گزشتہ دنوں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سولہ کروڑ روپے کے اخراجات سےفیض آباد میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کےتاریخی محل ‘دلکشا’ کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا، تو لوگ حیران رہ گئے۔ تاہم اس کے بعد ’دلکشا‘ کو ’ساکیت سدن‘ کا نام دے کر اس کی شناخت کو مٹانے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔
سال 1775 تک اودھ کی راجدھانی رہے فیض آباد (اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی بی جے پی حکومت نے نومبر، 2018 میں جس کا نام بدل کر ایودھیا کر دیا) میں نواب شجاع الدولہ (1732-1775) کا تعمیر کردہ اور اپنے وقت کا بے حد عالیشان محل ‘دلکشا'(جس کو تقریباً ڈھائی سو سال کی تاریخ میں اس سے وابستہ متعدد ٹریجڈی کے لیے بھی جانا جا تا ہے) ان دنوں اپنی ‘آخری ٹریجڈی’ سے دوچار ہے۔
آخری ٹریجڈی! پڑھ کرآپ حیران ہو سکتے ہیں، لیکن کیا کیجیے گا، گزشتہ دنوں یوگی حکومت نے سولہ کروڑ روپے خرچ کرکے اس تاریخی محل کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا، توبھی کچھ لوگ کم حیران نہیں ہوئے تھے۔حکومت نے 15.18 کروڑ روپے کی لاگت سے شجاع الدولہ کے دور میں بنے فیض آباد کے تاریخی چوک کے گھنٹہ گھر کے ارد گرد چار ‘دروں’ (دروازوں) کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا، تب بھی لوگ حیران ہی ہوئے تھے۔
اس وقت کئی حضرات نے ان لوگوں کو لعنتیں بھیجی تھیں، جو ان دنوں ایودھیا میں سڑکوں کو چوڑا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انہدام کو یوگی حکومت کی طرف سے ایودھیا میں نوابوں کے دور کی تمام نشانیوں کو ختم کرنے کی بدنیتی کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ لعنت بھیجتے ہوئے انہوں نے سوال کیا تھا کہ اگر حکومت کے ارادے اتنے ہی خراب ہوتے تو وہ ‘دلکشا’ اور چوک جیسے نوابی دور کے تاریخی ورثے کو ‘تریتا کی واپسی’ کے لیے ایودھیا کو سجانے سنوارنے کی مہم کا حصہ کیوں بناتی؟
اس ‘کیوں بناتی’ کا اس وقت جواب نہیں ملا تھا، لیکن اب یہ سامنےہے، پھر بھی یہ حضرات حیران ہی ہیں! وجہ یہ ہے کہ دلکشا کو سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینے کے لیے اس کی زمین پر اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اشیا یعنی ملبے کو ہی دوبارہ استعمال کر کے جو ہیریٹیج ہوٹل بنایا جا رہا ہے،وہ تو ابھی زیر تعمیر ہی ہے، لیکن ‘دلکشا’ کو ساکیت سدن کا نام دے کر اس کی شناخت کو مٹانے میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی ہے۔
فی الحال راجستھان سے آئے ماہرین اس کی ترئین و آرائش میں مصروف ہیں، ان کی مانیں تو یہ کام اگلے سال اگست تک مکمل ہو جائے گا، جس کے بعد اگلے دو سو سال تک اس کی جگہ’ساکیت سدن’ کھڑا رہے گا۔ کیا عجب ہے کہ کئی حلقوں میں اسے ‘دلکشا’ کی آخری ٹریجڈی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جب اس کا وجود ہی نہیں ہوگا تو اس کے حصے کوئی اور ٹریجڈی آئے گی بھی بھلاکیسے؟ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔
معاملے کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہاں کچھ دیر رک کر دلکشا کے ماضی کے سانحات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
نواب شجاع الدولہ 1754 میں اودھ کے نواب بنے اور 1775 میں اپنی وفات تک اپنے عہدے پر رہے۔ فیض آباد کو انہوں نے صوبے کا دارالحکومت اس وقت بنایا، جب 22-23 اکتوبر 1764 کو بکسر میں انگریزوں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد ان کو کسی حکمت عملی کے طور پر ایسا کرنا مفید لگا۔ انہی دنوں انہوں نے سریو کے کنارے کئی ایکڑ میں ایک عالیشان محل بنواکر اس کا نام ‘دلکشا’ رکھا۔
اس ‘دلکش’ (جو بعد میں انگریزوں کے ذریعے راج کاج میں غلط املا کی وجہ سے دلکشا ہوگیا) سے جڑا پہلا المیہ تو یہی تھا کہ اس کی تعمیر کے پیچھے شجاع الدولہ کی نیت بالکل بھی نیک نہیں تھی۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ یہ ان کے شان و شوکت کی علامت بن جائے اور ان کے ‘دشمن’ اسے دیکھیں تو حسد کے مارے ان کے دل جلنے لگ جائیں۔
دراصل، بکسر میں انگریزوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد اس سے بھی کہیں زیادہ ذلت آمیز شرائط پر ان سے معاہدہ کرنے کو مجبور ہونے کے بعد شجاع الدولہ کئی طرح کے عدم تحفظ کا شکار ہو گئے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ کہیں انگریز اودھ میں ان کے اقبال کو بالکل ہی ختم سمجھ کر صوبے کے راجے رجواڑوں کو ان کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے نہ لگ جائیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ اپنے دور میں ‘دلکش’ کو دیکھ کر ‘دشمنوں’ کے دلوں کو جلانے کی ان کی منشا خوب پروان چڑھی۔ لیکن وقت بدلا تو ‘دلکش’ کے حصے اتنی بے دلی آ گئی کہ اس کے اپنے دل کی حالت خراب ہو گئی۔ 1857 کی جنگ جیتنے کے بعد انگریزوں نے نوابوں کے وارثوں کی تذلیل کے لیے ان کی شان و شوکت کی علامت اس محل کوافیون کی خرید و فروخت کا مرکز بنا دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی خستہ حالی کے کافی عرصہ بعد تک بھی ، جب کہتے ہیں کہ اس کے کھنڈرات بھی بتایا کرتے تھے کہ وہ ایک بلند عمارت تھی، اس کو افیون کی کوٹھی کہلانے کے ایک اور سانحے سے گزرنا پڑا۔ تاہم، اس کے باوجود اس کا دلکشا نام لوگوں کی زبانوں سے غائب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی شناخت ختم ہوئی۔
ماہرین کے درمیان جب بھی بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ شجاع الدولہ کے فیض آباد میں ‘دلکش’ یا ‘دلکشا’ تعمیر کروانے کے چھتیس سال بعد 1800 میں نواب سعادت علی خان کے لکھنؤ میں اسی نام سے تعمیر کرائے گئے کہیں زیادہ عالیشان محل اور باغ کی ٹریجڈی اس سے بھی بڑی ہے۔ کیونکہ 1857 میں انگریزوں کی توپوں کے گولوں نے انہیں بے دردی سے تباہ کر دیا تھا۔
اگر لکھنؤ کے ‘دلکشا’ کے سانحے کی طرف جائیں تو سعادت نے اپنے انگریز دوست میجر گورے ایسلے کی نگرانی میں اس نام سے محل اور باغ بنوایا تھا۔ اس کے علاوہ اس میں اطالوی طرز کی کھڑکیوں والا کثیر المنزلہ ٹاور بھی بنایا گیا تھا۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے باغ میں ہرن وغیرہ جنگلی جانوربھی چھوڑ گئے تھے، تاکہ نواب جب چاہیں انہیں مار کر شکار کا شوق پورا کر سکیں۔
لیکن ناصرالدین حیدر (1827-1837) نے اپنے وقت میں اس دلکشا کو اپنی بیگموں کی پسندیدہ تفریح گاہ میں تبدیل کر دیا۔ ان کی بیویاں ساون کے مہینے میں وہاں جھولا جھولنے آتی تھیں۔ بعد میں جانے کب اور کیسے نواب کی نظر عنایت سے وہاں رہ رہے انگریز ڈاکٹر جیرمیا ہڈسن کی بیٹی ایناویلا اور اس کے دو ‘عاشقوں’، کا سانحہ بھی اس سے جڑ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایناویلا نہ صرف خوبصورت اور حسین تھی بلکہ وہ رقص اور گھڑ سواری میں بھی ماہر تھی۔ ایک دن نواب کے بے مثال پورٹریٹ بنا کر خاصی شہرت حاصل کر چکے پینٹر جان ایلنگ ورتھ نے اس سے ان کی تصویر پینٹ کرنے کی اجازت مانگی، جو اس نے خوشی خوشی دے دی اور ایلنگ ورتھ نے اسے اپنے تئیں اپنی محبت کا تحفہ سمجھا لیا۔ لیکن جب ایناویلا کی بنگال رجمنٹ کے کیپٹن چارلس بروس سے ایک پارٹی میں ملاقات ہوئی تو وہ ایلنگ ورتھ سے بھی زیادہ دیوانے ہو گئے۔ دلکشا آئے اور ایلنگ ورتھ کو ایناویلا کی تصویر کشی کرتے دیکھا تو وہ فطری طور پر حسد سے بھر گئے۔
یہ حسد انہیں ایلنگ ورتھ کی توہین تک لے گئی اور پھر بات مرنے مرنے تک پہنچ گئی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ وہ دونوں گومتی کے کنارے ایک دوسرے سے پستول لے کر لڑیں گے اور ‘تم یا میں’ کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے ہیو ڈرمنڈ نامی ایک سرکاری افسر کو اس کا ریفری مقرر کیا اور اپنے مقرر کردہ دن اور قواعد کے مطابق مقررہ جگہ پر پہنچے۔ جیسے ہی ریفری نے اشارہ کیا، دونوں نے چودہ قدم پیچھے ہٹ کر ایک دوسرے پر گولیاں چلائی اور قلابازیاں کھا کر تقریباً ایک سی حالت میں زمین پر گر پڑے، تواچانک وہاں دوڑتی ہوئی اناویلا آئی اور خوشی خوشی اٹھ رہے بروس پر ایک اور گولی چلا دی۔
کیونکہ بروس کی گولی نے ایلنگ ورتھ کی جان لے لی تھی، لیکن ایلنگ ورتھ کی گولی نے بروس کو چھوا تک نہیں تھا، جب کہ ایناویلا چاہتی تھی کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اس پر دعویٰ کرنے کے لیے زندہ نہ رہے، کیونکہ وہ کسی تیسرے شخص سے محبت کرتی تھی۔
تاہم، اب المیہ یہ ہے کہ اس کی محبت اورلکھنؤ کے دلکشا کے ساتھ ساتھ فیض آباد کا دلکشا بھی ماضی کا قصہ ہو کر رہ گیاہے تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے پیچھے کن کا دل جلانے کی کس کی منشاہے۔
سماج وادی وچار منچ کے کنوینر اشوک سریواستو کہتے ہیں کہ اس منشا کے پیچھے دلکشا کی تزئین و آرائش نہیں بلکہ یادوں کو ختم کرنا ہے اور آگے دیکھنا یہ ہے کہ کیا دروں کی تزئین و آرائش کے بعد فیض آباد چوک بھی چوک رہ جاتا ہے یا اسے کوئی اور نام دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں راحت کی اتنی بات ضرور ہے کہ ریاست کے ڈائرکٹر جنرل آف ٹورازم سے کہا گیا ہے کہ وہ ان دروں کی تزئین و آرائش کے کام پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی تاریخی بناوٹ سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر