جنگ سے متاثرہ ملک اسرائیل میں پرکشش تنخواہ پر کنسٹرکشن انڈسٹری سے متعلق ملازمتوں کے لیے 10000 ہندوستانی کارکنوں کو بھیجنے کے لیے لکھنؤ میں ہوئے بھرتی کے عمل میں شامل لوگوں نے بتایا کہ وہ اسرائیل جانا چاہتے ہیں کیونکہ ہندوستان میں انہیں روزگار نہیں مل رہا ہے۔
لکھنؤ: اسرائیل جانے کے خواہشمند ہندوستانی کارکن بھرتی مہم میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے لکھنؤ کے انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) میں ہر صبح بڑی تعداد میں کھڑےنظر آتے ہیں۔
یہ مہم اس وقت سے چلائی جاری ہے جب سے اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد ہزاروں فلسطینیوں کے ورک پرمٹ کومعطل کر دیا، جس کی وجہ سے کارکنوں کی کمی ہوگئی ہے۔مبینہ سیکورٹی خطرات کے باوجود ہندوستانی کارکن ان ملازمتوں میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔
آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (اے آئی ٹی یو سی) اس بھرتی مہم کو نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے سالانہ دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے وعدے کی ناکامی کے طور پر دیکھتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کارکنوں کو جان کا خطرہ ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیلی اس بھرتی مہم کو شفاف نہیں رکھنا چاہتے ہیں، وہیں ان کے ہندوستانی ہم منصب زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لیے ضلعی لیبر دفاتر، سوشل میڈیا، اشتہارات وغیرہ کے ذریعے اس مہم کی تشہیر کر رہے ہیں۔
ملک کے مختلف حصوں سے شٹرنگ، آئرن ویڈنگ، سیریمک ٹائلنگ یا پلاسٹرنگ میں ہنر مند مزدور درخواست دے رہے ہیں۔ اتر پردیش حکومت نے اسرائیل میں 10000 نوکریوں کا اشتہار جاری کیا تھا۔
اسرائیلی سرکاری ایجنسی پاپولیشن، امیگریشن اینڈ بارڈر اتھارٹی (پی آئی بی اے) ان مزدوروں کو ماہانہ 136000 روپے سے 137000 روپے کے درمیان تنخواہ کی پیشکش کر رہی ہے۔ پی آئی بی اے کی بھرتی مہم کو نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایس ڈی سی) کی حمایت حاصل ہے۔
وزارت خزانہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے این ایس ڈی سی کو ایک غیر منافع بخش پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر قائم کیا ہے۔ منسٹری آف اسکل ڈیولپمنٹ اور انٹرپرینیورشپ (ایم ایس ڈی ای) کے ذریعےحکومت ہند کے پاس این ایس ڈی سی کی 49 فیصد شیئر پونجی ہے۔
دی وائر نے کچھ امیدواروں سے بات کی، جو اسرائیل میں نوکریوں کے لیے جاری بھرتی کے عمل میں شامل ہونے کے لیے آئی ٹی آئی لکھنؤ پہنچے تھے۔
سنبھل ضلع کے فوٹوگرافر پشپیندر کمار مایوس تھے کیونکہ بینک نے کیمرہ لینس خریدنے کے لیے لون کی ان کی درخواست کو منظور نہیں کیاتھا۔ اس کے بعد، انہیں ایک اخبار سے اسرائیل میں نوکری کے بارے میں پتہ چلا؛ وہ مقامی لیبر آفس گئے اور وہاں اپنا نام رجسٹر کروایا۔ کمار نے کہا کہ انہیں لیبر ڈپارٹمنٹ نے بھرتی مہم میں حصہ لینے کے لیے بھیجا تھا۔
کمار نے کہا، ‘ہاں، میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پیسہ کمانے کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال رہا ہوں۔ میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعات سے بخوبی واقف ہوں۔ اگر بینک نے میرے چھوٹے سے لون کو منظوری دے دی ہوتی تو میں اپنے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر کیوں جنگ سے متاثرہ ملک جانے کے بارے میں سوچتا؟’
پنجاب میں رہنے والے سمرن دیپ سنگھ کنسٹرکشن مزدور کے طور پر کام کرنے اسرائیل جانے کی کوشش میں لکھنؤ پہنچےتھے۔ وہاں جاری تنازعات کے بارے میں جاننے کے باوجود میٹرک تک تک پڑھے سنگھ نے کہا کہ وہ اسرائیل جانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں ہندوستان میں روزگار نہیں مل سکا۔
ایک اور نوکری کے خواہشمند دیپک کمار نے کہا کہ وہ جالون ضلع کے ایک بے حد کم آمدنی والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد مزدوری کرتے ہیں اور اینٹیں بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘میں گھر پر بے روزگار رہنے کے بجائے ریڈ زون میں رہنا پسند کروں گا۔ میرے لیے، جس کے پاس یہاں کوئی کام نہیں ہے، 1.36 لاکھ روپے کی تنخواہ بڑی بات ہے۔’
انہوں نے مزید کہا،’میں نے پیسہ کمانے کے لیے وہاں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ میری تمام تر کوششوں کے باوجود مجھے اب تک یہاں کوئی کام نہیں ملا۔ جب بھی میں اسرائیل سے وطن واپس آؤں گا، میں اپنی بچت اپنے آبائی شہر میں اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے استعمال کروں گا۔’
بڑھئی کے عہدے کے لیے انٹرویو دینے کے بعد اعظم گڑھ میں اپنے گھر واپس لوٹتے ہوئے آشیش مشرا نے دی وائر سے بات کی۔ انہوں نے کہا،’ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی بہت زیادہ ہے، یہاں صرف 8000-10000 روپے (ماہانہ) تنخواہ والی نوکریوں کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہے۔’
مشرا نے کہا، ‘مجھے بھروسہ نہیں ہے کہ انٹرویو کے نتائج کا اعلان کب کیا جائے گا۔’ تاہم، وہ اسرائیل میں نوکری پانے کے حوالے سے مطمئن ہیں، حالانکہ دوسرے امیدواروں کی طرح وہ بھی ملازمت کی شرائط و ضوابط سے لاعلم تھے۔ ان کے مطابق، اس بارے میں انہیں کسی نے نہیں بتایا۔
اس سے قبل قطر میں کام کر چکے بڑھئی ستیش کمار یادو نے کہا، ‘میں جانتا ہوں کہ اسرائیل میں جان کو خطرہ ہے، لیکن غریبی سے بڑا کوئی خطرہ نہیں ہے۔’
یادو گزشتہ سال جولائی میں قطر سے واپس آئے تھے، جہاں وہ ماہانہ 25000 روپے سے زیادہ کما رہے تھے۔ لیکن وہاں سے واپس آنے کے بعد سے وہ اب تک بے روزگار ہیں۔
دریں اثنا، اپوزیشن کانگریس نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جنگ اور تنازعات کے درمیان اسرائیل میں نوکری کے لیے بھرتی مہم سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور غریبی کے دور سے گزر رہا ہے، جیسا کہ آزادی سے پہلے کے دور میں دیکھا گیا تھا، جب مزدوروں کو جنگ زدہ خطے میں مواقع تلاش کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔
معاشی حالت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے لیے کانگریس کی یوپی یونٹ نے بھی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھرتی کےعمل کو فوراً روک دیا جائے۔
کانگریس کے رہنما شاہنواز عالم نے کہا،’مودی حکومت آج غریب شہریوں کو کام پر کیوں بھیج رہی ہے جبکہ اس نے چند ماہ قبل ہی جنگ کے دوران ‘آپریشن اجئے’ کے ذریعے ہندوستانی شہریوں کو اسرائیل سے باہر نکالا تھا۔ کسی بھی حکومت کو لوگوں کی معاشی حالت کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھرتی کے عمل کو فوراً روک دیا جائے۔’
کانگریس کے اقلیتی سیل کے رکن عالم نے کہا کہ طویل عرصے تک تنازعہ کی حالت میں کارکنوں کو بھیجنے کی تجویز شرمناک ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ملک کو غریب اور کمزور بنا دیا ہے۔ کانگریس نے اس مہم کو روکنے کے لیے ضلعی عہدیداروں کے ذریعے گورنر کو میمورنڈم بھی بھیجا ہے۔
آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (اے آئی ٹی یو سی) کے یوپی کے ریاستی جنرل سکریٹری چندر شیکھر نے کہا کہ جنگ کے دوران بھرتی کی یہ مہم مشکوک ہے اور انہوں نے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت مہاجر مزدوروں کی حفاظت کو نظر انداز کر رہی ہے۔
آئی ٹی آئی کے پلیسمنٹ آفیسر مظہر عزیز خان نے دی وائر کو بتایا کہ 23 جنوری کو کل 528 امیدوار اسکریننگ کے لیے حاضر ہوئے، جن میں سے 365 پاس ہوئے۔ یہ تعداد 24 جنوری کو بڑھ گئی، جب 795 امیدوار امتحان میں شریک ہوئے اور 531 کامیاب ہوئے۔ اسی طرح 25 جنوری کو امتحان دینے والے امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 1023 ہوگئی جن میں سے 799 کامیاب ہوئے۔
آئی ٹی آئی لکھنؤ کے پرنسپل راج کمار یادو نے کہا کہ اسرائیل اور ہندوستان دونوں کے حکام بھرتی مہم کی حمایت کرتے ہیں۔
یادو نے دی وائر کو یہ بھی بتایا کہ منتخب امیدواروں کو اسرائیل سے ویزا ملے گا اور انہیں چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے لے جایا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ‘10000 خاندانوں کو اچھا کھانا ملے گا اور وہ آگے بڑھیں گے۔’
اسرائیلی بھرتی ٹیم نے دی وائر سے بات کرنے یا بھرتی مہم، ملازمتوں کی شرائط و ضوابط یا کسی اور چیز کے بارے میں کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )
Categories: خبریں