کیا واقعی سڑکوں پر ہر طرح کی مذہبی تقریبات پر پابندی لگا سکتے ہیں؟ پھر تو بیس منٹ کی نماز سے زیادہ ہندوؤں کی سینکڑوں مذہبی تقریبات متاثر ہونے لگ جائیں گی، جو کئی دنوں تک جاری رہتی ہیں۔ پابندی لگانے کی بے چینی سڑکوں کے انتظام کو بہتر بنانے کی خواہش بالکل نہیں ہے، بلکہ ایک کمیونٹی کے تئیں تعصب اور زہر اگلنے کی ضد ہے۔
کیا ہندوستان میں سڑکوں پر مذہبی تقریبات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ کیا ایسا کوئی قانون تمام مذاہب کی تقریبات پر بیک وقت اور یکساں طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا شایدایک جواب نہیں ہو سکتا، لیکن اس سوال کی اشتعال انگیزی کے وقت کو ہم ضرور محسوس کر سکتے ہیں۔ سڑکوں پر مظاہروں سے لے کر نماز پڑھنےکی مخالفت کے پس پردہ اٹھنے والی آوازوں کو ہمیں اچھی طرح سننا چاہیے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پچھلے دس سالوں میں سڑکوں سے متعلق سیاسی معاملے میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔
ٹول ٹیکس سے لے کر خراب سڑکوں پر جتنی بات نہیں ہوتی ہے، اس سے زیادہ اس پر بات ہوئی ہے کہ سڑک پر نماز کیوں پڑھی جارہی ہے۔ نماز کے وقت ہی سڑک کے استعمال کا سوال کیوں شدت اختیار کرتا ہے؟
سڑکوں کے حوالے سے سیاست ہوتی رہی ہے لیکن فرقہ وارانہ سیاست کے لحاظ سے سڑکوں کی سیاست کا رجحان مختلف ہے۔ کس طرح کے لوگوں کو سڑکوں سے ہٹایا جائے اور انہیں رسائی نہ دی جائے اس کا فیصلہ سیاست کے ساتھ ساتھ کلاس کے پاور سے بھی ہوتا ہے۔ سپر ایکسپریس وے بنانے کے لیے کسانوں کی زمین لی جاتی ہے، لیکن جب ایکسپریس وے تیار ہو جاتا ہے تو بیل گاڑی اور موٹر بائیک کو اس پر جگہ نہیں دی جاتی۔ یہ بالکل درست ہے کہ 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی کار کے درمیان بائیک چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی لیکن بیل گاڑی، ٹریکٹر، بائیک اور سائیکل کے لیے لین کیوں نہیں بنائی گئی؟ لہذا، دو پہیہ گاڑی چلانے والوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ حادثات ہوتے ہیں۔
اسی طرح شہروں کے اندر سڑکوں سے فٹ پاتھ غائب ہو گئے۔ پیدل چلنے والوں کے حقوق کو ختم کر دیا گیا ہے اور اسی دہلی میں لاکھوں سائیکل سواروں کے لیے کوئی لین نہیں ہے۔ میں یہ مثال یہ بتانے کے لیے دے رہا ہوں کہ سڑک اتنی بھی عوامی اور جمہوری جگہ نہیں ہے۔
ہندوستان میں سڑکوں پر ایک خاص طبقے کا دبدبہ رہا ہے، جسے ہم عام طور پر کار والا کلاس کہتے ہیں۔ دہلی جیسی راجدھانی میں ایمبولینس کو راستہ دینے کے لیے کتنی طویل مہم چلائی گئی، اس میں بہتری آئی ہے لیکن آج بھی لوگ ایمبولینس کو راستہ دینا بھول جاتے ہیں۔ وزیراعظم کے قافلے میں ایمبولینس کو راستہ دینے سے کتنی پبلسٹی ہوئی، گویا کوئی احسان کیا گیا ہو، جبکہ یہ تو فطری طور پر ہونا چاہیے کہ قافلہ کسی کا بھی ہو، ایمبولینس کو راستہ سب سے پہلے ملے گا۔
ہندوستان میں سڑکوں کا ڈیموکریٹائزیشن انتہائی تنگ نظری کے ساتھ ہوا ہے۔ اگر آپ صرف بلا روک ٹوک ٹریفک کے لیے جگہ کے طور پر بھی دیکھیں، تو اس میں بھی شدید بے ایمانی نظر آئے گی۔ تاہم یہ سمجھنا ہوگا کہ سڑکیں صرف دفتر اور اسپتال جانے کے لیے استعمال نہیں ہوتیں۔ اس کا استعمال سو طرح کی جمہوری اور مذہبی سرگرمیوں کے لیے بھی ہوتا ہے اور ہوگا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا روڈ شو ہو سکے اس کے کے لیے کئی گھنٹے تک کسی شہر میں سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ راہل گاندھی کا روڈ شو چل رہا ہے۔ اس کے لیے بھی ایک روٹ کا منصوبہ بنتا ہے اور سڑک بندی کی جاتی ہے۔ روڈ شو آج کی سیاست کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ انتخابی جلسوں کے دوران ملک بھر میں سڑکوں کا استعمال اور ان کا انتظام بالکل بدل جاتا ہے۔ دو ماہ تک کئی ریاستوں میں کئی سڑکیں ریلیوں کی وجہ سے متاثر رہیں گی۔ بند بھی ہوں گی اور روٹ کا ڈائیورشن بھی گا۔
جس طرح سڑک پر نماز پڑھنے کو لے کر بے چینی ہو رہی ہے، کیا اس وقت ہوتی ہے جب وزیر اعظم مودی اور راہل گاندھی کے روڈ شو کے لیے کسی سڑک کو گھنٹوں بند کیا جاتا ہے۔ نماز صرف بیس منٹ کی ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ تیس — چالیس منٹ کے لیے سڑک کا ایک حصہ بند کیا جاتا ہوگا۔ اسی طرح لوگ گنگا اشنان کرنے کے لیے سڑک کا استعمال کریں گے اور روایتی میلے میں جانے کے لیے پیدل چل کر جائیں گے۔ کسان تو نماز نہیں پڑھ رہے تھے، پھر انہیں روکنے کے لیے سڑک کو ہفتوں تک بند کیوں گیا؟
دہلی کی سرحد نومبر 2020 سے نومبر 2021 تک بند کر دی گئی۔ کیونکہ کسانوں کو دہلی آنے سے روکنا تھا۔ حکومت نے کسانوں کو روکنے کے لیے سڑکوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے؟ اپنی ہی بنائی ہوئی سڑک میں گڑھے کھودنے سے لے کر سیمنٹ کی دیواریں بنانے میں لگ گئی ۔ کیا ایسا کرنے سے لوگوں کو پریشانی نہیں ہوئی؟ مہاراشٹر میں مراٹھا ریزرویشن کے لیے کتنا لمبا مارچ نکلا، لیکن اس کے لیے سڑک میں گڑھے نہیں کھودےگئے۔ کیلیں نہیں ٹھونکی گئیں۔ مگر کسانوں کے ساتھ ایسا کیا گیا۔
اگر سب کے لیے سڑکوں کے مذہبی اور سیاسی استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے تو کیا حکومت اپنی مرضی کے مطابق سیاست کر سکے گی؟ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکومت کو سڑکوں کے حوالے سے سیاست کرنے کا حق ہو سکتا ہے تو عوام کو کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
سڑک کس کے لیے بند ہوگی اس کا کوئی ایک پیمانہ نہیں ہو سکتا۔ مذہب کی بنیاد پر بھی اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا اور سیاست کی بنیاد پر بھی نہیں۔ اگر مذہب کی بنیاد پر سڑکوں پر رکاوٹ نہیں آ سکتی تو سیاسی جلسوں کے لیے کیسے بند کریں گے۔ اس لیے آئین کی بعض شقوں اور سول سوسائٹی کے مسائل کی آڑ میں سڑکوں پر تمام مذاہب کے پروگراموں پر پابندی لگانے کے مطالبے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان ہوں یا کسان یا کوئی شہری تنظیم، حکمران جماعت کے حامی نہیں چاہتے کہ سڑکوں کا جمہوری طریقے سے استعمال ہو۔ یہ جو اچانک سڑک کے حوالے بیداری آئی ہے، اس کے پیچھے کی فرقہ وارانہ اور غیر جمہوری سیاسی سوچ کو ٹھیک سے دیکھنا چاہیے۔
دہلی پولیس کے افسر منوج کمار تومر نے سجدے کی حالت میں نمازیوں کو لات ماری۔ یہ انتظامی ذمہ داری کے تحت کیا گیا کوئی عمل نہیں تھا، جس کو انجام دینے میں کوئی غلطی ہوگئی یا زیادتی ہوگئی۔ سجدے میں جھکےشخص کو پیچھے سے لات مارنا اس سوچ کی کوکھ کی زائیدہ ہے جو مسلمانوں کے بارے میں دن رات پھیلائی جاتی ہے۔ دہلی پولیس نے لات مارنے یا تھپڑ مارنے کی وجہ سے ہی منوج کمار تومر کے خلاف کارروائی نہیں کی ہوگی۔کئی لوگوں نے اس پہلو کو سمجھا ہے اور مذمت کی ہے مگر کئی لوگ اب بھی معصوم بن رہے ہیں۔ منوج کمار تومر کو غلط بول کروہ فوراً سڑک پر نماز پڑھنے کے سوال پر آ جاتے ہیں جیسے تومر نے جو کیا وہ اس غلطی کی وجہ سے کیا۔ یعنی غلطی پہلے مسلمان کر چکے تھے، اسے ٹھیک کرنے کے لیے منوج کمار تومر نے لات چلا دی ۔ کئی لوگ لیکچر دے رہے ہیں کہ سڑک پر نماز کیوں پڑھی جا رہی ہے؟
کیا واقعی آپ ایک ساتھ سڑکوں پر ہر قسم کی مذہبی تقریبات پر پابندی لگا دیں گے؟ پھر تو بیس منٹ کی نماز سے زیادہ ہندوؤں کی سینکڑوں مذہبی تقریبات متاثر ہونے لگ جائیں گی، جو کئی دنوں تک جاری رہتی ہیں۔ پابندی لگانے کی بے چینی سڑکوں کے انتظام کو بہتر بنانے کی خواہش نہیں ہے، ایک کمیونٹی کے تئیں تعصب اور زہر اگلنے کی ضد ہے۔
صرف سڑک پر نماز سے دقت نہیں ہے۔ چلتی ٹرین میں کسی نے نماز پڑھ لی تو کیا دقت ہوگئی؟ زمانے سے لوگ پڑھتے رہے ہیں اور کسی کو فرق نہیں پڑتاتھا، لیکن اب ویڈیو بن جاتا ہے اور ٹی وی پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور نمازی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مال میں پڑھ لیتا ہے تو اس کا ویڈیو بنایا جاتا ہے، نفرت پھیلائی جاتی ہے اور ہنگامہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ مال یا کوچنگ سینٹر کے اندر کسی کونے میں نماز پڑھنے سے بھی ٹریفک جام ہوجا تا ہے کیا؟
ابھی ہم نے دیکھا کہ رام مندر کے درشن کے لیے جارہے ہوائی جہازوں میں بھجن گائے گئے، جئے شری رام کے نعرے لگائے گئے۔ کیا تب کوئی ہنگامہ ہوا، خاص طور پر ان لوگوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ٹرین میں زمانے سے لوگ کیرتن اور بھجن کرتے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے ٹرین کے سفر کا ایک حصہ رہا ہے۔ اس پر پابندی لگانے کا خیال عجیب ہے۔ پھر تو لوگ ٹرین میں انتاکشری بھی نہیں کھیل سکتے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ آپ سڑکوں کو ہندوستان میں جمہوری اور مذہبی سرگرمیوں سے الگ نہیں کر سکتے۔ کمبھ کے دوران پریاگ راج آنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے سڑکوں پر کتنے طریقے کے بیریکیڈ بنائے جاتے ہیں۔ انتظامیہ اس کام میں ٹکنالوجی سے لے کر سائنس تک سو طریقے اپناتی ہے اور لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے۔ سینکڑوں فوجیوں کو تعینات کرتی ہے۔ کئی راستے پوری طرح سے بند کیے جاتے ہیں، کچھ جزوی طور پر بند کیےجاتے ہیں اور کئی کے راستے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ میلہ ہے۔ گنگا اشنان ہے۔ لوگ اسی سڑک سے جائیں گے اور کئی کلومیٹر پیدل ہی جائیں گے۔ آج انتظامیہ یہ کام بہتر انداز میں کرتی ہے لیکن دو دہائی پہلے اتنی مہارت نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ کمبھ کی تقریب بہتر ہوتی جارہی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ کمبھ کو سڑک سے الگ کر دیا جائے، حماقت ہے۔
نمازیوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے یہ اس پر چھپ کر مزہ لینے کی گھٹیا سوچ ہے۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ وہ صرف نماز بند کرانے کی ہی بات کر رہے ہیں، ادھر ادھر کی باتیں تو صرف دکھاوے کے لیے ہیں۔
کانوڑ یاترا کے دوران سڑکیں مہینے بھر کے لیے بند رہتی ہیں۔ سڑک کے کنارے یاتریوں کے آرام کے لیے ٹینٹ بنائے جاتے ہیں۔ آپ یہ لیکچر نہیں دے سکتے کہ کانوڑ یاترا کے دوران سڑک کے کنارے ٹینٹ نہ لگے۔ٹینٹ کے آگے بیریکیڈسے سڑک نہ گھیری جائے۔ شہروں میں اب جگہ نہیں ہے کہ سڑک سے دورٹینٹ لگ جائیں ، اس لیے ٹینٹ سڑک پر ہی لگے گا۔ کانوڑ یاتری پیدل جاتے ہیں۔ ان کے لیے سڑک بند کرنی ہی ہوگی۔ تیز رفتار گاڑیوں کی وجہ سے حادثات کا خطرہ رہتا ہے اور ان تمام انتظامات کے بعد بھی کانوڑ یاتری مارےجا تے ہیں۔ آج انتظامات بہتر ہوئے ہیں، اسی سڑک پر ہوا ہے اور کانوڑ یاتریوں کے تئیں نظریہ بھی بدلا ہے۔
مجھے یاد ہے جب دہلی آیا تھا تو لوگ ان کانوڑ یاتریوں سے خوفزدہ نظر آتے تھے کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہوتاتھا۔لوگ ڈنڈوں اور ہاکی اسٹک کو دیکھ کر کیا کیا باتیں کرتے تھے کہ یہ یاتری نہیں ہیں، ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، یہ غنڈے ہیں، بدمعاش ہیں۔ آپ دو دہائی پہلے کے انگریزی اخبارات میں کانوڑیوں کے بارے میں رپورٹنگ دیکھیں تو آپ کو ایسی ہی آوازیں ملیں گی۔
میں جس ماحول سے میں دہلی آیا تھا، اس کے حساب سے کانوڑ یاتریوں کو دیکھنے لگا۔ بہار میں بھی لوگ کانوڑ لے کر پیدل جاتے تھے، لیکن وہاں تو کوئی ایسا نہیں کہتا تھا، دہلی میں ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ ہر بار لگتا تھا کہ چلتے چلتے تو ان کے پاؤں میں زخم ہوگئے ہیں اور خون بہہ رہا ہے، پھر ان کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کہی جاتی ہیں؟ کانوڑیوں کے ہاتھ میں ڈنڈا تو اس لیے ہوتا ہے اس کے بغیر وہ چل بھی نہیں سکتے۔ دوسری بات یہ کہ پہلے زمانے میں سڑک پر حفاظت کم ہوتی تھی اور سڑکیں بند نہ ہونے کی وجہ سے حادثات زیادہ۔ ایسے میں یاتری گروپ میں چلتے تھے اور حادثہ ہونے کی صورت میں گاڑی یا ٹرک ڈرائیوروں سے تصادم ہو جاتا تھا۔ تشدد بھی ہوتا تھا۔
کانوڑ یاترا کے لیے مہینے بھر کے لیے سڑکیں بند کی جاتی ہیں اور راستے تبدیل کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ کیا کانوڑ یاترا پوری طرح بند ہو سکتی ہے؟ اس دلیل کے ساتھ کہ سڑک پر کوئی مذہبی تقریب نہیں ہونی چاہیے؟ ایسا کہنا بے وقوفی اور گستاخی ہوگی۔ کانوڑ یاترا جب بھی ہوگی، پیدل ہو گی اور سڑکوں کا استعمال کیا جائے گا۔ تو نماز کے بہانے جو لوگ سڑکوں پر ایک بھی مذہبی سرگرمی نہیں ہونے کا لیکچر دے رہے ہیں وہ جان بوجھ کر ان تمام پیچیدگیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
آج پولیس انتظامیہ نے کانوڑ یاترا کے لیے کافی بہتر انتظامات کیے ہیں۔ پہلے کے مقابلے مسائل اور تنازعات میں بھی کمی آئی ہے۔ کانوڑ یاترا کے دوران گوشت کی فروخت پر پابندی ہے۔ اس کا سڑکوں سے کوئی تعلق نہیں، لیکن اس سے سب سے زیادہ کون متاثر ہوتا ہے، کس کمیونٹی کے لوگ متاثر ہوتے ہیں؟
لیکن لوگوں نے اسے بھی قبول تو کیا ہی ہے۔ کیا حکومت اس کے بدلے میں ایک ماہ کے اخراجات فراہم کرتی ہے؟ کانوڑ یاترا کے دوران مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی خدمات انجام دیتی ہے، سماجی ہم آہنگی کے ایسے کئی واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کانوڑ یاترا پر بھی بہت زیادہ سیاست کی گئی ہے۔
کانوڑ یاترا ہی نہیں، گنپتی پوجا سے لے کر درگا پوجا تک پر اس قانون کو لاگو کر ہی نہیں سکتے ہیں کہ سڑک پر کسی مذہب کا ایک بھی پروگرام منعقد نہیں کیا جائے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مورتی وسرجن کے لیے سڑک بند نہ ہو؟ پوجا کے لیے، مرکزی سڑک سے لے کر محلے کے اند کی کسی بھی سڑک کا استعمال ہوتا ہی ہوتا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی پارک میں پنڈال لگتا ہی ہے۔ ہماری پولیس نے میلے اور پوجا کمیٹیوں کے ساتھ مل کر انتظامات کو بہتر کیا ہے۔ مسائل میں کمی آئی ہے اور اس میں ابھی اور گنجائش ہے، لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ سڑک پر درگا پوجا پنڈال نہیں لگائے جائیں گے، تو درگا پوجا کے تہوار کے دوران پولیس پنڈال ہٹانے میں مصروف ہو جائے گی اورجگہ جگہ کشیدگی پیدا ہوجائے گی۔ویسے بھی اب پولیس کے ساتھ ساتھ بہت سی آرگنائزنگ کمیٹیاں اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ ٹریفک کم سے کم متاثر ہو۔
جو لوگ سڑک پر نماز نہ پڑھنے کے سخت خلاف ہیں انہیں بی جے پی اور بجرنگ دل کو لیکچر دینا چاہیے کہ رام نومی کی شوبھا یاترا بند ہو اور ڈی جے بجانے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہی نہیں جب وہ دوسری برادریوں سے تعلق رکھنے والے علاقوں سے تاترا نکالنے پر اصرار کرتے ہیں تو انہیں سڑک اور تمام دقتوں کا خیال نہیں رہتا؟ کئی مقامات پر کشیدگی کے پیش نظر انتظامیہ نے شوبھا یاترا کی اجازت نہیں دی ہے، اور کئی جگہوں پر اجازت دی بھی جاتی ہے۔ اس میں بھی فیصلہ سیاست کے بغیر نہیں ہوتا۔
لیکن کیا ایک ساتھ تمام ریاستوں میں رام نومی کی شوبھا یاترا پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ رام نومی کے موقع پر ان یاتراؤں پر ایک مخصوص پارٹی کی سیاست کتنی سرمایہ کاری کرتی ہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ ان یاتراؤں کے انتظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، ڈی جے کی آواز کو کم کیا جا سکتا ہے اور ایک مقررہ روٹ کا بندوبست کیا جا سکتا ہے اور ہوا بھی ہوگا، لیکن شوبھا بند کر دی جائے، عجیب بات ہے۔ رام نومی کے موقع پر ہزاروں یاتراؤں کو مکمل کرنے میں پولیس اور انتظامیہ کی جان نکل جاتی ہے۔ وہی پولیس دن رات وہاں کھڑی رہتی ہے اور ہفتوں گھر نہیں جاتی۔
لنگر اور بھنڈارا دہلی میں صرف مذہبی تقریبات نہیں ہیں۔ یہ دہلی کی سب سے خوبصورت چیز ہے جس سے متاثر ہو کر دوسرے شہروں میں بھی اس کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ بھنڈارا کے دوران بھی ٹریفک کا نظام متاثر ہوتا ہے لیکن جب بھی کوئی بھنڈارا کرے گا تو سڑک کا ہی استعمال کرے گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھنڈارا کرنے والے کو مقامی پولیس کی مدد لینی چاہیے، لیکن پولیس کیا کرے گی اور کن چیزوں کے لیے اجازت لی جائے گی۔ آخر کار، لوگوں کو بھی سیکھنا پڑے گا کہ بھنڈارا کا اہتمام اس طرح کیا جائے کہ ٹریفک میں کم سے کم خلل پڑے، لیکن جہاں 100-200 لوگ ہوں، وہاں خلل پڑے گا ہی۔
آپ کو بھنڈارا کو انسانی نقطہ نظر سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ہندوستان ایک غریب ملک ہے۔ لوگ آدھا پیٹ کھا کر کام کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ دن بھر کام کرتے ہوئے بھوک لگ جاتی ہے۔ ایسے میں کوئی بھنڈارا نظر آ جائے تو لوگوں کا دن بن جاتا ہے۔ کھلانے والا بھی چاہتا ہے کہ لوگ آئیں۔ کتنامزیدار کھانا ہوتا ہے! دہلی اور دیگر شہروں میں لوگ گرمیوں میں بسیں روک کر شربت پیش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریفک میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شہر کے لوگ ان مسائل کے ساتھ ایڈجسٹ کرلیتے ہیں۔ البتہ کچھ انتظامات کیے جائیں تاکہ مشکلات کم ہوں لیکن یہ کہنا کہ لنگر سڑک پر نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا؟ آنے اور جانے والے لوگوں کے لیے بھنڈارا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی ضیافت نہیں ہے جو گھر کے اندر ہو گی، جس کے لیے لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے۔امریکی معاشرہ ایسا نہیں کرتا ہےتو وہاں ایسے مسائل پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ وہاں پہنچنے والے ہندوستانی سڑک پر بلڈوزر لے کر شوبھا یاترا نکال رہے ہیں۔
بات یہاں سڑک کی نہیں، نماز کی ہے اور نماز پڑھنے والے مسلمان کی ہے۔ چونکہ آپ لات مارنے کے واقعے کو درست نہیں ٹھہرا سکتے اس لیے آپ نے سڑک پر نماز پڑھنے کو غلط قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ ایک کمیونٹی کی لگاتار توہین کرنا چاہتے ہیں اس کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ گڑگاؤں کا واقعہ بھول گئے۔ وہاں لوگ سڑک پر نماز نہیں پڑھ رہے تھے۔ میدان میں پڑھ رہے تھے پھر بھی لوگ مخالفت کرنے پہنچ گئے۔ اس بحث کا مرکز سڑک نہیں، مسلمان ہیں۔ ان کے مذہبی حقوق پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔
کئی جگہوں پر سڑکوں پر نماز پڑھنا بند کر دیا گیا ہے، لیکن ان ہی جگہوں پر دوسرے مذاہب کے پروگرام خوب ہو رہے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر عید کی اجتماعی نماز نہیں ہوتی کیونکہ ایک ساتھ ہزاروں لوگ اکٹھے نماز ادا کریں گے تو سڑک کا استعمال ہوگا ہی۔ نماز کئی شفٹوں میں ادا کی جا رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی برادری سڑک پر نماز پڑھنے کی ضد کر کے بیٹھی ہے، اسے مسائل کا سامنا ہے اسی لیے وہ پڑھتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو پارک میں نماز پڑھنے سے بھی ہے۔
بہتر ہے کہ ہم مل جل کر رہنا سیکھیں۔ ایک دوسرے کو سمجھ کر آگے بڑھیں۔ سڑکوں پر مذہبی تقریبات سے پیدا ہونے والے مسائل کو کم کریں، نظام کو بہتر بنائیں اور نفرت کو ہوا نہ دیں۔
ہندوستانی انتظامیہ نے اس معاملے میں کئی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بہتری لائی ہے۔ لیکن اس کے نام پر سامنے اور پیچھے سے پھیلائی جانے والی نفرت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس نفرت کی وجہ سے کوئی چیتن سنگھ بنے گا اور کوئی منوج کمار تومر، جو جیل جائے گا یا سسپنڈ ہوگا۔ ان کا کسی بھی طرح سے دفاع صرف آپ صرف ایک ہجوم بن کر ہی کر سکتے ہیں کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بات منطقی نہیں ہے، معاشرے کے مطابق نہیں۔ یہ نہ مذہب کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی یہ آئین کے لیے قابل قبول ہے۔
یقیناً، آپ کی حکومت ہے، آپ کی بھیڑ ہے، جو چاہے کر لیجیے، لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ کیا غلط ہے۔ مسئلہ سڑک پر نماز پڑھنے میں نہیں ہے، مسئلہ کسی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے کے طریقے میں ہے۔ بہتر ہے اسے قبول کرلیں۔
(رویش کمار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر