بوتے وہ 2024 کا ’قلعہ ‘ فتح کر لیں گے۔ ویسے بھی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان کے منصوبوں کو اتنا مستحکم تو کر ہی دیا ہے کہ وہ ان کے منفی نتائج کے اندیشوں کے دنوں کی اپنی یہ منطق بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ان کا 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے امکانات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تب وہ کہتے تھے کہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے معاملات مختلف ہوتے ہیں اور رائے دہندگان ان کی بنیاد پر دونوں میں الگ الگ پیٹرن پر ووٹ دینا سیکھ چکے ہیں، لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان نتیجوں سے 2024 میں ان کی جیت کی ہیٹ ٹرک یقینی ہو گئی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ اس کے برعکس ایودھیا کے زمینی حالات اس کے اپنے وقت کے مقبول شاعر چندرمانی ترپاٹھی ‘سہن شیل’ کی کی غزل کا یہ شعر پیش کر رہا ہے:
بستی کے سبھی لوگ ہیں اونچی اڑان پہ
کس کی نگاہ جائے گی جلتے مکان پہ
لیکن گنیز بک میں درج 22.23 لاکھ دیوں والی حالیہ سرکاری دیپ اتسو کی جگمگ کی اترنے کو نہیں آ رہی خماری کے درمیان اس بات کو اس کے ماحول میں پھیلا دی گئی ‘بڑی بڑی ‘ باتوں کے بجائے کچھ ‘چھوٹی’ باتوں کی مدد سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
‘بڑی’ باتوں میں تو ان محروم لوگوں کی حالت زار تک نظر نہیں آتی جو غربت اور انحطاط کے اس قدر ‘شکار’ ہیں کہ دیوالی کے دیوں میں بھرے تیل کو للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں اور ان کے بجھتے نہ بجھتے اپنے ڈبے اور بوتلوں میں ان کا بچا ہوا تیل بھرنےدوڑ پڑتے ہیں۔ یہ روایت پہلے دیپ اتسو سے ہی شروع ہو گئی تھی اور اس بار تو کہتے ہیں کہ اس کے باوجود یہ روایت نہیں ٹوٹی کہ اس کے لیے سخت چوکسی برتی گئی اور جلائے گئے دیوں کےکچھ دیر جل جانے کے بعد ہی تیل کی ‘لوٹ مار’ شروع ہو گئی۔
لیکن کیا کیجیے گا، ‘بڑی بڑی ‘ باتوں نے کئی ‘چھوٹی’ باتوں کو اتنی چھوٹی کر دیا ہے کہ وہ نہ صحافی کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی سرکاری عملے کو۔ وجہ یہ ہے کہ صحافی اونچی اڑانوں کے کرتب دیکھتے رہ جاتے ہیں اور سرکاری عملہ ان کرتب دکھانے والوں کی بڑی بڑی باتوں کا بھاری بوجھ ڈھونے میں ہلکان ہوا رہتا ہے۔ اسے وزیر اعلیٰ، وزراء، اعلیٰ افسران اور سرکاری پارٹی اور رام مندر ٹرسٹ کے لیڈروں اور عہدیداروں کے کسی نہ کسی بہانے روز روز ہونے والے دورے نمٹانے اور ان سے جڑے ان کے کئی ناز اٹھانے پڑتے ہیں۔
ایسے میں حیرت کی بات کیا کہ ایودھیا کے ان باشندوں کے مسائل بے توجہی کا شکار ہیں ہے جو ‘اونچی اڑانوں ‘ پر نہیں جانا چاہتے یا جنہیں ان اڑانوں کے منتظمین اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے۔ان کا درد اس لحاظ سے دوہرا ہے کہ ایک طرف جہاں انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف وہ ایودھیا میں سورگ (جنت) اتار دیے جانے کے سرکاری پروپیگنڈے سے متاثر دور دراز کے ان حاسدوں کے حسد کا بھی شکار ہیں، جو سوچتے ہیں ایودھیا میں ہوتے تو وہ بھی اس جنت کی سیر کرتے!
یہ حاسد ایودھیا میں پڑھے جانے والے اخبارات کے پچھلے اتوار کے شمارے ہی پڑھ لیتے تو ان کی غلط فہمی دور ہو جاتی۔ اس دن یہ اخبار جہاں یہ بڑی خبر لے کر آئے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنیچر کو ایودھیا میں مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر جیوتی رادتیہ مادھوراؤ سندھیا کے ساتھ مریادا پرشوتم شری رام انٹرنیشنل ہوائی اڈے کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اس کے ٹرمینل کا ڈیزائن رام مندر جیسا ہی ہے اور رام للا کے 22 جنوری کے پران پرتشٹھا تقریب سے قبل وہاں سے پروازیں شروع ہو جائیں گی، یہ ‘چھوٹی’ خبر بھی لے آئے کہ ضلع کی بیکاپور تحصیل میں عوام کے مسائل سننے کے لیے سرکاری طور پر منعقد ٹوٹل سولیوشن ڈے میں افسروں کی بے رخی کے باعث بزرگ سوریہ منی ورما نے اپنے جسم پر پٹرول چھڑک کر خودکشی کرنے کی کوشش کر ڈالی۔
جو افسران پہلے ان کی کچھ سننے کو تیار نہیں تھے، ان کی اس کوشش کے بعد فوراً حرکت میں آگئے اور افراتفری کے درمیان انہیں پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ ان بزرگ کا کہنا تھا کہ ان کے تھانے کی پولیس کے تحفظ میں کچھ لوگ ایس ڈی ایم کورٹ کےاسٹے آرڈر کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور ان کی زمین پر قبضہ کرکے اس پر مکان بنا لے رہے ہیں اورکوئی ان کے خلاف ان کی فریاد نہیں سن رہا۔
اخبارات کے مطابق، ایک ٹرینی ایس ڈی ایم نے ان کی اس بات کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ 16 اگست کو ان کے حق میں اسٹے آرڈر جاری کیا گیا تھا اور پولیس کو اس کی تعمیل کرنے کو کہا گیا تھا، لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا۔ اب اس معاملے کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے پانچ رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ لیکن کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ اس کمیٹی کا ان بزرگ کے لیے کیا حاصل ہے؟
دوسری طرف بھیلسر میں منعقدہ سمادھن دوس میں ضلع مجسٹریٹ اور دیگر کئی افسران نے شرکت ہی نہیں کی، جس کی وجہ سے 151 فریادیوں میں سے صرف 13 کے مسائل ہی حل ہو سکے۔ مایوس فریادیوں میں یہ بات چل رہی تھی کہ بھلا ضلع مجسٹریٹ کیسے آسکتے ہیں، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا اور ریاستی وزیر جنرل وی کے سنگھ ایودھیا آئے ہوئے تھے۔ انہیں مریادا پرشوتم شری رام ہوائی اڈے اور رام مندر کی تعمیر کی پیش رفت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی تھی اور معائنہ وغیرہ کے علاوہ ہنومان گڑھی اور رام للا کے دربار میں درشن اور پوجا کرنا تھی اور 42ویں رامائن میلے کا پوسٹر جاری کرنا تھا۔
اس طرح کے وی وی آئی پی دوروں سے جڑی ایک اور ‘چھوٹی’ بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی وی وی آئی پی آتا ہے، ہنومان گڑھی کے آس پاس کی سڑکیں عام عقیدت مندوں، یاتریوں اور سیاحوں وغیرہ کے لیے بند کر دی جاتی ہیں، جس سے ان کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
مقامی روزنامہ ‘جن مورچہ’ کے مطابق سنیچر کو یوگی، سندھیا اور وی کے سنگھ کے دورے کے دوران بھی ان کی آمد سے آدھا گھنٹہ قبل ہنومان گڑھی کے مرکزی دروازے پر بھاری پولیس فورس تعینات کر دی گئی تھی اور لوگوں کی نقل و حرکت روک دی گئی تھی۔ ایمرجنسی کے زیر اثر کچھ لوگوں نے پابندی کے باوجود وہاں سے جانے کی کوشش کی تو انہیں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونا پڑا۔
ٹھیلوں اور پٹری دکانداروں کا تو آج کل ایودھیا میں کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہ گیا ہے کہ انہیں کب وہاں سے دفع ہو جانے کا فرمان سنا دیا جائے اور گاڑیوں کو کب اچانک روٹ ڈائیورزن کاسامنا کرنا پڑجائے کہا نہیں جا سکتا۔ سڑکوں کو چوڑا کرنے اور سیور لائن بچھانے کے کام میں عجلت میں ننھے منوں کے اسکولوں کے آس پاس بھی گڑھے کھود کر چھوڑ دیے جا رہے ہیں اور پچھلے دنوں ایسے گڑھوں کی وجہ سے ان حادثات سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا، جن میں جانیں تک جا چکی ہیں۔
ایسے میں سوچیے ذرا؛ 22 جنوری کو رام للا کے پران پرتشٹھا کی تقریب سے پہلے اس میں اور اس کے بعد ایودھیا آنے والوں کے لیے سب کچھ چاق و چوبند یا عظیم الشان اور روحانی بنانے کی عجلت میں ایودھیا کے عام باشندوں کے مسائل اور تکلیفوں سے اس طرح منہ موڑ لینا چھوٹی بات ہے یا بڑی اور ہے تو کیوں ہے؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر