ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ حصہ دبگر کمیونٹی کے بارے میں ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں پیشے کو ہی ذاتوں کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس سماج کے مقتدر طبقوں کو جس طرح کی خدمات کی ضرورت پیش آئی، انہوں نے اس لحاظ سے ذاتیں بنا دیں۔ اسے مرحلہ وار بنایا اور گھڑا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، ‘اچھوت’ ذاتیں، جنہیں آئین میں اس وقت درج فہرست ذات کا نام دیا گیا ہے، کو ایسی خدمات فراہم کرنی ہیں، جنہیں انتہائی مکروہ سمجھا گیا ہے۔
لیکن ان ذاتوں میں کچھ ذاتیں ایسی بھی ہیں، جو مبینہ طور پر انتہائی مکروہ اور ناگوارسمجھی جانے والی سرگرمیاں نہیں کرتیں، لیکن اس ذات پات پر مبنی سماج نے انہیں ‘اچھوت’ کے زمرے میں رکھا ہوا ہے۔ ایسی ہی ایک ذات ہے دبگر۔
بہار میں دبگروں کی آبادی بہت کم ہے۔ بہار حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ – 2022 کے مطابق، ان کی تعداد صرف 7756 ہے اور یہ بہار حکومت کی درج فہرست ذاتوں کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔
اس ذات کے بارے میں ایک بہت اہم انکشاف یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے 7 اکتوبر 2023 کو بہار اسمبلی میں ذات پات پر مبنی سروے کی سماجی و اقتصادی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق، درج فہرست ذاتوں میں شامل تمام 22 ذاتوں میں دبگر کمیونٹی کے لوگ سب سے زیادہ امیر ہیں۔
معلوم ہو کہ ریاستی حکومت کی رپورٹ میں ان خاندانوں کو غریب قرار دیا گیا ہے جن کی ماہانہ آمدنی 6 ہزار روپے یا اس سے کم ہے۔ یہ بہار حکومت کا اپنا پیمانہ ہے۔ اس پیمانے پر ریاستی حکومت نے یہ پایا کہ ریاست کی درج فہرست ذاتوں میں سب سے غریب مسہر ذات کے لوگ ہیں، جن کے 54.46فیصد خاندانوں کی ماہانہ آمدنی 6 ہزار روپے سے کم ہے۔
تاہم، دوسرے نمبر پر بھوئیاں ذات کے لوگ ہیں، جو سماجی سطح پر مسہر ذات کے برابر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 53.55 فیصد بھوئیاں خاندان غریب ہیں۔ وہیں، دبگر کمیونٹی کے غریب خاندانوں کا فیصد پاسی ذات کے غریب خاندانوں کے فیصد (38.14 فیصد) سے بھی کم ہے۔
خیر، اعداد و شمار سے قطع نظر دبگر ذات بہار کی اصل ذات نہیں ہے۔ یہ ذات راجستھان سے آئی اور ماضی میں اس ذات کی خاصیت بالکل مختلف تھی۔ اس ذات کے لوگ خاص طرح کے برتن بناتے تھے۔ وہ برتن جو چمچ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وہ برتن بنانے کے لیے لکڑی اور لوہے وغیرہ کا استعمال کرتے تھے۔
چونکہ چمچ وغیرہ برتنوں کا نچلا حصہ دھنسا ہوا یعنی دبا ہواہوتا ہے،اس وجہ سے ان کا نام دبگر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ اس ذات کے لوگ چولہا بناتے تھے۔ یہ ان کا پیشہ رہا۔ پہلے اس ذات کی عورتیں دوسری ذاتوں کے لوگوں کے گھر جا کر مٹی کے چولہے بناتی تھیں اور مرد طرح طرح کے چمچ بناتے تھے۔ اس طرح یہ ذات دیگر درج فہرست ذاتوں سے الگ رہی۔
تاہم، چولہا بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ذات کی خواتین کو دوسری ذاتوں کے گھروں میں داخلے کی اجازت تھی۔ انہیں گھروں کے باہر چولہا بنانے کو کہا جاتا اور جب چولہا تیار ہو جاتا تو انہیں اناج وغیرہ اجرت کے طور پر دے دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد پوجا (پاک کرنے کے لیے) کے بعد دبگروں کے بنائے ہوئے چولہے گھر کے اندر باورچی خانے میں لے جائے جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کام اپنے انجام کو پہنچا۔ اس وقت دبگر ذات کے لوگ نہ تو چمچے بنانے میں مصروف ہیں اور نہ ہی ان کی خواتین چولہے بناتی ہیں۔ اگرچہ چھٹ وغیرہ کے موقع پر یہ خواتین چولہا ضرور تیار کرتی ہیں لیکن اب ان کے لیے یہ لازمی نہیں رہ گیا ہے۔
درحقیقت کسی بھی ذات کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس ذات کا خوشحال ذاتوں کے ساتھ کس قسم کا رشتہ ہے۔ مثال کے طور پر، بہار میں آج بھی 54.56 فیصد مسہر خاندانوں کی آمدنی 6000 روپے سے کم ہے، تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ متمول ذاتوں سے دور رہتے ہیں۔ اسی طرح ڈوم ذات کے لوگ بھی ہیں، جو یا تو شمشان گھاٹ پر یا گندے نالوں کی صفائی کرتے وقت امیر ذات کے لوگوں سے رابطے میں آتے ہیں۔ بہار میں 53.10 فیصد ڈوم خاندان 6 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی پر گزارہ کر رہے ہیں۔
اصل میں ہوا یہ کہ چولہوں اور چمچوں کا کام ختم ہونے کے بعد اس ذات کے لوگوں نے کھیتی باڑی اور دیگر پیشوں کی اہمیت کو سمجھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا تعلق متمول ذاتوں سے تھا۔ کپی بنانےکی وجہ سے وہ تیلی ذات کے لوگوں سے رابطے میں آئے۔ ان سب نے انہیں بتایا کہ اپنے پیشے پر قائم رہنے سے ان کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ خیر جہاں تک امیری کا تعلق ہے، جس ذات کی کل آبادی آٹھ ہزار سے کم ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنا غریب ہے اور کون کتنا امیر۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ذات معدوم ہونے والی ذاتوں میں شامل ہے۔
بہرحال اگر معدومیت کا سبب ذات پات کا خاتمہ ہوتا تو الگ بات ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس ذات کے لوگوں نے اپنے آپ کو دبگر کہنا اور کہلوانا چھوڑ دیا ہے اور خود کو دوسری ذاتوں میں شامل کرکے مزید ذات پرست ہو گئے ہیں۔
تعجب کی بات نہیں، یہ صرف ذات پر مبنی ریزوویشن کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے آج بہار میں 7756 لوگ یہ مانتے ہیں کہ وہ دبگر کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر