فکر و نظر

بہار کاسٹ سروے: کیا ہے دھوبی کمیونٹی کی تاریخ

ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ حصہ دھوبی کے بارے میں ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Flickr/Santulan Mahanta CC BY 2.0 DEED)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Flickr/Santulan Mahanta CC BY 2.0 DEED)

پیشے کا مذہب نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ پیشہ ورانہ کام کرنے والا کسی طرح کا امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا۔ جس طرح ایک ڈاکٹر اپنے مریض کی ذات یا اس کے مذہب کی پرواہ نہیں کرتا، اسی طرح ایک موچی کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کس کے جوتے گانٹھ رہا ہے یا مرمت کر رہا ہے۔ عام طور پر پیشہ ورانہ کام کا تقاضہ یہی ہوتاہے۔ لیکن ہندوستانی سماجی نظام اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس نے پیشوں کو مذہب سے جوڑ دیاہے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں دھوبی ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔

بہار حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ-2022 میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں ہندو دھوبی کی آبادی 1096158 ہے جبکہ مسلم دھوبی کی آبادی 409796 ہے۔ دونوں کو ملا دیں تو یہ آبادی 15 لاکھ 5 ہزار 954 بنتی ہے۔ لیکن آبادی میں یہ حصہ ہونا کافی نہیں ہے۔ جمہوری سیاست میں حقوق صرف آبادی سے نہیں ملتے۔ اس کے لیے وسائل پر حقوق ضروری ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بہار کی حکمرانی میں دھوبی ذات کی شرکت نہ ہونے کے برابرہے۔ آج کی بات کریں تو شیام رجک ہی ایک سیاستدان ہیں جو تھوڑا بہت دم خم رکھتے ہیں۔ تاہم وہ بھی اب حاشیے کی سیاست کے شکار ہیں۔

دھوبی کے پیشے اور انسانی تہذیب میں ان کی شراکت کے بارے میں بات کریں، تو ان کا پیشہ ورانہ  کام لوگوں کے گندے کپڑوں کو صاف کرنا اور استری کرنا ہے۔ جب سے انسانی تہذیب کی ابتدا ہوئی اور انسان نے یہ سمجھا کہ صاف ستھرا رہنا ضروری ہے، تب سے کپڑے کی صفائی کا عمل شروع ہوا اور بلاشبہ اس کا سہرا آج کے دھوبی معاشرے کے آباؤ اجداد کو دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے خدمت کے جذبہ کے ساتھ اس کام کوکیا۔ وہ بھی اس کے باوجود کہ لوگوں نے انہیں دھوبی-دھوبی کہہ کر گالیاں دیں۔

تاہم یہ تاریخ میں کہیں درج نہیں ہے کہ ایک بڑی آبادی اس پیشے سے کیسے وابستہ ہوئی۔ لیکن، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی سماج نے اس ذات کو اچھوت کہہ کر ناانصافی کی ہے۔ اسے یوں سمجھ لیں کہ برہمن طبقہ ان کے صاف کیے ہوئے کپڑے بہت آرام سے پہنتا ہے، لیکن وہ انہیں ‘اچھوت’ سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ‘اچھوت’ کیسے ہو ئے اگر ان کے صاف کیے کپڑے نہ صرف چھونے بلکہ پہننے کے لائق بھی تھے؟

تاریخ کی اپنی سیاست ہوتی ہے اور بالادستی کا کھیل تو رہتا ہی ہے۔ لیکن جس شکل میں وہ وہاں موجود ہے اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم تاریخ کو کھنگالیں تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ رامائن میں دھوبی کا ذکر آتاہے۔ رامائن لکھنے والے نے نہ صرف رام اور اس کے خاندان کے کپڑے صاف کرنے کی ذمہ داری دھوبی ذات کو دی بلکہ اسے حاملہ سیتا کو ترک کرنے کا ایک عامل بھی بنایا۔

جنوب کا برہمن طبقہ دھوبی ذات کو اپنے ایک دیوتا ویربھدر سے جوڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شنکر نے ویربھدر کو تمام لوگوں  کے کپڑے دھونے کا حکم دیا تھا۔ اس کے پیچھے بتائی گئی کہانی یہ ہے کہ شنکر نے ویربھدر کو سزا دی تھی اور اس کا قصور یہ تھا کہ ویربھدر نے پرجاپتی دکش کے یگیہ کے ہون کنڈ میں لوگوں کو بلی کے طور پرزندہ ڈال دیا تھا۔

جنوب نے ویربھدر کا مجسمہ بھی بنا رکھا ہے۔ حالانکہ اس کے بھی چار ہاتھ ہیں۔ایک میں سانپ کی شکل کا ہتھیار ہے،ایک میں تلوار ہے، ایک میں ڈھال اورایک میں کنول کا پھول ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ برہمنوں نے ویربھدر کی سواری بھی طے  کر رکھی ہے۔ سواری بھی کیا، توگدھا۔

حالاں کہ کہ اب کچھ چیزیں بدل گئی ہیں۔ یہ معاشرہ بھی بدل رہا ہے۔ دھوبی ذات کو مختلف ریاستوں میں مختلف الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔ کہیں یہ رجک ہیں، تو کہیں شندے  اور کہیں مڈی والا۔ جنوبی ریاستوں میں یہ زیادہ خوشحال ہیں اور ان کا پیشہ بھی صرف کپڑے صاف کرنے تک محدود نہیں ہے۔ ان کے کھیت ہیں اور ناریل کے باغات ہیں۔ ان کے پاس مہاراشٹر میں بھی کئی طرح کے کام ہیں۔ لیکن اصل کام کپڑے صاف کرنا ہی ہے۔ یہ مہاراشٹر میں ‘اچھوت’ نہیں ہیں۔ انہیں وہاں پسماندہ طبقے میں رکھا گیا ہے۔ جبکہ بہار میں وہ درج فہرست ذات میں شامل ہیں۔

دھوبی صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا میں بھی ہیں۔ سری لنکا میں انہیں ‘اچھوت’ نہیں کہا جاتا۔ تاہم، نیپال میں انہیں یقینی طور پر ‘اچھوت’ سمجھا جاتا ہے اور ہندوستان کی طرح وہاں بھی ان کے ساتھ دوسرے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ان کا مذہب اسلام ہے اور ہندوستان کی طرح انہیں ارذال کہا جاتا ہے۔

تاہم، اس ذات کے لوگوں کے لیے آئیڈیل سنت بابا گاڈگے جی مہاراج تھے، جنہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کے عصری سماج میں کئی  اصلاحی پروگرام چلائے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سنت گاڈے کا پیغام شمالی ہندوستان میں ابھی تک بے اثر ہے۔

(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)