خبریں

یوپی: رام مندر کی تقریبات کے آس پاس کئی فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے، اشتعال انگیز پوسٹ

اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کی پران — پرتشٹھا کی تقریب کے آس پاس مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق کم از کم 10 فرقہ وارانہ واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات میں اشتعال انگیز پوسٹ اور قابل اعتراض نعرے بازی سے لے کر شوبھا یاترا کے دوران مسجدوں  پر بھگوا جھنڈے  لگانا یا ان کی بے حرمتی کرنا شامل ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: گزشتہ 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی پران — پرتشٹھا کی تقریب کے آس پاس اتر پردیش میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق کم از کم 10 فرقہ وارانہ واقعات یا جرائم کے معاملے سامنے آئے ہیں۔

ان  واقعات میں اشتعال انگیز پوسٹ اور قابل اعتراض نعرے بازی  سے لے کر شوبھا یاترا کے دوران مسجدوں پر ہندو بھگوا جھنڈے لگانا یا ان کی بے حرمتی کرنا شامل ہیں۔ وسطی اتر پردیش کے کانپور اور شاہجہاں پور اضلاع سے تین—تین واقعات رپورٹ ہوئے۔ دیگر واقعات آگرہ، اعظم گڑھ، کشی نگر اور سنت کبیر نگر میں درج کیے گئے۔

سنت کبیر نگر میں دائیں بازو کے غنڈوں کی بھیڑ نے 22 جنوری کو ایک شوبھا یاترا کے دوران مہداول علاقے میں ایک مسجد میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی۔ واقعہ کا ایک ویڈیو، جسے خود شرپسندوں نے پوسٹ کیا تھا، میں مردوں کے ایک بڑے گروپ کو تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں ایک مسجد کے سامنے ہنگامہ آرائی کرنا اور اس کے گیٹ کے سامنے بھگوا جھنڈے لہراتے ہوئے رقص کرنا شامل ہے۔ ویڈیو میں چل رہے گانے کے بول ہیں ‘بھارت کا بچہ بچہ جئے جئے شری رام بولے گا’۔ ہر گھر میں ایک ہی نام، ایک ہی نعرہ گونجے گا۔’

پولیس نے بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کے سلسلے میں پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان کی شناخت گنیش پرجاپتی، سدھانت جیسوال، اشوک کمار، انل اور رمیش کے طور پر ہوئی ہے۔

اسی طرح کشی نگر کے کسیا کے بروا بازار حلقہ کے گاؤں میں نکالی گئی شوبھا یاترا پر مبینہ طور پر پتھراؤ کرنے کے الزام میں 10 مسلم مردوں اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

شکایت کنندہ اور گرام پردھان کے نمائندے گڈو مدیشیا نے یہ بھی الزام لگایا کہ جب کچھ بچوں کی شوبھا یاترا پرامن طریقے سے بازار ٹولہ علاقے سے گزر رہی تھی، تو مسلم نوجوانوں نے جئے شری رام کے نعرے پر اعتراض کیا اور جلوس میں شریک لوگوں پر لاٹھیوں سے حملہ کیا اور دشنام طرازی بھی کی۔

دی وائر کے ذریعے دیکھی گئی پولیس شکایت میں مدیشیا نے الزام لگایا کہ اس واقعے میں تین موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا اور چار سے پانچ بچے زخمی ہوگئے۔

ملزمین کی شناخت شوکت، صغیر، ریحان انصاری، جاوید انصاری، اجمل، وسیم، مولوی عارف رضا صدیقی، نوشاد، منصف اور اشتکار کے طور پر ہوئی ہے۔ ان کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 147 (فساد)، 323 (جان بوجھ کر چوٹ پہنچانا)، 336 (جان  کو خطرے میں ڈالنا)، 352 (حملہ)، 427 (نقصان پہنچانے والی شرارت) اور 504 (اشتعال انگیزی کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

تاہم، پولیس سپرنٹنڈنٹ کشی نگر دھول جیسوال نے کہا کہ پٹاخے پھوڑنے کو لے کر دونوں فریقوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ افسر نے کہا، ‘شوبھا یاترا پر پتھراؤ کی خبر جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔’

جیسوال نے مزید کہا کہ پولیس نے اس واقعے کے لیے چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور کیس کے تمام پہلوؤں کی تفتیش کی جارہی ہے۔

شاہجہاں پور میں  پولیس نے 24 جنوری کوکٹرا علاقے کے بتلیا گاؤں میں سڑک پر لگائے بھگوا جھنڈوں کی توہین کرنے کے الزام میں دو نابالغوں سمیت سات مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا۔

ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (دیہی) منوج کمار اوستھی نے کہا کہ پولیس نے پانچ لوگوں کو جیل بھیج دیا، جن کی شناخت محمد اقبال، امن، دلپکار، محمد شاہد اور تجو کے طور پر کی گئی ہے، جبکہ دو نابالغوں کو حراست میں لے کر جووینائل کورٹ میں پیش کیا گیا۔

افسر نے بتایا کہ ملزمین کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

شاہجہاں پور کے ایک اور واقعے میں پولیس نے  22 جنوری کو رام چندر مشن تھانہ حلقے میں ایک مسجد سے جھنڈا ہٹانے اور اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لگانے کے الزام میں تین لوگوں – انکت کٹھیریا، روہت جوشی اور روہت سکسینہ کو گرفتار کیا۔ تیسرا واقعہ بھی اسی علاقے میں رپورٹ کیا گیا تھا جہاں ایک شخص شری دت مشرا کے خلاف ہندو دیوتاؤں کی تصویروں کو جلانے کا ایک ویڈیو آن لائن پوسٹ کرنے کے لیے مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا گیا۔

شاہجہاں پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (سٹی) سدھیر جیسوال نے کہا، ‘اسے گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔’

مشرقی یوپی کے اعظم گڑھ میں حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے جب 22 جنوری کو جہان گنج میں شوبھا یاترا میں شامل ایک گاڑی مسلمانوں کی آبادی سے گزر رہی تھی، جس کے بعد جھگڑا شروع ہو گیا۔ پولیس نے صورتحال کو کنٹرول کرتے ہوئے تین افراد محمد زاہد، صغیر اور شاہنواز کو گرفتار کر کے ان کے پاس سے لاٹھیاں برآمد کیں۔

ایس پی سٹی اعظم گڑھ شیلندر لال نے بتایا کہ شوبھا یاترا کے مقررہ روٹ کو لے کرجھگڑا ہوا تھا،جس کے بعد دونوں طرف کے 40-50 نوجوان ایک دوسرے سے بھڑ گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر معاملہ کو ختم کیا۔

دوسری جانب، کانپور میں ایک ہندو طالبعلم پر مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگانے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سچینڈی علاقے میں پرنویر سنگھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (پی ایس آئی ٹی) کے ہاسٹل میں بھگوان رام کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ واقعے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 153 اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 295 اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا) اور 298 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے بیان بازی کرنا) کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

کیمپس میں جئے شری رام کے نعرے لگانے پر طلباء کو ہاسٹل وارڈن کو ڈانٹتے ہوئے دکھائے گئے  ایک ویڈیو کو بھی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔

کانپور کے جوہی علاقے میں ایک مسلمان طالبعلم، جس نے بھگوان رام اور رام مندر سمیت ہندو دیوی —دیوتاؤں کے لیے توہین آمیز گانوں کے ساتھ انسٹاگرام پرتصاویر پوسٹ کی تھیں،اس پر بھی اسی طرح کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

جوائنٹ پولیس کمشنر لاء اینڈ آرڈر آنند پرکاش تیواری نے بتایا ہے کہ پولیس نے دونوں معاملے کا نوٹس لیا ہے اور ضروری کارروائی کر رہی ہے۔ پولیس اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آئندہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

تیواری نے کہا کہ پولیس نے پی ایس آئی ٹی  انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مسلم لڑکے کے خاندان سے بھی بات کی ہے۔ سینئر پولیس افسر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قابل اعتراض پوسٹ کو دوبارہ پوسٹ، ری ٹوئٹ یا پھیلانے سے گریز کریں۔

کانپور میں ایک اور واقعہ میں 23 جنوری کو رام مندر کی پران — پرتشٹھا کی تقریب کے موقع پر ایک ہندو لڑکے کو دھمکی دینے کے بعد اس پر حملہ کرنے کے الزام میں تین مسلم نوجوانوں – جنید، سہیل اور حسنین اور دیگر چار پانچ – کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

بابوپوروا پولیس اسٹیشن میں سیما بسوکرما کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جنہوں نے شکایت میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے خلاف اپنی ہندو شناخت کو اجاگر کیا ہے۔

تاہم، ایڈیشنل ڈی سی پی انکتا شرما نے کہا کہ موٹر سائیکل روکنے پر دو لڑکوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

اس سے پہلے دی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آگرہ ضلع میں مغلیہ  عہد کی ایک مسجد کے اوپر اور اندر ہندوبھگوا جھنڈے لگانے کے الزام میں پولیس نے 11 لوگوں کو گرفتار کیا۔ یہ واقعہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ایودھیا میں رام مندر کی پران— پرتشٹھا کی تقریب کے مکمل ہونے کے فوراً بعد دائیں بازو کے کارکنوں کی طرف سے نکالی گئی شوبھا یاترا کے دوران پیش آیا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )