خبریں

اتراکھنڈ: مدرسہ گرانے کو لے کر ہوئے تنازعہ کے بعد تشدد میں دو کی موت، شوٹ ایٹ سائٹ کے آرڈر

ہلدوانی میں میونسپل کارپوریشن کی جانب سے بن بھول پورہ علاقے میں ایک مدرسہ کو ‘تجاوزات’ قرار دیتے ہوئے توڑنے کی کارروائی کے بعد علاقے میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ضلع انتظامیہ نے دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ معلوم نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

(تصویر بہ شکریہ: ایکس)

(تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی: اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں کے ذریعے ایک مدرسے کو مسمار کرنے کے تنازعہ میں ہوئے تشدد کے بعد پولیس کی فائرنگ میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے کئی طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں، حالانکہ ضلع مجسٹریٹ نے جمعہ کی دوپہر تک صرف دو اموات کی تصدیق کی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ 8 فروری (جمعرات) کی دو پہر تقریباً 3:30 بجے، اہلکار بلڈوزر لے کر بن بھول پورہ علاقے کے ‘ملک کے بغیچے’ کا مدرسے توڑنے پہنچے۔ وہاں موجود لوگوں نے دی وائر کو بتایا کہ نہ تو انہیں انہدامی کارروائی کا کوئی آرڈر دکھایا گیا اور نہ ہی اہلکار ان کی بات سننے کو تیار تھے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ اہلکاروں نے مدرسہ کوتوڑنے کے آرڈر کےدستاویز دکھانے سے انکار کر دیا تھا۔

ایک عینی شاہد نے دی وائر کو بتایا، ‘مرد پولیس اہلکاروں نے خواتین کو لاٹھیوں سے پیٹا اور علاقے میں فائرنگ سے کم از کم چار افراد زخمی ہوئے ہیں۔’

معلوم ہو کہ حکام کی جانب سے مدرسہ کو گرانے سے قبل ہنگامی طور پر صرف دو افراد کو اندر سے مذہبی کتابیں وغیرہ نکالنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم، لوگوں کی طرف سے حکام سےاس کو توڑنے کا آرڈر دکھانے کی درخواست کے باوجود وہ جبراً آگے بڑھے، جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی۔

مذکورہ عینی شاہدنےمزید کہا کہ علاقے کے کچھ لوگوں کی جوابی کارروائی کی وجہ سے کچھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں، ‘لیکن خواتین نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟’

توڑا گیا مدرسہ ریلوے کالونی کے علاقے میں ہے، جہاں 4000 سے زائد خاندان رہتے ہیں۔ مرکزی حکومت ریلوے کی توسیع کے لیے زمین چاہتی ہے اور اس کیس کی سماعت پہلے ہی سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔

قبل ازیں موصولہ اطلاعات کے مطابق، علاقے میں دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور سکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔

نیوز ایجنسی اے این آئی نے بتایا، ‘ڈی ایم، نینی تال نے بن بھول پورہ میں کرفیو نافذ کر دیا ہے اور فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا ہے۔’

مقامی لوگوں نے بتایا کہ جمعرات کی رات بھی پولیس فائرنگ ہوئی تھی۔ ایک عینی شاہد نے کہا، ‘جب ہم اپنے گھروں کے اندر تھے، تو پولیس نے ہمارے دروازوں پر بھی فائرنگ کی۔ ہم خوف میں جی رہے ہیں، یہ سب بند ہونا چاہیے۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق، بن بھول پورہ علاقے میں مبینہ طور پر نزول کی زمین پر ایک مسجد اور ایک مدرسہ تھا، جہاں جمعرات کو انہدامی کارروائی  شروع ہونے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ علاقے میں پتھراؤ، کاروں کو جلانے اور پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

جمعہ کو میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے نینی تال کی ڈی ایم وندنا سنگھ نے کہا کہ یہ کسی خاص املاک کو نشانہ بنانے والی انہدامی مہم نہیں تھی۔ گزشتہ 15-20 دنوں سے سڑکوں سے ٹریفک کم کرنے اور میونسپل پراپرٹی کے حوالے سے ایک مہم چل رہی تھی۔

انہوں  نے مزید کہا کہ ‘سب کو نوٹس دیے گئے تھے اور انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیا گیا تھا۔ کچھ لوگ ہائی کورٹ بھی پہنچے، کچھ لوگوں کو (عدالت سے) زیادہ وقت ملا اور کچھ کو نہیں دیا۔ جن مقامات کو زیادہ وقت نہیں دیا گیا، وہاں انہدامی کارروائیاں کی گئیں۔ اسی سلسلے میں ان دو مقامات—جنہیں کچھ لوگ مدرسہ اور مسجد کہتے ہیں، لیکن قانونی دستاویزوں میں اس کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں، اس پر نوٹس بھی چسپاں کیے گئے تھے ، جس میں انہیں تین دن میں تجاوزات ہٹانے کو کہا گیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ جائیداد پر کوئی اسٹے نہیں لگاہے اور نہ ہی کسی کو جائیداد پر کوئی قانونی حق حاصل ہے۔

مرنے والوں کی تعداد، موت کی وجہ معلوم نہیں

اخبار کے مطابق، سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) پرہلاد نارائن مینا نے کہا، ‘پولیس کی طرف سے کوئی غیر ضروری طاقت استعمال نہیں کی گئی۔ زخمی ہو رہے ہیں اور اموات ہو رہی ہیں – اس کے پیچھے کی وجہ بھیڑ ہے جو حکومت کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تھانے اور پولیس پر حملہ کر رہی ہے۔ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔ دو اموات ہوئی ہیں، ہم تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ ہم لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجیں گے۔ تین افراد شدید زخمی ہیں جن میں سے ایک کو گولی لگی ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہلدوانی میں تقریباً 1100 پولیس اہلکار موجود ہیں۔

قبل ازیں، اے این آئی نے ریاست کے اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر) اے پی انشومان کے حوالے سے کہا تھاکہ تشدد سے متاثرہ بن بھول پورہ میں چار افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

صورتحال کو واضح کرتے ہوئے ڈی ایم نے کہا، ‘ابتدائی طور پر ہمیں چار اموات کی اطلاع ملی تھی۔ جب ہم نے ہلدوانی کے اسپتالوں سے معلومات اکٹھی کیں تو ہمیں کرشنا اسپتال سے دو اور سشیلا تیواری اسپتال (ایس ٹی ایچ) سے دو لاشوں کی اطلاع ملی، جس کی وجہ سے ابتدائی معلومات چار لاشوں کی تھیں۔ جب ہم نے اس کی تصدیق کی تو ہم نے پایا کہ کرشنا ہسپتال نے انہیں (متاثرین) بھرتی  نہیں کیا تھا اور انہیں ایس ٹی ایچ بھیج دیا تھا۔ انہی موتوں کو دونوں ہسپتالوں میں گنا گیا۔ سرکاری معلومات کے مطابق دو اموات ہوئی ہیں۔’

دوسری جانب وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی کو اکسایا نہیں گیا لیکن آدھے گھنٹے کے اندر اندر کچھ سماج دشمن عناصر اکٹھے ہو گئے اور چھتوں سے میونسپل کارپوریشن کی ٹیموں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پتھر اس وقت جمع کیے گئے جب قانونی کارروائی  چل رہی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاستی مشینری کو پست کرنے کے لیے ایک منصوبہ بند حملہ تھا۔