متاثرہ ایودھیا کے ایک ڈگری کالج میں بی اے تھرڈ ایئر کی طالبہ ہے اور رام مندر میں صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ متاثرہ نے جائے واردات کے طور پرجن علاقوں کا ذکر کیا ہے، وہ ہائی سیکورٹی والے علاقے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایودھیا کے آرمی بفر زون میں صنعتکار گوتم اڈانی، مذہبی گرو سری سری روی شنکر اور یوگا گرو رام دیو سے وابستہ لوگوں نے زمین خریدی ہے اور گورنر نے اس زمین کو ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سنجے سنگھ نے مودی حکومت پر ایودھیا میں فوج کی زمین پر قبضہ کرکے اسے اپنے ‘دوستوں’ کے سپرد کرنے کا الزام لگایا ہے۔
رام مندر کی تعمیر کے آغاز سے ہی زمین کے سودوں میں بدعنوانی کے باعث ایودھیا سرخیوں میں رہی ہے، حالانکہ اس شہر میں مذہب کے نام پر زمین کے سودوں میں بدعنوانی یا لوٹ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ‘ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے، وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی’، آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔
افتتاح کے صرف پانچ مہینے بعد پہلی ہی بارش میں رام مندرکی چھت سے پانی ٹپکنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ہیڈ پجاری آچاریہ ستیندر داس نے دعویٰ کیا ہے کہ چھت سے ٹپکنے والا بارش کا پانی مندر کے گربھ گرہ میں جمع ہو رہا ہے اور نکاسی آب کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے اتر پردیش میں دی گئی گہری چوٹ کو ٹھیک سے سہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ کار مدعی سست گواہ چست کی طرز پر اس چوٹ کو معمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں۔
چونکہ مودی نے یہ الیکشن صرف اپنے نام پر لڑا تھا، صرف اپنے لیے ووٹ مانگے تھے، بی جے پی کے منشور کا نام بھی ‘مودی کی گارنٹی’ تھا۔ یہ ہار بھی صرف مودی کی ہے۔ ان کے پاس اگلی حکومت کی سربراہی کا کوئی حق نہیں بچا ہے۔
فیض آباد لوک سبھا سیٹ کے رائے دہندگان نے واضح طور پر جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم کی پارٹی ایودھیا کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں ہے۔
بی جے پی لیڈر اننت کمار ہیگڑے اور جیوتی مردھا کے بعد اب فیض آباد سے بی جے پی کے موجودہ ایم پی للو سنگھ نے کہا ہے کہ پارٹی 2024 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ آئین میں ترمیم کرسکے۔
ایودھیا میں میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے ‘منفی’ خبروں سے انکار کرنے کا سلسلہ رام مندر کی پران —پرتشٹھاکی تقریب کے اگلے دن ہی شروع ہو گیا تھا۔ اسی وقت، جب رام للا کے درشن کے لیے جمع ہونے والے ہجوم کی دھکا مکی میں کچھ لوگ زخمی ہوگئے تھے اور ان میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی، تو میڈیا نے اسےنشر کرنے سے گریز کیا تھا۔
اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کی پران — پرتشٹھا کی تقریب کے آس پاس مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق کم از کم 10 فرقہ وارانہ واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات میں اشتعال انگیز پوسٹ اور قابل اعتراض نعرے بازی سے لے کر شوبھا یاترا کے دوران مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگانا یا ان کی بے حرمتی کرنا شامل ہیں۔
ویڈیو: ایودھیا میں رام مندر کی پران — پرتشٹھا کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کے حوالے سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
آگرہ ضلع میں دیوان جی کی بیگم شاہی مسجد کے متولی کا الزام ہے کہ 22 جنوری کو لاٹھیوں کے ساتھ 1000-1500 لوگ زبردستی مسجد میں داخل ہوگئے، وہاں بھگوا جھنڈے لگائے اور مذہبی نعرے بھی لگائے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں اب تک 11 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم، ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
ویڈیو: ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے سفر پر سینئر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
ویڈیو: ایودھیا میں رام مندر کی پران — پرتشٹھا کو پورے طور پر ‘سیاسی’ بنا دینے کے پیش نظر کیا ہندوؤں کو اپنے محاسبہ کی ضرورت ہے؟ اس بارے میں دی وائر کے مدیران — سدھارتھ وردراجن اور سیما چشتی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی۔
یہ المیہ ہی ہے کہ مریادا پرشوتم کہے جانے والے رام کے نام پرآئین کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اور ہندو اس میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور فخر بھی محسوس کر رہے ہیں۔
پران -پرتشٹھا کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد کی تیاریاں رام للا کے استقبال کی تیاریوں سے کسی لحاظ سے کمتر نہیں ہے۔ اسٹریٹ لائٹس پر مودی کے ساتھ بھگوان رام کے کٹ آؤٹ لگے ہوئے ہیں، جن کی اونچائی پی ایم کے کٹ آؤٹ سے بھی کم ہے۔ ایسے میں یہ گمان ہونا فطری ہے کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں بھگوان رام آئیں گے یا وزیر اعظم مودی کو آنا ہے؟
دیانند سرسوتی کہتے تھے کہ اول تو مورتی پوجا ناجائز ہے اور دوسرا یہ ملک کی ایکتا کے لیے خطرناک ہے۔
رام تو دل میں رہتے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کو دل سے نکال کر مندر میں بھیج کر ایک بار پھر بن باس پر بھیجا جا رہا ہے۔ رامائن کے مطابق تو وہ بارہ سال بعد ایودھیا واپس آگئے تھے، مگر اب دل میں کب واپس آئیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔
ہندو معاشرہ یا یوں کہیں کہ پورا ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سب کو اپنا جائزہ لینے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ اقتدارمیں بیٹھے لوگ اسے امرت کال کہیں، لیکن یہ سنکرمن کال یعنی متعدی مرض کا زمانہ ہے۔ حماقت اور نفرت کا متعدی مرض، جہاں قدرومنزلت اور وقار کے ہر پیمانے کو مجروح / پامال کیا جا رہا ہے۔
ایودھیا کو ہندوستان کی ، یا کہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی راجدھانی کے طور پر قائم کرنے کے لیے سرکار کی سرپرستی میں مہم چل رہی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو لوگوں کے ذہنوں میں 26 جنوری یا 15 اگست سے بھی بڑا اور اہم دن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
بار کاؤنسل آف انڈیا کے صدر منن کمار مشرا نے چیف جسٹس (سی جے آئی) ڈی وائی چندر چوڑ کو خط لکھ کر کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح 22 جنوری 2024 کو ہونا ہے۔ یہ تقریب ملک بھر کے لاکھوں لوگوں کے لیے انتہائی مذہبی، تاریخی اور ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ رام مندر کے حوالے سے 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مودی حکومت پورے چار سال تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیوں بیٹھی رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے صرف چند دن پہلے ہی رام للا کی پران-پرتشٹھا کے بہانے ہندوتوا کا ڈنکا بجا کر ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹنا آسان ہو جائے اس لیے۔
ایودھیا کی سبھا جھوٹ اور ادھرم کی بنیاد پر بنائی گئی ہے، کیونکہ جس کو اس کے درباری سچائی کی جیت کہتے ہیں، وہ دراصل فریب اور زبردستی کی پیداوارہے۔ عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ درباری بھول جاتے ہیں کہ اسی عدالت نے 6 دسمبر کے ایودھیا—کانڈ کو جرم قرار دیا تھا۔
چار شنکراچاریوں نے رام مندر کی تقریب میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے، یہ بی جے پی کی سیاسی تقریب ہے۔ پھر یہ سادہ سی بات کانگریس یا دیگر پارٹیاں کیوں نہیں کہہ سکتیں؟
ویڈیو: ‘ایودھیا: دی ڈارک نائٹ’ کے مصنف اورصحافی دھیریندر کے جھا اور ‘ایودھیا: سٹی آف فیتھ، سٹی آف ڈسکارڈ’ کے مصنف اورصحافی ولیہ سنگھ سے دی وائر کی مدیرہ سیما چشتی کی بات چیت۔
گزشتہ دنوں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سولہ کروڑ روپے کے اخراجات سےفیض آباد میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کےتاریخی محل ‘دلکشا’ کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا، تو لوگ حیران رہ گئے۔ تاہم اس کے بعد ’دلکشا‘ کو ’ساکیت سدن‘ کا نام دے کر اس کی شناخت کو مٹانے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔
کانگریس والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کے بغیر رام مندر نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہونی چاہیے۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1949 میں بابری مسجد میں سیندھ ماری یا کوئی نقب زنی نہیں ہوئی تھی، سیندھ ماری سیکولر ہندوستانی جمہوریہ میں ہوئی تھی۔
رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کی اپیل سن کر بے ساختہ ‘اگیہ’ یاد آ گئے، جن کا کہنا تھا کہ ‘جو نرماتا رہے/ اتہاس میں وہ / بندر کہلائیں گے’۔اگیہ کی اس شعری صداقت سےرام مندر کے لیے جدوجہد کرنے والے کار سیوکوں اور رام سیوکوں کو کیوں روبرو کرایا جا رہا ہے؟
آج ایودھیا کے ‘بڑےبڑے’ مسائل نے کئی ‘چھوٹے’ مسائل کو اتنا چھوٹا بنا دیا ہے کہ وہ نہ صحافی کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی سرکاری عملے کو۔ ایسے میں ایودھیا کے ان عام باشندوں کے مسائل بے توجہی کا شکار ہیں جو ‘اونچی اڑانوں’ پر نہیں جانا چاہتے یا جن کو ان اڑانوں کے منتظمین اپنے ہمراہ نہیں لے جانا چاہتے۔
اس بار دیوالی کے موقع پر جب اتر پردیش حکومت ایودھیا میں دیپ اتسو منا رہی تھی، شہر کے لوگوں میں ڈینگو کا خوف نظر آ رہا تھا۔ ضلع میں 2021 میں ڈینگو کے کل 571 اور 2022 میں مجموعی طور پر 668 مریض پائے گئے تھے، جبکہ رواں سال میں اب تک یہ تعداد آٹھ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔
تقریباً چالیس سال قبل ایودھیا میں رہنے والے ‘گمنامی بابا’ کو سبھاش چندر بوس بتائے جانے کی کہانی ایک مقامی اخبار کی سنسنی خیز سرخی کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد نیتا جی کےلیے جذبات کی رو نے لوگوں کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں دلیل اور منطق کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
زیر تعمیر رام مندر کمپلیکس کے قریب واقع ‘مسجد بدر’ کی اراضی کے مبینہ متولی کی جانب سے اسے 30 لاکھ روپے میں شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے کے ‘خفیہ’ معاہدے اور آدھی رقم پیشگی کے طور پرلینے پر مسلم نمائندوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سودا کرنے والے نہ ہی متولی ہیں، اور نہ ہی وقف بورڈ کی ملکیت ہونے کے باعث ان کے پاس اس کو فروخت کرنے کا اختیار ہے۔
ایودھیا کے گدڑی بازار میں واقع کھجور والی مسجد کا ایک مینار شہر میں زیر تعمیر ‘رام پتھ’ کی مجوزہ چوڑائی کے دائرے میں آ رہا ہے۔ محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے مسجد کمیٹی کو مینار ہٹانے کا نوٹس دیے جانے کے بعد معاملہ ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے۔
وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
جسٹس ایس اے نذیر کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولر ہیں۔ ان کے خیال میں جسٹس نذیرکے سیکولر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بابری مسجد کے تنازعہ میں فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انھوں نےمندر بنانے کے لیے مسجد کی زمین کو مسجد توڑنے والوں کے ہی سپرد کرنے کے فیصلے پر دستخط کیا۔
بک ریویو: تحریک کے ساتھ ہی تحریکوں کو دستاویزی پیرہن عطا کرنا ایک اہم اور ذمہ دارانہ کام ہے۔ صحافی مندیپ پنیا نے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے سفر کو تخلیقی انداز میں حقائق کے ساتھ پیش کرکے اس سمت میں کوشش کی ہے۔
ویڈیو: 400 سال پرانی بابری مسجد کا انہدام ملک کی سیاست کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس انہدام کے 30 سال مکمل ہونے پر اس بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
چھبیس جنوری 2021 کو نئی دہلی میں زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کے دوران احتجاج کررہے ایک شخص کی موت سے متعلق رپورٹ کے سلسلے میں دی وائر، اس کے مدیر سدھارتھ وردراجن اور رپورٹر عصمت آرا کے خلاف یوپی پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کو خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ خبرمیں کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں تھی۔
گزشتہ دنوں ‘ہندو یودھا سنگٹھن’ سے وابستہ کچھ لوگوں نے سور کے گوشت کے ٹکڑے، مذہبی صحیفہ کے پھٹے ہوئے صفحات اور مسلمانوں کے خلاف لکھے کچھ خطوط ایودھیا کی کچھ مسجدوں اور مزاروں کے قریب پھینک کر فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس معاملے میں کلیدی ملزم مہیش مشرا مسلم مخالف رہا ہے۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل کی ہے بلکہ ان کے اقتصادی بائیکاٹ کی بھی اپیل کر چکا ہے۔