خبریں

عارضی اساتذہ کی برخاستگی پر کیا سوچتے ہیں دہلی یونیورسٹی کے طالبعلم

حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کے کئی کالجوں کے مختلف شعبہ جات سے ایسے ایڈہاک اساتذہ کو ہٹانے کا معاملہ سامنے آیا ہے، جو ایک دہائی سے زیادہ سے یہاں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔

 (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کے دو کالجوں کے مختلف شعبوں سے عارضی (ایڈہاک) اساتذہ کو ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ اساتذہ تقریباً 10-15 سال سے خدمات سرانجام دے رہے تھے اور اب اچانک انہیں برخاست کر دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ حال میں ذاکر حسین اور رامجس کالج کا ہے، جہاں ان کالجوں سے بڑی تعداد میں عارضی اساتذہ کو ہٹا دیا گیا ہے۔

عارضی اساتذہ کا مسئلہ دہائیوں پرانا ہے۔ یہ اساتذہ ایک عرصے سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عارضی تقرریوں کے معاملے میں اساتذہ کا سب سے بڑا ڈر یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کی نوکری چلی گئی تو وہ کہاں جائیں گے۔ اس نوع کے کئی سوال یہ اساتذہ اٹھاتے آئے ہیں۔وہیں اساتذہ کی برطرفی کے بعد طلبہ میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے پڑھانے والے اساتذہ کو اچانک نوکری سے نکالنے سے ان کا نقصان ہو رہا ہے۔

رامجس کالج کے ایک طالبعلم سناتن کا کہنا ہے کہ ‘یکم دسمبر 2023 کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایڈہاک اساتذہ کو نکالنے کے حوالے سے ایک فہرست جاری کی جاتی ہے، جس میں رامجس کالج کے انگلش ڈپارٹمنٹ کے 10 میں سے 8 ایڈہاک اساتذہ کو ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ وہ اساتذہ تھے جو تقریباً 10-12 سال سے ہمیں پڑھاتے  آ رہے تھے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ایک اہم شعبےے کے اساتذہ کو اچانک نکال دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟’

ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس بار یعنی 2023 میں یہ ہوا کہ عارضی اساتذہ کو انٹرویوز کے ذریعے مستقل کیا جانا تھا، جبکہ انٹرویو کے بعد اساتذہ کو بڑی تعداد میں نکال دیا گیا، جس کی وجہ سے ہم نے رامجس کالج کے پرنسپل آفس کا گھیراؤ بھی کیا۔ ہم نے انتظامیہ سے جواب طلب کیا تو انتظامیہ نے بتایا کہ جن اساتذہ کو برخاست کیا گیا وہ اس سروس کے لیے اہل نہیں تھے۔ جبکہ یہ سچ نہیں۔ اگر وہ اساتذہ نااہل ہوتے تو طلبہ کبھی ان کا ساتھ نہ دیتے۔’

طلباء کا الزام ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایک مخصوص نظریہ کے لوگوں کی حمایت کر رہی ہے۔ اگر کسی طالبعلم یا استاد کا نظریہ انتظامیہ کے برعکس ہو تو انتظامیہ ان کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف کھل کر احتجاج کرنے والے اساتذہ کو یونیورسٹی سے برخاست کیا جا رہا ہے، انہیں نوکری میں بنے رہنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

ذاکر حسین کالج کی طالبہ آکانکشا کہتی ہیں، ‘ایڈہاک اساتذہ کو ہٹانے کے پیچھے انتظامیہ کی منشا  کچھ اور ہے۔ اس کا ہماری پڑھائی پر گہرا اثر پڑ رہا ہے، جو اساتذہ ہمیں کئی سالوں سے پڑھا رہے تھے انہیں اچانک نوکری سے نکال دیا گیا جس سے ہمارے نصاب پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔’

آکانکشا کا مزید کہنا ہے کہ ‘6 دسمبر 2023 کو ذاکر حسین کالج انتظامیہ نے ایک نوٹس جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ ہندی ڈپارٹمنٹ سمیت شعبہ فلاسفی کے 8 عارضی اساتذہ کو ان کی خدمات سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ خاص طور پر اگر ہم ہندی ڈپارٹمنٹ کی بات کریں تو ان اساتذہ کی جگہ اب تک کسی دوسرے استاد کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ طلبہ پریشان ہیں، ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔’

آکانکشا نے یہ بھی بتایا کہ ذاکر حسین کالج میں اساتذہ کی کمی ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ایسے میں دو شعبہ جات سے اساتذہ کی بڑی تعداد کو ہٹانے سے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔

اندر پرستھ کالج فار ویمن کی طالبہ تنوی کا کہنا ہے کہ فروری 2023 میں آئی پی کالج میں نئے پرنسپل کی تقرری کے بعد عارضی اساتذہ کے معاملے میں انٹرویوز ہونے شروع ہو ئے، جس کے بعد ایڈہاک اساتذہ کو مسلسل مستقل کرنے یا ان کے معاہدوں کی تجدید کرنے کے بجائے برخاست کیا جا نے لگا۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ عمل ذاکر حسین کالج کے تمام شعبہ جات میں ہونے لگا اور بڑی تعداد میں عارضی اساتذہ کی جگہ کچھ ایسے اساتذہ کو تعینات کر دیا گیا جو اپنے مضامین میں نااہل معلوم ہوتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی تک نہیں کی اور بہت سے اپنے مضمون میں مہارت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہماری کلاسز متاثر ہو رہی ہیں۔’

تنوی کے مطابق، جن اساتذہ کو عارضی اساتذہ کی جگہ تعینات کیا جا رہا ہے ان کی تقرری انتظامیہ کی سفارش پر کی جا رہی ہے اور ان کا نظریہ بھی وہی ہے جو یونیورسٹی انتظامیہ کا ہے۔

ذاکر حسین کالج کے شعبہ ہندی سے برخاست کیے گئے استاد ڈاکٹر لکشمن یادو کا کہنا ہے کہ عارضی اساتذہ کو ان کی میرٹ کی بنیاد پر مستقل کیا جاتا ہے جس میں اکیڈمک پرفارمنس انڈیکیٹرز (اے پی آئی ) بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارا اے پی آئی  100 میں سے 96 ہے جس کی بنیاد پر ہمیں مستقل کیا جانا چاہیے تھا، لیکن برخاست کر دیا گیا۔’

انٹرویو کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے کے لیے جب ڈاکٹر لکشمن سے پوچھا گیا تو انھوں نے اس عمل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک ٹیچر جو گزشتہ 14 سال سے خدمات انجام دے رہے تھے، جن کا میرٹ بھی انتظامیہ کے مطابق ہے، کو صرف ایک مختصر انٹرویو کی بنیاد پراچانک برخاست کر دیا جانا  کہاں  کا انصاف ہے؟

ڈاکٹر لکشمن کا کہنا ہے کہ ایڈہاک اور اس طرح کے تمام عمل ہماری یونیورسٹیوں کے لیے بہت نقصاندہ ہیں۔ اس سے ہمارا تعلیمی نظام تباہ ہو جائے گا۔ اس عمل کے ذریعے یونیورسٹی میں مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔ ایک طرح کا نظریہ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا خمیازہ آنے والے وقت میں بھگتنا پڑے گا اور اس کا سب سے زیادہ اثر طلبہ کے مستقبل پر پڑے گا۔

یہ مسئلہ صرف ڈاکٹر لکشمن یادو کا نہیں ہے بلکہ ان جیسے سینکڑوں اساتذہ ہیں جو اس سے نبرد آزما ہیں۔ ڈاکٹر لکشمن اس واقعہ کے حالیہ متاثرین میں سے ایک ہیں۔ یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں ہندو کالج کے 33 سالہ عارضی استاد سمرویر سنگھ نے سات سال کی انتھک خدمات کے باوجود ہٹائے جانے پر خودکشی کر لی تھی۔ اس واقعے کے بعد طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے کئی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

دسمبر 2022 میں ملازمت سے برطرف کی گئی رامجس کالج کی تاریخ کی ایک ٹیچرنےاس کالج میں 10 سال تک ایڈہاک ٹیچر کے طور پر خدمات انجام دیں، جس کے بعد انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘اساتذہ کی تقرری 4 ماہ کے معاہدے پر کی جاتی ہے، جہاں 4 ماہ کی سروس کے بعد انٹرویو کے ذریعے ان کے معاہدے کی تجدید کی جاتی تھی، لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایڈہاک اساتذہ کو برخاست کیا جانے لگا جس کی وجہ سے صورتحال سنگین ہوتی چلی گئی۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہونے لگے۔ ایڈہاک اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کیا نے تک  ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ گزر جاتا ہے اور ملازمت کے بغیر ان کے لیے خاندان کی ذمہ داریاں بھی نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔’

ان کے مطابق، ‘کووڈ لاک ڈاؤن سے پہلے دہلی یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایڈہاک اساتذہ کی اس طرح کی تقرری کے حوالے سے ایک مہم چلائی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اساتذہ کو ایک ہی عہدے کے لیے بار بار انٹرویو کے عمل سے گزارنا ان کا استحصال ہے۔ جس کے بعد 4 ماہ کی سروس کے بعد بغیر کسی انٹرویو کے اگلے 4 ماہ کے لیے ایک دن کے وقفے سے اساتذہ کی دوبارہ تقرری شروع ہو گئی۔ لیکن آخرکار تھے تو ہم ایڈہاک ہی،جس کی وجہ سے تنخواہیں وہی رہیں، جو شروعاتی تنخواہ تھی۔ اس کے علاوہ نہ تو انکریمنٹ ہوا اور نہ ہی تنخواہوں میں اضافہ۔ بڑھنے کے نام پر مسائل میں اضافہ ہی ہوا۔

(اویس صدیقی آزاد صحافی ہیں۔)