فکر و نظر

بہار کاسٹ سروے: کون ہے کمہار کمیونٹی

ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ حصہ کمہار کمیونٹی کے بارے میں ہے۔

 (علامتی تصویر بہ شکریہ: Flickr/Harisudha.g CC BY-NC-ND 2.0)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Flickr/Harisudha.g CC BY-NC-ND 2.0)

اس روئے زمین پر سب سے پہلے کس کمیونٹی کے لوگ آئے، اس بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کمہار یعنی کوزہ گر اس معاشرے میں  پہلے رہے ہوں گے جنہوں نے رفتار کو سمجھا ہوگا۔ وہی پہلے رہے ہوں گے جنہوں نے مٹی کی صفت کو پہچانا ہوگا۔ اس لیے انہوں نے دنیا کو چاک دیا ہوگا اور خوب سارے برتن۔ اس دنیا کو اندھیروں میں راستہ دکھانے کے لیے انہوں نے ہی چراغ بنائے ہوں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں کمہار پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ پنڈت کا خطاب انہیں اس لیے دیا گیا ہو گا کہ اس کا اصل مطلب تخلیق کرنا اور بنانا ہے اور اس کا تعلق علم و ہنر سے ہے۔

آپ چاہیں تو پتھر کے زمانے کی تاریخ پر نظر ڈال لیں۔ کمہار وہاں اپنے چاک اور بہت ساری مٹی کے ساتھ ملیں گے۔ وہ انسانی تہذیب کی ترقی میں سب سے اہم کڑی ہیں۔ لیکن تخلیق کرنا آسان نہیں ہے۔ تخلیق کرنے کے لیے معاشرے کو سمجھنا پڑتا ہے۔ جس نے معاشرے کو نہیں سمجھا وہ کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتا۔

کمہار نہ صرف بہار میں اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کی تمام تہذیبوں میں مختلف شکلوں میں موجود رہے ۔ اہرام مصر میں رکھے گئے برتن اس کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے ہڑپہ دور میں برتن بنائے اور ٹیراکوٹا کے مجسمے بنائے

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس مہارت کے باوجود انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ ماضی کے اوراق میں ان کی موجودگی کے ثبوت نہیں ملتے۔ اور صرف کمہار ہی نہیں، کاریگروں کی دوسری ذاتیں بھی ہیں، جن کا ذکر تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ بدھ مت سے پہلے آجیویک دھرم سے ان کا تعلق ایک آجیویک سنجے کیش کمبلی کے ذریعے قائم ہوتا ہے، جو ایک کمہار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اس سے زیادہ تفصیلات بدھ مت کی کتابوں میں دستیاب نہیں ہیں۔

بہار، اتر پردیش اور مغربی بنگال میں ان کا شمار پونیوں میں ہوتا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے نائی، لوہار، بڑھئی اور کہار۔ پونیا لوگوں کا کام خدمت کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کام بھی خدمت کرنا ہی رہا ہے۔ لوگ جب اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں تو کمہار ان کے لیے مٹی کے ہاتھی، گھوڑے، پرندے وغیرہ بنا کر دیتے ہیں۔یہ انہیں کلش بنا کردیتے ہیں، جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے اور جس کو گواہ بنا کر مرد اور عورت ایک ہونے کا عہد کرتے ہیں۔ اس کے عوض میں پہلے انہیں اناج اور کپڑے وغیرہ ملتے تھے۔

اب زمانہ بدل گیا ہے تو وہ بھی بدل رہے ہیں۔ اب وہ اپنی تیار کردہ ہر شے کی قیمت خود طے کرتے ہیں۔ اب انہوں نے جبری مشقت کے طور پر خدمت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ تاہم سرمایہ داری نے انہیں اپنے فن کا مزدور بنا دیا ہے۔

مذہب کی بات کریں تو کمہار ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔ تاہم ہندوستان میں برہمنیت نے ان سے ان کا لفظ ہی چھین لیا۔ اب انہیں  پرجاپتی کہاجاتا  ہے۔ اس کے پیچھے ویدک کہانیاں بنائی گئی ہیں، تاکہ قبائلی پیشے والی اس برادری کو ہندو بنایا جا سکے۔ جبکہ وہ اصل میں کمہار ہیں اور اس لفظ کا تعلق کم سے ہے جس کا مطلب تالاب یا حوض ہوتا ہے۔

اس کے پیچھے کی کہانی یہ ہے کہ انہیں مٹی اور پانی دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہر طرح کی مٹی چاک پر نہیں چڑھتی۔ خاص طور پر ندیوں کے کناروں کی ریت والی مٹی تو بالکل نہیں۔ انہیں چکنی مٹی یا کالی مٹی کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں تنظیمی صلاحیت ہو۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایسی مٹی کے لیے زمین کھودنی شروع کی اور پھر جب انہوں نے دیکھا کہ مٹی کھودنے سے جو گڑھا بنتا ہے وہ بارش کے موسم میں پانی سے بھر جاتا ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ہوگا۔ آج بھی، کمہار اکثر تالابوں اور حوض کے کنارے رہتے ہیں، جن میں پانی ٹھہرا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ  کمہار کہے گئے۔

لیکن ان کی مصنوعات کو مختلف نام دیے گئے۔ جیسے گھڑے کو سنسکرت میں کمبھ کہا گیا اور انہیں کمہار سے کمبھ کار بنا دیا گیا تھا۔ اب یہ تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ صرف کمبھ یعنی گھڑے ہی نہیں بناتے بلکہ کھپڑیل ، چراغ، دیگر اورتمام طرح کےبرتن اور مورتیاں بھی بناتے ہیں، پھر وہ صرف کمبھ کار کیسے ہوئے؟

خیر، دراوڑی روایات میں یہ کمہار کہے جاتے ہیں۔ آج کے پاکستان اور ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں انہیں کلال بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کی ہر ریاست کے باشندے ہیں۔ یقیناً وہ زیادہ تر صوبوں میں اچھوت نہیں ہیں، لیکن انہیں سماجی وقار حاصل نہیں ہے۔ ہندی بولنے والی ریاستوں، خاص طور پر بہار اور اتر پردیش میں، ان کا شمار پونیوں میں ہوتا ہے اور انہیں اس لیے آباد کیا جاتا ہے تاکہ وہ دوسری اعلیٰ ذاتوں کی خدمت کر سکیں۔ ویسے بھی اگر انہیں ‘اچھوت’ سمجھا جائے تو پھر دیوتاؤں کی مورتی کون تراشے گا۔

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وسائل پر ان کے مساوی حقوق ہیں۔ سماجی وقار کا براہ راست تعلق وسائل پر حقوق سے ہے۔ چونکہ گاؤں میں ان کی آبادی دوسری اوبی سی ذاتوں یا دلت ذاتوں کی طرح نہیں ہے – بعض اوقات ان کے ایک گاؤں میں دو گھر ہوتے ہیں اور کچھ گاؤں میں ان کے پاس صرف ایک گھر ہوتا ہے۔ بہار اور یوپی میں ایک بھی گاؤں ایسا نہیں جو صرف کمہاروں کا ہو۔ کہیں کہیں کمہار ٹولہ ضرور دیکھنے کو مل جاتا ہے، لیکن یہ ٹولہ بھی بہت چھوٹا ہوتا ہے۔

موجودہ دور میں سماجی وقار کا تعلق آبادی  سے بھی ہے۔ بہار کی ہی بات کریں تو یہاں کی 13 کروڑ کی آبادی میں کمہار ذات کے لوگوں کی تعداد بہار حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ-2022 کے مطابق 1834418 ہے، جن کا کل آبادی میں حصہ 1.40 فیصد ہے۔ یہ تعداد سیاسی مداخلت کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔

تاہم بہار میں انہیں انتہائی پسماندہ طبقے میں شامل کیا گیا ہے جبکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں انہیں پسماندہ طبقے میں شامل کیا گیا ہے۔ صرف مدھیہ پردیش کے چھتر پور، دتیا، پنا، ستنا، تیکم گڑھ، سیدھی اور شہڈول اضلاع میں انہیں درج فہرست ذات کے طور پر لسٹ کیا گیا ہے۔

بہرحال، کمہاربرادری کے لوگوں کی روایت قبائلی رہی ہے۔ ہندو مذہبی کتاب یجروید (16.27، 30.7) میں انہیں پرجاپتی کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ پرجاپتی برہما کے بیٹے تھے۔ جیسے ان کی بیٹی  تھیں سرسوتی۔ برہمن طبقہ پرجاپتی اور سرسوتی دونوں کو اہل علم سمجھتا ہے۔

خیر، اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ پرجاپتی کی اولاد ہیں۔ ان کا علم اور ہنر ان کا اپنا ہے، کسی خدا کا عطیہ نہیں۔ وہ تخلیق کرتے رہے ہیں اور جو مسلسل تخلیق کرتا ہے، اس کا وجود کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا وجود قائم ہے۔

تاہم، اب مشینی دور میں انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مٹی سے متعلق ان کا روایتی پیشہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن بدلتے وقت کے ساتھ دیکھیں تو یہ بھی اچھا ہے۔

لیکن یہ صرف کہنے کی بات ہے۔ ان کی بے زمینی اور روزگار کی عدم دستیابی نے انہیں یومیہ اجرت والے مزدوروں کے طور پر کام کرنے یا مہاجر مزدور بننے اور دوسرے شہروں اور ریاستوں میں جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کا درد وہی سمجھ سکتا ہے جو تخلیق کا مفہوم سمجھتا ہو۔

ویسے بھی یہ ذات دوسری ذاتوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس ذات نے یہ ثابت کیا ہے کہ جس آگ میں جسم خاک بن جاتا ہے، اسی آگ میں مٹی زندگی کا روپ دھار لیتی ہے۔ تخلیق کا یہ نظریہ کتنا مختلف ہے۔

(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)