اسرائیلی وزارت خارجہ کے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی سفارت کار ہندوستانی ہندوتوادی رائٹ ونگ کو ‘فاشسٹ’ سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی، وہ سمجھتے تھے کہ ان کا نظریہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی ہے، اس کے باوجود انہوں نے دائیں بازو کے ساتھ محتاط تعلقات برقرار رکھے۔
نئی دہلی: اسرائیلی وزارت خارجہ کے غیر درجہ بند (ان کلاسیفائیڈ) دستاویزوں کے مطابق، اسرائیلی سفارت کار 1960 کی دہائی کے اوائل سے ہی ہندوستان میں ہندو دائیں بازو (رائٹ ونگ)کے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتے رہے ہیں، اور اس کی بدولت جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان مبینہ طور پر ملک بھر میں ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ہیں۔
ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 1970 کی دہائی میں اسرائیلی قونصلیٹ میں ایک غیر متوقع مہمان گوپال گوڈسے تھے، جنہوں نے اپنے بھائی ناتھورام گوڈسے – جس نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا— کے دفاع میں اپنی تقریریں چھاپنے اور نشر کرنے میں مدد مانگی تھی۔ یہ درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
گزشتہ دو سالوں میں نیشنل آرکائیوز میں جاری کیے گئے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے دستاویزوں کی بنیاد پر اسرائیلی اخبار ہاریتزمیں شائع ہونے والی انسانی حقوق اور معلومات کی آزادی کے کارکن ایٹے میک کی ایک تفصیلی رپورٹ ہندوستان کے کٹر دائیں بازو، خصوصی طور پر بی جے پی اور اس کے پیش رو جن سنگھ کے ساتھ، اسرائیل کے تعلقات کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔
سفارتی ٹیلی گرام سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں اسرائیلی سفارت کار واضح طور پر کٹر رائٹ ونگ کو ‘فاشسٹ’ قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا نظریہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی ہے، پھر بھی ان کے ساتھ محتاط تعلقات بنائے رکھے۔
ہندوستان نے 17 ستمبر 1950 کو اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، لیکن مکمل سفارتی تعلقات صرف 1992 میں دارالحکومتوں میں سفارت خانوں کے افتتاح ساتھ ہی قائم ہوئے۔ ان 40 سالوں کے دوران ہندوستان میں اسرائیل کی نمائندگی ممبئی واقع قونصلیٹ کرتاتھا۔
ہاریتز کی رپورٹ میں جون 1965 کے ٹیلی گرام کا حوالہ دیا گیا ہے، جب بامبے میں اس وقت کے قونصلر پیریٹز گارڈن نے اسرائیلی وزارت خارجہ کو لکھا تھا کہ ‘ آج اور مستقبل میں بھی ہندو مسلمانوں سے اسی طرح ڈرتے اور نفرت کرتے رہیں گے۔’ انہوں نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ حزب اختلاف بی جے پی اور انڈین نیشنل کانگریس کے دائیں بازو کے حلقوں میں ‘اسے مختلف شکلوں اور یہاں تک کہ کھلے طور پر حمایت ملتی ہے’۔
ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد گارڈن نے 26 اپریل 1966 کو ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی سفارشات کے بارے میں لکھا، جس میں ‘حکومت کے خلاف مظاہرے منعقد کرنے کے مقصد کے لیے حزب اختلاف کے عناصر کے ساتھ خفیہ رابطے’ شامل تھے۔
پندرہ اگست 1966 کو ہندوستان کے یوم آزادی کی سالگرہ پر، سیاسی-اقتصادی منصوبہ بندی کے شعبہ کے سربراہ ایلان آریہ نے وزارت خارجہ کی ایک میٹنگ میں تجویز پیش کی کہ ‘جن سنگھ پارٹی کے ساتھ (ممکنہ طور پر موساد کے ذریعے) احتیاط کے ساتھ رابطہ ہونا چاہیے۔’
ملاقات کے دوران وزارت خارجہ کے ایک اور اہلکار نے کہا کہ اسرائیلی سفارت کار پہلے سے ہی جن سنگھ پارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں ، لیکن انہوں نے ‘ایک انتہائی قوم پرست جماعت، جس کے اقتدار میں آنے یا اتحاد بنانے کا کوئی امکان نہیں ہے، کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کسی گنجائش پر شکوک و شبہات کا اظہارکیا۔
ایک اسرائیلی سفارت کار نے 14 مارچ 1967 کو ٹیلی گرام میں لکھا کہ جن سنگھ نے اپنے منشور میں اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کے مطالبے کو شامل کیا ہے۔ دو ماہ بعد نیپال میں اسرائیلی سفیر موشے ایرل نے 22 مئی 1967 کو تل ابیب کو مطلع کیا کہ ان کی کٹھمنڈو میں جن سنگھ کے ایم پی ایم ایل سوندھی سے ملاقات ہوئی تھی۔
چونکہ سوندھی نئی دہلی سے ایم پی تھے، انہوں نے کہا کہ ‘دہلی کے علاقے میں مقامی حکومت جن سنگھ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔’
ہاریتز میں مذکور اسرائیلی سفیر کے ٹیلی گرام کے مطابق، سوندھی نے وضاحت کی کہ ‘اب اسرائیلی تناظر میں ہندوستانی حکومت کو مختلف امتحانات میں ڈالنا ممکن ہے، جس کا نتیجہ موجودہ اسرائیل مخالف پالیسی کو کمزور کرنے کی صورت میں نکلے گا۔’
چند ماہ بعد جنوری 1968 میں جب سوندھی نوم پینہ میں تھے، ان کی ملاقات کمبوڈیا میں اسرائیل کے سفیر رافیل بین شالوم سے ہوئی۔ شالوم نے لکھا کہ ہندوستانی رکن پارلیامنٹ نے انہیں بتایا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کی حمایت میں ‘لاکھوں لوگوں کا احتجاج’ منظم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس کے علاوہ، قونصلیٹ نے ‘اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے غیر معمولی تعلقات کے معاملے پر حکومت ہند کی تنقید اور اس کوشرمندہ کرنے کے ارادے سے جن سنگھ کے اراکین پارلیامنٹ سے پوچھ گچھ کی۔’
اسرائیلی سفارت کاروں کو اپنے مشورے میں سوندھی نے مبینہ طور پر یہ بھی تجویز کیا کہ اسرائیل کو ‘ہندوستان میں اپنے مڈل مین کو تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ وہ تائیوان کے لیے بھی ثالثی کرتا ہے۔’
اسرائیلی قونصل خانے سے 30 اکتوبر 1985 کو وزارت خارجہ کو بھیجے گئے ایک اور ٹیلی گرام میں ایک مڈل مین کا ذکر ہے جس نے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتیں کرائی تھیں ، جس کو اسرائیل سے بڑی ادائیگی ہوتی تھی۔
جن سنگھ کے علاوہ ممبئی میں اسرائیلی قونصل ریوین ڈیفنی نے شیو سینا پارٹی کے ساتھ بھی رابطے رکھے۔ 1968 میں ڈیفنی کے ایک ٹیلی گرام میں شیو سینا کو ‘واضح طور پر مقبول فاشسٹ’ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ‘اس نے جرمنی اور آسٹریا میں 30 کی دہائی میں نازیوں کے انداز میں مظاہرہ کیا، جن میں خاص طور پر غیر ملکی دکانوں کی کھڑکیاں توڑنا، مختلف کام کی جگہوں سے غیر ملکی مزدوروں کو بھگانا وغیرہ شامل ہے۔’
انہوں نے فروری 1969 میں ایک اور ٹیلی گرام میں متوازی باتوں کو دہرایا، جہاں انہوں نے کہا کہ بمبئی کے فسادات شیو سینا کی طرف سے بھڑکائے گئے تھے، جن کی ‘واضح فاشسٹ بنیادیں’ تھیں۔
اکتوبر 1973 میں، یوم کپر (یہودی تہوار) کے دوران ‘اسرائیلی قونصلیٹ کے ساتھ مل کر’ شیو سینا اور جن سنگھ کی شرکت کے ساتھ اسرائیل کی حمایت میں بمبئی میں ایک ریلی نکالی گئی تھی ۔ اسرائیلی قونصل جوشوآ ٹریگور نے لکھا تھا کہ شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور جن سنگھ کے ایک رکن پارلیامنٹ نے اسرائیل کی حمایت میں تقریریں کیں۔
ہندو مہاسبھا کے صدر اور نائب صدر کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے ٹریگور نے نومبر 1973 میں لکھا کہ مہاسبھا کی قیادت نے انہیں ایک تفصیلی رپورٹ دی ہے کہ کیسے انہوں نے یوم کپر جنگ (عرب اور اسرائیل کے درمیان ہوئی جنگ)کے دوران اسرائیل کی حمایت میں تقریریں کیں اور مظاہرے کیے۔ٹریگور نے لکھا تھاکہ ‘یہ اچھی بات ہے کہ وہ بھی ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں – چاہے اس کی ایک وجہ مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت ہو۔’
ہندو مہاسبھا کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے اسرائیلی قونصل کی ملاقات گوپال گوڈسے ہوئی،جو مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کا بھائی تھا۔گوپال گوڈسے کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن 1965 میں رہا کر دیا گیا تھا۔
اپنی رپورٹ میں اسرائیلی سفارت کار گیدون بین امی نے مسلمانوں کے تئیں گوڈسے کی نفرت اور ان کے ذریعےاپنے بھائی ناتھورام گوڈسے کے دفاع میں اپنی تقریر شائع اور نشر کرنے میں مدد مانگنے کا ذکر کیا تھا۔
ہاریتز کے آرٹیکل میں کہا گیا ہے، ‘بین امی نے لکھا کہ انہوں نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور گوپال گوڈسے کے ساتھ نظریاتی تنازعہ میں پڑنے سے گریز کیا تھا۔ ان کی شرمندگی اس حقیقت کی وجہ سے تھی کہ گاندھی کے قاتل کے بھائی نے قونصلیٹ کا دورہ کیا تھا، نہ کہ قونصلیٹ کے دائیں بازو سے تعلقات کی وجہ سے۔’
ٹریگور نے 1973 میں جن سنگھ کے صدر لال کرشن اڈوانی کے ساتھ دہلی میں ہونے والی ملاقات کا بھی ذکر کیا۔
ایمرجنسی کے برسوں کے دوران اسرائیلی سفارت کاروں کو جن سنگھ اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں سے رابطہ رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان کے رہنما انڈر گراؤنڈ ہو گئے تھے یا انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن جب 1977 میں جنتا اتحاد اقتدار میں آیا تو جن سنگھ مرکز میں آگیا۔
واشنگٹن میں اسرائیل کے سفیر ڈیوڈ ترگمین نے 25 مارچ 1977 کو اپنے ٹیلی گرام میں لکھا تھا کہ سینئر امریکی سفارت کار، نیشنل سکیورٹی کونسل کے تھامس تھارنٹن نے انہیں بتایا تھا کہ ‘دائیں بازو کی جن سنگھ اپنے مسلم مخالف ہندو ذہنیت کی وجہ سے اسرائیل کی حامی ہے۔’
اپریل 1977 کے ایک اندرونی سفارتی ٹیلی گرام میں اٹل بہاری واجپائی کا بھی ذکر ہے، جو اس وقت کی جنتا حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔
ایک اور ٹیلی گرام کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنے اسرائیلی مذاکرہ کار کو بھی سمجھایا کہ ‘جن سنگھ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے کامیاب ہے۔’ انہوں نے انتخابی کامیابی کی وجہ لوگوں میں آر ایس ایس کی گرفت کو قرار دیا۔ 1979 کے ایک ٹیلی گرام میں آر ایس ایس کے ارکان کو ‘فاشسٹ’ قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح 1977 کے ایک ٹیلی گرام میں ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، جن سنگھ کے سرپرست اور بالواسطہ طور پر وزیر اعظم مرارجی دیسائی کے خلاف الزامات کا بھی ذکر ہے۔
اپریل 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قیام کے بعد اس وقت کے اسرائیلی قونصل ہیم ڈیون نے ایک ٹیلی گرام میں لکھا تھا کہ نئی پارٹی ‘دراصل بی جے پی کے بھیس میں جن سنگھ ہی ہے۔’
جنتا حکومت کے گرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے 1977 میں ہندوستان کا خفیہ دورہ کیا تھا اور وزیر اعظم مرارجی دیسائی سے ملاقات کی تھی۔
جولائی 1981 میں اسرائیلی قونصل یوسف حسن نے رپورٹ دی کہ انہوں نے وکیل اور اس وقت کے بی جے پی کے نائب صدر رام جیٹھ ملانی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر پارٹی کا اندرونی پارٹی پیپر لکھنے کو کہا تھا۔
جون 1982 میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایشیا ڈپارٹمنٹ کی طرف سے لکھی گئی ایک رپورٹ میں ہندوستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کا جائزہ لیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ‘ہمارے حق میں کام کرنے والے عوامل’ میں ‘ہندو مسلم تنازعہ’ بھی شامل تھا، جس کی وجہ سے مسلم مخالف دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی گئی تھی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر