مبینہ ادارہ جاتی امتیازی سلوک اور تفریق کے سبب روہت ویمولا اور پائل تڑوی کی خودکشی کے معاملے میں ان کی ماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی پر یو جی سی نے اس معاملے کی جانچ کے لیے 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اگرچہ کمیٹی کے ارکان کے پاس امتیازی سلوک اور ذات پات کی تفریق سے نمٹنے کا کوئی ٹریک ریکارڈ نہیں ہے، اور وہ بی جے پی کے قریبی ہیں۔
ممبئی: مبینہ ادارہ جاتی ذات پات کی تفریق کے سبب اپنے بچوں کو کھو دینے والی دو ماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی پانچ سال پرانی عرضی کے جواب میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے نو رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کمیٹی کے پاس اس کے حل سے زیادہ مسائل ہیں۔
ابیدہ تڑوی اور رادھیکا ویمولا نے یونیورسٹیوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تفریق سے نمٹنے کے لیے جوابدہی اور خاطر خواہ نظام یا طریقہ کا رکی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی دائر کی تھی۔
گزشتہ سال جولائی میں اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مسئلے کو ‘سنگین’ اور ‘حساس’ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد یو جی سی نے درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کے طالبعلموں کے لیے اپنے قوانین اور دستیاب اسکیموں پر از سر نو غور کرنے کے لیے ماہرین کی ایک 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کے بعد سے کمیٹی کی کم از کم تین بار بیٹھک ہو چکی ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین مہاراجہ کرشن کمار سنگھ جی بھاؤ نگر یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر شیلیش این زالا ہیں۔اس کے بہت سے ممبران کے پس منظر پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی تقرری تعلیمی میدان میں کیے گئے ان کے کام کے لیے نہیں کی گئی بلکہ ان کی سیاسی وابستگی کے سبب کی گئی تھی۔
مثال کے طور پر زالا کی تقرری کی ہی بات کرلیتے ہیں۔ بھاؤ نگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے سے پہلے وہ آر ایس ایس کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے نائب صدر تھے۔ وہ اپنی سیاسی وابستگی پر قائم رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں احمد آباد شہری انتخابات کے لیے پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کیا گیا تھا ۔
ایک اور رکن دہلی میں ستیہ وتی کالج (نائٹ کالج) کے کارگزار پرنسپل ڈاکٹر وجئے سنکر مشرا پر کالج کی تقرریوں میں ریزرویشن روسٹر پر عمل نہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا ۔
درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کوٹے کے تحت کام کرنے والے عملے کے ارکان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مشرا مبینہ طور پر سرکلر جاری کیا کرتے تھے، لیکن اس بات کا ذکر نہیں کرتے تھے کہ وہ ریزرو سیٹیں ہیں۔ مشرا جیسے شخص کو بورڈ میں شامل کرنے کا یو جی سی کا فیصلہ، وہ بھی اس وقت جب ان کے خلاف ذات پات کے امتیاز کی نشاندہی کرنے والے الزامات ہیں، سنگین سوال کھڑے کرتے ہیں۔
پچھلے سال مہاراشٹر کے بی جے پی ایم ایل سی کی ان شکایتوں کے بعد کئی ایس ٹی طالبعلموں نے عیسائیت یا اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ریزرویشن کے فوائد حاصل کیے تھے، ریاستی حکومت کی جانب سےایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اس قدم کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کو آدی واسی کمیونٹی کے تئیں حکومت کی بے حسی اور ان کے مذہبی عقائد پر سیاست کی بساط بچھانا بتایا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کے سربراہ سنت گاڈگے بابا امراوتی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور بی جے پی کے حامی سمجھے جانے والے ڈاکٹر مرلی دھر چاندیکر ہوں گے۔ اب چاندیکر یو جی سی کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔
تڑوی اور ویمولا کی طرف سے دائر کی گئی 700 سے زیادہ صفحات کی عرضی کے جواب میں یو جی سی کے ڈپٹی انڈر سکریٹری پرشانت دویدی نے ایک حلف نامہ داخل کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں ان کی وکیل دشا واڈیکر کے توسط سے داخل کی گئی عرضی میں یونیورسٹیوں میں طالبعلموں کو ذات پات کے زہریلے ماحول سے بچانے میں یو جی سی کی نااہلی کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اندرا جئے سنگھ اس معاملے میں سینئر وکیل ہیں۔
جنوری 2016 میں رادھیکا ویمولا کے بیٹے روہت ویمولا، جو حیدرآباد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر تھے، کو پانچ دیگر دلت طالبعلموں کے ساتھ اے بی وی پی کے رکن پر مبینہ حملے کے لیے یونیورسٹی ہاؤسنگ سہولت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ نکالے گئے طالبعلموں کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف اپنا احتجاجی مظاہرہ شروع کرنے کے کچھ دنوں بعد 17 جنوری 2016 کو روہت نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر اپا راؤ پوڈیلے، اس وقت کے بی جے پی ایم ایل سی این رام چندر راؤ اور اے بی وی پی کے دو ارکان (سشیل کمار اور رام کرشن) پر روہت کو خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن پولیس کوئی بھی کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔
وہیں، ڈاکٹر پائل تڑوی کی خودکشی کے معاملے میں ان کے سوسائیڈ نوٹ اور ان کی ماں ابیدہ تڑوی کی گواہی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ہراساں کرنے والے تینوں ملزمین – سینئر ڈاکٹروں ہیما آہوجہ، بھکتی مہارے اور انکیتا کھنڈیلوال— کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان کے خلاف 1200 صفحات کی ایک گمبھیر چارج شیٹ دائر کی گئی تھی۔ تینوں پر پائل کو تشدد کا نشانہ بنانے اور پورے ایک سال تک ذات پات کی بنیاد پر بدسلوکی کرنے کا الزام ہے۔
تڑوی کا تعلق بھیل (تڑوی ذیلی ذات) آدی واسی کمیونٹی سے ہے اور پائل شاید اپنی برادری کی پہلی خاتون تھیں جو ڈاکٹر بنیں۔ اس معاملے میں بھی ایڈوکیٹ واڈیکر ہی ابیدہ تڑوی کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
روہت اور پائل کی موت کے علاوہ عرضی میں گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستانی یونیورسٹیوں میں ہوئی کئی دیگر خودکشیوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔
اگرچہ ان میں سے صرف چند ہی اموات کو میڈیا میں کور کیا گیا تھا، جبکہ ان میں سےکئی دہلی کی انسائٹ فاؤنڈیشن نامی تنظیم ،جس کے صدر انوپ کمارہیں ، کے ذریعے کی گئی ایک آزادانہ تحقیق میں میں انکشاف ہوا تھا۔
فاؤنڈیشن نے ان معاملوں کا مطالعہ کیا تھا اور ان طالبعلموں کے تجربات کو دستاویزی شکل دی تھی، جنہیں خودکشی پر اکسایا گیا تھا۔
سال 2012 میں جب امتیازی سلوک، تفریق اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا، تب یو جی سی کو یو جی سی (اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مساوات کو فروغ دینے) کے ضوابط 2012 ، جسے ایکویٹی ریگولیشن بھی کہا جاتا ہے کو نوٹیفائی کرنے کے لیے مجبو رہونا پڑا تھا۔
ان ریگولیشن کے تحت تمام کالجوں/یونیورسٹیوں کو ادارے میں مساوات کے فروغ کی نگرانی کے لیے ایک مساوی مواقع سیل قائم کرنے اور مساوات کی خلاف ورزی میں امتیازی سلوک سے متعلق شکایات کی تحقیقات کے لیے ایک انسداد امتیازی افسر مقرر کرنے کی ضرورت تھی۔
اگرچہ یو جی سی نے کیمپس میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی شکایات کو دور کرنے کے ارادے سے ایکویٹی ضابطے متعارف کروائے تھے، لیکن درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ ضابطے کارآمد یا کافی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ ‘وہ شکایات کے ازالے کے لیے ایک آزاد نظام یا طریقہ کار فراہم نہیں کرتے ہیں، کیونکہ قواعد اور اپیل اتھارٹی کے تحت امتیازی سلوک مخالف افسران بالترتیب پروفیسر/ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ادارے کے سربراہ ہوتے ہیں۔’
یو جی سی کے حلف نامہ میں ڈپٹی انڈر سکریٹری پرشانت دویدی نے وہی اصول و ضوابط درج کیے ہیں جنہیں درخواست گزاروں نے کیمپس میں ذات پات سے نمٹنے کے لیے ‘ناکافی’ قرار دیا ہے۔
ایکویٹی ریگولیشنز میں ایک اور بڑی کمی یہ ہے کہ وہ فیکلٹی ممبران اور ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر ملازمین پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔
قوانین امتیازی سلوک کے شکار افراد کو ان کی شکایات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی ماحول سے بھی تحفظ نہیں دیتے ہیں۔ درخواست میں یہ مسائل اٹھائے گئے ہیں، لیکن یو جی سی اپنے حلف نامہ میں کوئی حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
درخواست میں حق اطلاعات قانون کے ذریعے وقتاً فوقتاً جمع کیے گئے بھرپور ڈیٹا کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی طرف سے دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی درخواست کے تحت سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق،2015-16 میں 800 سے زیادہ یونیورسٹیوں میں سے صرف 155 نے یو جی سی کو اپنی ایکشن ٹیکن رپورٹس (اے ٹی آر) سونپی تھی۔
اسی طرح، ایک اور آر ٹی آئی سے پتہ چلتا ہے کہ 2017-18 میں 800 سے زیادہ یونیورسٹیوں میں سے صرف 419 نے اپنے اے ٹی آر فائل کیے ہیں۔ یو جی سی نے ان کے اے ٹی آر شاید ہی جمع کیے ہیں اور ایکویٹی ضوابط کی تعمیل کرنے میں ناکام یونیورسٹیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
مختلف یونیورسٹیوں سے جمع کیے گئے ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سی یونیورسٹیوں کے پاس آج تک امتیازی سلوک کے معاملے سے نمٹنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور کچھ معاملات میں مجرموں کو محض ‘وارننگ’ دے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
Categories: فکر و نظر