حالیہ جی ایس ٹی تنازعہ نے سینٹرلائزیشن اور علاقائی خود مختاری کے مابین نازک توازن کو اجاگر کر دیا ہے۔ کرناٹک، کیرالہ اور تمل ناڈو کے سیاسی جماعتوں کے رہنما ٹیکس کی منتقلی میں جنوبی ریاستوں کے ساتھ مبینہ ناانصافی کے سلسلے میں مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مرکز پر ریاستوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام ہے۔
وسائل کی منصفانہ تقسیم، خصوصی طور پر ‘گڈز اینڈ سروسز ٹیکس’ (جی ایس ٹی) سے متعلق، مرکزی حکومت اور ہندوستان کی کئی جنوبی ریاستوں کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
مشاورت کے تقریباً 25 سال بعد 2017 میں متعارف کرائے گئے جی ایس ٹی ٹیکس کے پس پردہ اقتصادی ضرورت مرکزی اور ریاستی سیلز ٹیکس کی ایک سیریز کو ہٹا کر ہندوستان کےٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنانا تھا۔
حالیہ جی ایس ٹی تنازعہ نے سینٹرلائزیشن اور علاقائی خود مختاری کے مابین نازک توازن کو اجاگر کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں پیش کردہ دلائل ‘مالیاتی وفاقیت’ اور ‘سینٹرلائزیشن’ کے درمیان، ٹیکس کے ریاستی ذرائع کو برقرار رکھنے اور مزید مربوط ٹیکس نظام بنانے کے درمیان مسابقتی منطق کی عکاسی کرتے ہیں۔
موجودہ منظر نامے میں مرکز کے پاس سینٹرل ایکسائز، کسٹم ڈیوٹی اور سروس ٹیکس سمیت کچھ بالواسطہ ٹیکس لگانے اور جمع کرنے کا اختیار ہے۔
دوسری طرف، ریاستیں ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (ویٹ)، سینٹرل سیلز ٹیکس (سی ایس ٹی) اور اسٹیٹ ایکسائز جیسےٹیکس جمع کرتی ہیں۔ مزید برآں، ریاستیں اپنے دائرہ اختیار میں مقامی اداروں کے ذریعے انٹری ٹیکس، انٹرٹینمنٹ ٹیکس اور لگژری ٹیکس جیسے دیگر بالواسطہ ٹیکس لگا سکتی ہیں۔
کرناٹک، کیرالہ اور تمل ناڈو کے سیاسی رہنما ٹیکسوں کی منتقلی میں جنوبی ریاستوں کے ساتھ مبینہ ناانصافی کے سلسلے میں مرکز کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جسے مین اسٹریم میڈیا میں ‘ساؤتھ ٹیکس موومنٹ’ کا نام دیا گیا ہے۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا مالیاتی وفاقیت کے تحفظ کی ضرورت پر زور دینے والے ‘ساؤتھ ٹیکس موومنٹ’ میں سب سے آگے رہے ہیں۔ کرناٹک کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں ٹیکس کی منتقلی میں 4.71 فیصد سے 3.64 فیصد تک کمی کی وجہ سے 62098 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
اس معاملے پر حمایت دینے کا وعدہ کرتے ہوئے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے مرکز پر الزام لگایا ہے کہ وہ ریاستوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور ان کی مالی خودمختاری کو دبانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 293 کے تحت طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے الزام لگایا ہے کہ ریاست کو جی ایس ٹی سے 100 فیصد حصہ اور آئی جی ایس ٹی سے 50 فیصد حصہ ملنے کے مرکزی حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں۔ اگرچہ حالیہ خبروں میں واضح طور پر تذکرہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن تلنگانہ تاریخی طور پر جی ایس ٹی اور مالیاتی وفاقیت کی مرکزی بحث کا حصہ رہا ہے۔
جی ایس ٹی ریونیو کی منصفانہ تقسیم اور اگلے پانچ سالوں تک معاوضے کو جاری رکھنے پر جنوبی ریاستی حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ریاستوں نے مئی 2022 کے سپریم کورٹ کے فیصلے (یونین آف انڈیا بنام میسرز موہت منرلز پرائیویٹ لمیٹڈ) کا بھی حوالہ دیا کہ جی ایس ٹی کونسل کی سفارشات محض محرک قدر ہیں اور مرکز اور ریاستوں پر اس کی پابندی نہیں ہے۔
گجرات ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے،جس میں انٹیگریٹڈ جی ایس ٹی (آئی جی ایس ٹی) کے نفاذ کو ختم کردیا گیا تھا، سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 246 اے (گڈز اینڈ سروسز ٹیکس سے متعلق خصوصی اہتمام) متعین کرتا ہے۔ پارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلیوں دونوں کے پاس جی ایس ٹی پر قانون بنانے کا ‘مشترکہ’ اختیار ہے۔
اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستوں کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ ریاستوں کو جی ایس ٹی ڈھانچے میں لچک کی اجازت دیتا ہے، لیکن مرکزی حکومت کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے جی ایس ٹی کے ادارہ جاتی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مرکزی حکومت نے لیگل پیورٹی اور کوآپریٹیو وفاقیت پر زور دیتے ہوئے جی ایس ٹی پر اپنے موقف کا مسلسل دفاع کیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ مرکز فنڈز جاری کرنے میں کسی بھی غیر بی جے پی حکومت والی ریاست کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر رہا ہے، وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ منتقلی مکمل طور پر مالیاتی کمیشن کی سفارش پر مبنی ہے۔
وزیر خزانہ نے ساؤتھ ٹیکس موومنٹ کے لیڈروں پر ‘علیحدگی پسند’ ذہنیت رکھنے اور ‘جھوٹی کہانی’ پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
پندرہویں مالیاتی کمیشن کی سفارش کے مطابق، مرکز کے قابل تقسیم ٹیکس پول کا 41 فیصد ریاستوں کو منتقل کیا جاتا ہے۔ تاہم، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستوں کے ساتھ مشترکہ ٹیکس کا حصہ گزشتہ چار سالوں میں تقریباً 35-36 فیصد رہا ہے۔
اس کے علاوہ،کم آبادی والی اور مالی طور پر مضبوط جنوبی ریاستوں کے لیے ٹیکس کی منتقلی کا حصہ کم ہوتا ہے، جبکہ کچھ شمالی ریاستیں، جو کہ کمزور اور زیادہ آبادی والی ہیں، ریونیو کا بڑا حصہ ملتا ہے۔
مرکز نے بتایا کہ مالیاتی کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور وہ نئے تشکیل شدہ 16ویں مالیاتی کمیشن کی سفارشات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے، جس میں ‘منتقلی کے فیصد میں اضافہ بھی شامل ہے۔’
عبوری نفاذ کے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں ٹیکسوں کو منطقی بنانے کے لیے لائے گئے جی ایس ٹی کو بڑے پیمانے پر کاروباری برادری کی طرف سے قبول کیا جا رہا ہے۔
مرکزی وزیر خزانہ اور ریاستوں کے وزرائے خزانہ پر مشتمل، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جی ایس ٹی کونسل ایک نمائندہ اور مشاورتی آئینی ادارہ ہے۔
ہندوستان کا جی ایس ٹی ڈھانچہ تین اہم ستونوں پر بنا ہے – محصولات کی غیرجانبداری، مرکز اور ریاستوں کے درمیان ٹیکس کا اشتراک اور جی ایس ٹی کونسل کے تعاون سے معاوضے کا اہتمام، ‘کوآپریٹو وفاقیت’ کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
جی ایس ٹی کونسل کے تال میل اور تنازعات کے تصفیہ کے طریقہ کار کے ذریعے اور ریاستوں کو غیر مشروط گرانٹ کا ایک بڑا حصہ سونپ کر، ریاست کی خود مختاری کو عملی طور پر محفوظ رکھا گیا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جی ایس ٹی پر بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
کونسل میں سیاسی جماعتوں میں عدم اعتماد کی وجہ سے جی ایس ٹی کونسل کا کام کاج خطرے میں ہے۔ اس کی کامیابی کا انحصار وفاقی حکومت اور ریاستوں کے درمیان وسیع پیمانے پر ہم آہنگی پر ہوگا۔
(ویشالی اسٹریٹجک اور اقتصادی امور کی تجزیہ کار ہیں۔)
Categories: فکر و نظر