خبریں

ماہرین اقتصادیات نے کہا — ملک میں غریبی گھٹنے کا نیتی آیوگ کا دعویٰ گمراہ کن ہے

نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پچھلے 9 سالوں میں ملک میں 24.8 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ ماہرین نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان دعووں کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا گیا کثیر الجہتی غربت انڈیکس (ایم پی آئی) غریبی کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔

 (علامتی تصویر بہ شکریہ: Kjell Meek/Pixabay)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Kjell Meek/Pixabay)

نئی دہلی: اقتصادیات کے ماہرین نے نیتی آیوگ کی حالیہ رپورٹ پر اپنے شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سال 2022-23 تک گزشتہ 9 سالوں میں ملک کے 24.8 کروڑ لوگوں کو کثیر جہتی غربت سے باہر نکالا گیا ہے۔

قومی کثیر جہتی غربت- صحت، تعلیم اور معیار زندگی میں محرومی کی پیمائش کرتی ہے، جن کی نمائندگی پائیدار ترقی کے اہداف سے منسلک 12 اشاریے کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ہندوستان میں کثیر جہتی غربت 2013-14 میں 29.17 فیصد سے گھٹ کر 2022-23 میں 11.28 فیصد ہو گئی۔ اس مدت کے دوران تقریباً 24.82 کروڑ لوگ اس زمرے سے باہر آئے ہیں۔ ریاستی سطح پر اتر پردیش 5.94 کروڑ لوگوں کے غربت سے باہر آنے کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد بہار (3.77 کروڑ) اور مدھیہ پردیش (2.30 کروڑ) کا نمبر آتاہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت کے کچھ اقدامات – جیسے غذائیت کی مہم، انیمیا سے پاک ہندوستان، اجوالا اور دیگر – نے محرومیوں کے مختلف پہلوؤں کو دور کرنے میں ‘اہم کردار’ ادا کیا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ  ہندوستان 2030 سے بہت پہلے پائیدار ترقی کا ہدف (ایس ڈی جی ) 1.2 (کثیر جہتی غربت کو کم از کم نصف تک کم کرنا) حاصل کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے سرکاری تھنک ٹینک کی رپورٹ کے بارے میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ‘بہت ہی حوصلہ افزا، (یہ) جامع ترقی کو آگے بڑھانے اور ہماری معیشت میں تبدیلی کی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ہمارے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم ہر ہندوستانی کے لیے ہمہ جہت ترقی اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔’

تاہم، دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے یہ دعوے کرنے کے لیے کثیر جہتی غربت انڈیکس (ایم پی آئی) کے استعمال پرشکوک و شبہات کا اظہار کیاہے۔

انڈین اکنامک سروس کے ریٹائرڈ افسر کے ایل دتہ نے اخبار کو بتایا،’ایم پی آئی ہمیں صرف ان لوگوں کا فیصد بتاتا ہے جو حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی یا ان کے لیے دستیاب کچھ سہولیات تک رسائی نہیں رکھتے ہیں۔’

انہوں نے کہا،’یہ منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کی طرف سے اہداف مقرر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ہے، اور نہ ہی یہ غربت میں کمی کی منصوبہ بندی کے لیے ان پٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مختصراً یہ کہ ایم پی آئی غربت کی نمائندگی نہیں کرتا۔ حکومت ایم پی آئی تخمینہ کو غربت کے تناسب کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔’

پٹنہ کے اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ماہر اقتصادیات سنیل رائےنے کہا، ‘ایک ریاست کیسے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) حاصل کر سکتی ہے جب اس کی حکومت کو اپنی آبادی کے دو تہائی سے زیادہ کی بقا کو (قومی غذائی تحفظ ایکٹ کے ذریعے)  یقینی بنانا پڑتا ہو۔ حکومت یہ مفت سہولت اس لیے فراہم کر رہی ہے کیونکہ لوگ خود کفیل نہیں ہیں۔’

ماہر اقتصادیات اور حقوق کارکن جیاں دریزجنے بھی ایم پی آئی کے استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹیلی گراف کو بتایا، ‘ایم پی آئی میں قلیل مدتی قوت خرید کا کوئی اشارہ شامل نہیں ہے۔ لہذا ہمیں دیگر معلومات، جس میں حقیقی اجرت میں سست ترقی کے حالیہ ثبوت شامل ہیں ، کے ساتھ ایم پی آئی ڈیٹا کو بھی دیکھنا چاہیے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ایم پی آئی ڈیٹا طویل عرصے سے زیر التوا صارفین کے اخراجات کے سروے کے غربت کے تخمینے کی تکمیل کر سکتا ہے، لیکن ان کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

ماہر اقتصادیات اور کلکتہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اسیس بنرجی نے کہا کہ جہاں ایم پی آئی کا استعمال غربت کی پیمائش کے لیے نہیں کیا جا سکتا، وہیں یہ خاص حکومت کم ایم پی آئی کا کریڈٹ بھی نہیں لے سکتی۔

انہوں نے اخبار کو بتایا کہ،’یہ (ایم پی آئی) ایک طویل عرصے سے گر رہا ہے، اور نہ صرف پچھلے نو سالوں سے۔ زیادہ تر مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا سہرا 2014 میں مرکز میں حکومت کی تبدیلی سے پہلے شروع کیے گئے اقدامات کو جاتا ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘…یہ ایک بڑا معمہ ہے کہ اگر غربت میں اتنی متاثر کن کمی آئی ہے تو پھر حالیہ دنوں میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی کارکردگی میں کمی کیوں آئی؟’

بتادیں کہ 12 اکتوبر 2023 کو دو یورپی ایجنسیوں کی طرف سے جاری کردہ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں ہندوستان 125 ممالک میں 111 ویں نمبر پر تھا ۔ ہندوستان سے نیچے بس افغانستان، ہیٹی، صومالیہ، کانگو اور سوڈان جیسے غریب ممالک تھے۔