الیکشن نامہ

’ریت میں کیسی زندگی مہاراج! ہم کس بیس پر ووٹ دیں؟‘

لوک سبھا انتخابات سے پہلے یوپی کے مہاراج گنج اور کشی نگر ضلع کے 27 گاؤں کے تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ آمد و رفت کے لیے راستہ بننے کے انتظار میں گنڈک ندی کے پار کے ان لوگوں کا پل بنانے کا مطالبہ کافی پرانا ہے، جس کے حوالے سے وہ پوچھ رہے ہیں کہ پل اور سڑک نہیں ہیں تو ووٹ کیوں دیں۔

سوہگی برواں بازار میں آویزاں ووٹنگ کے بائیکاٹ کا بینر۔ (تصویر: منوج سنگھ)

سوہگی برواں بازار میں آویزاں ووٹنگ کے بائیکاٹ کا بینر۔ (تصویر: منوج سنگھ)

گورکھپور: بڑی گنڈک ندی (نارائنی) پر پل اور سڑک کی تعمیر نہ ہونے کے باعث جزیرہ بن چکے مہاراج گنج اور کشی نگر ضلع کے 27 گاؤں کے 50 ہزار لوگوں نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ یہاں ووٹنگ کے بائیکاٹ کے بینر لگائے گئے ہیں اور ووٹنگ بائیکاٹ کو مؤثر بنانے کے لیے لوگوں نے نارائنی سنگھرش سمیتی بنائی ہے۔ دونوں اضلاع کے ڈی ایم کو میمورنڈم پیش کرنے کے ساتھ—ساتھ سنگھرش کمیٹی نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ہے۔

یہ 27 گاؤں بہار اور نیپال کی سرحد پر بڑی  گنڈک ندی کے پار واقع ہیں۔ یہ گاؤں سات گرام پنچایتوں کے تحت آتے ہیں۔ ان میں سے تین گرام پنچایتیں سوہگی برواں، شکار پور اور بھوتہاں مہاراج گنج ضلع میں آتی ہیں جبکہ ہریہر پور، شیو پور، بسنت پور اور نارائن پور گرام پنچایتیں کشی نگر ضلع میں آتی ہیں۔

یہ تمام گرام پنچایتیں ایک ہی جغرافیائی محل وقوع میں ہیں لیکن انتظامی طور پر یہ دو اضلاع اور دو تحصیلوں اور الگ الگ لوک سبھا اور اسمبلی حلقوں میں منقسم ہیں۔ مہاراج گنج ضلع کی تین گرام پنچایتیں نچلول تحصیل میں آتی ہیں جبکہ کشی نگر ضلع کی تمام پانچ گرام پنچایتیں نئی بنی کھڈہ تحصیل میں آتی ہیں۔ ان گاؤں کے مشرق میں نارائنی ندی ہے اور شمال میں بہار کا بالمیکی نگر ریزرو فاریسٹ اور مغربی چمپارن ضلع ہے۔ نارائنی ندی کے ایک طرف بہار کا نولپراسی ضلع ہے اور اس ضلع کا سستہ گاؤں کشی نگر اور مہاراج گنج کے ان گاؤں سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

ان تمام دیہاتوں کا گروپ سوہگی برواں گاؤں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سوہگی برواں ان تمام گاؤں کے مرکز میں ہے اور یہاں کا مرکزی بازار بھی ہے۔ پولیس اسٹیشن بھی یہیں واقع ہے۔ یہ علاقہ ایک زمانے میں جنگل پارٹی کے نام سے مشہور ڈکیتوں کے گروہ سے بہت متاثر رہا ہے۔

ندیوں سے گھرا علاقہ، بارش کے موسم میں آمد ورفت مشکل

ان گاؤں سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر گنڈک ندی کے اپ—اسٹیم پر نیپال میں گنڈک بیراج بنا ہوا ہے، جبکہ 13.50 کلومیٹر دور کشی نگر ضلع میں پنیہوا کے قریب سڑک اور ریل  پل ہے۔ بھینسہا گھاٹ اور شیو پور گاؤں کے درمیان تقریباً آٹھ کلومیٹر کے دائرے میں  بڑی گنڈک ندی دو دھاراؤں میں بہتی ہے۔ مرکزی دھارا بھینسہاپشتے کے قریب ہے جبکہ دوسری دھارا شیو پور گاؤں کے قریب ہے۔

سیتو نگم کی ایک رپورٹ کے مطابق،بھینسہا پشتے کے پاس مانسون کے پہلے اور بعد میں ندی کی اس دھارا کی چوڑائی تقریباً 700 میٹر ہے۔ بھینسہا پشتے کے قریب ندی  کی دھارا کے بعد ڈھائی کلومیٹر کا ایک جزیرہ ہے۔ اس کے بعد ایک دوسری دھارا بہتی ہے جس کی چوڑائی 650 میٹر ہے۔ اس دھارا کے دو کلومیٹر بعد شیو پور گاؤں ہے۔

بھینسہا گھاٹ پر بنا پیپا پل۔ (تصویر: منوج سنگھ)

بھینسہا گھاٹ پر بنا پیپا پل۔ (تصویر: منوج سنگھ)

کشی نگر کے ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے 16 مارچ 2023 کو محکمہ تعمیرات عامہ کے پرنسپل سکریٹری کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بھینسہا گھاٹ اور شیو پور کے قریب ندی کی تیز ڈھلوان اور موڑ کی وجہ سے یہاں پانی کا بہاؤ ہمیشہ شدید رہتا ہے جو برسات کے موسم میں تیز ہو جاتا ہے۔ تیز کرنٹ کی وجہ سے عام کشتیاں کارآمد نہیں ہوتیں اور بعض اوقات حادثات کا سبب بن جاتی ہیں۔ برسات کے موسم میں ندی کے پار گرام پنچایت شیو پور وغیرہ میں رہنے والوں کو تعلیم، صحت، شادی، انتخابات وغیرہ کے لیے صوبہ بہار کے دیہاتوں اور والمیکی ٹائیگر ریزرو کے علاقے سے ہو کر تقریباً 40-50 کلومیٹر کا اضافی فاصلہ طے کرکے اسکول، اسپتال بازار، بلاک اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر جانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا پیسہ، وقت اور محنت سب برباد ہوتا ہے۔ نیز، لوک سبھا، اسمبلی، پنچایتی انتخابات کے دوران، سرکاری ملازمین وغیرہ کو نامناسب حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔

ضلع مجسٹریٹ نے اپنے اس خط میں برج کارپوریشن کی رپورٹ کی بنیاد پر بھینسہا گھاٹ پر پیپا پل کی جگہ پر پانچ کلومیٹر کا پل بنانے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پل کی تعمیر سے ہیڈ کوارٹر کا فاصلہ تقریباً 40 سے 50 کلومیٹر تک کم ہو جائے گا اور تقریباً 80 ہزار لوگ مرکزی شہر اور ضلعی ہیڈ کوارٹر سے جڑ جائیں گے،جس سےاس علاقے میں  تعلیم، صحت، کاروبار وغیرہ کے شعبوں میں ہمہ گیر ترقی ہو گی۔

سیتو نگم نے 5.021 کلومیٹر لمبے پل، اپروچ روڈ، اضافی اپروچ روڈ، حفاظتی کام کے اپروچ، اپروچ روڈ وغیرہ کے لیے 47383.98 لاکھ روپے کا تخمینہ بجٹ بنایا ہے۔

بارش کے چار مہینوں میں یہ تمام گاؤں جزیرے میں بدل جاتے ہیں اور گاؤں سے باہر جانے کے لیے ناؤ سے نارائنی ندی پار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ سوہگی برواں سے بہار کے نورنگیا تک ایک کچی سڑک ہے جو جنگل سے ہوکر گزرتی ہے۔ یہ سڑک بہت خراب ہے اور یہاں تک کہ موٹر سائیکل پر سفر کرنا بھی مشکل ہوتاہے۔ یہ سڑک بھی بارش کے موسم میں روہوا نالے کے پانی سے بھر جاتی ہے اور ٹریفک رک جاتی ہے۔ بہار حکومت اس سڑک کی تعمیر نہیں کر رہی ہے کیونکہ یہ جنگل کی زمین سے گزرتی ہے۔

چار سال پہلے بھینسہا گھاٹ پر پیپا پل لگایا گیا تھا۔یہ پیپا پل اکتوبر سے جون تک لگانے کا انتظام ہے۔ پیپا پل بھینسہا گھاٹ پر نارائنی ندی کی ایک دھارا پر لگایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بائیک، ٹیمپو اور ٹریکٹر آ جا سکتے ہیں لیکن اکثر ندی میں پانی بڑھنے کی وجہ سے یہ بیکار ہو جاتا ہے اور پھر لوگوں کو ناؤ سے ہی آمد ورفت کرنی پڑتی ہے۔ لوگوں  کی شکایت ہے کہ مقررہ وقت پر پیپا پل نہیں لگایا جاتا اور اس کے لیے انہیں عہدیداروں اور عوامی نمائندوں سے بھی فریاد کرنی پڑتی ہے۔

یہاں کے لوگوں کو اپنی تحصیل تک پہنچنے کے لیے اکثر بہار کے نورنگیا یا بالمیکی نگر کے راستے کھڈہ اور نچلول جانا پڑتا ہے۔ سوہگی برواں، شکارپور اور بھوتہاں کے لوگوں کو اپنی تحصیل تک پہنچنے کے لیے 65 کلومیٹر اور ضلع تک پہنچنے کے لیے 91 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دیگر گاؤں کے لوگوں کو کھڈہ تحصیل پہنچنے کے لیے 30 سے 60 کلومیٹر کی دوری طے کرنی پڑتی ہے۔

اگر بھینسہا گھاٹ پر بڑی گنڈک ندی پر پل بن جائے تو یہاں کی 50 ہزار آبادی کو کھیتی باڑی، تعلیم، طبی سہولیات سمیت ضروری کام میں آسانی ہوجائے گی۔

ندی میں پانی بڑھنے پر بہار کو جانے والا یہی راستہ واحد متبادل ہوتا ہے۔ (تصویر: منوج سنگھ)

ندی میں پانی بڑھنے پر بہار کو جانے والا یہی راستہ واحد متبادل ہوتا ہے۔ (تصویر: منوج سنگھ)

اس مشکل جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے کشی نگر اور مہاراج گنج کی ضلع انتظامیہ یہاں کے گاؤں میں ترقیاتی منصوبوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے کبھی ان کو بہار میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کبھی کبھی تمام گاؤں کو ایک ضلع اور ایک تحصیل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور اس بارے میں حکومتی سطح پر لکھا —پڑھی  بھی ہوئی۔

سال 2022 کے ابتدائی مہینوں میں ان دیہاتوں کو بہار میں شامل کرنے کی بات ہوئی تھی۔ اپریل 2022 میں ریونیو کونسل کی جانب سے کمشنر گورکھپور سے دیہات کے ریونیو ریکارڈ مانگا گیا تھا۔ بہار سے افسران اور ملازمین کی ٹیم بھی سروے کرنے آئی لیکن جلد ہی معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔

اس سے پہلے، 2017 میں کھڈہ کے ایم ایل اے بننے کے بعد جٹاشنکر ترپاٹھی نے مہاراج گنج کی تین گرام پنچایتوں سوہگی برواں، شیو پور اور بھوتہاں کو کشی نگر کی کھڈہ تحصیل میں شامل کرنے کے سلسلے میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کو کئی خط لکھے تھے۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے پہل بھی ہوئی لیکن معاملہ فیصلہ کن موڑ پر نہیں پہنچ سکا۔

اس مطالبے کو لے کر دونوں اضلاع کے لوگوں میں مختلف آراء سامنے آئی تھیں، لیکن آج دونوں اضلاع کی سات گرام پنچایتوں کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ گاؤں کی ادلا بدلی سے زیادہ ضروری کام ہے کہ گنڈک ندی پر پل بنے۔ پل کی تعمیر سے باقی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

گنڈک ندی کے پار سات گرام پنچایتوں کے لوگوں کا پل بنانے کا مطالبہ کافی پرانا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے بہار کی طرف جانے والی سڑک بنانے کی بہت کوششیں بھی کیں لیکن دوسری ریاست کے معاملے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد گاؤں والوں نے پل کی مانگ پر توجہ مرکوز کی۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں گاؤں والوں نے مستقل پل کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کے بائیکاٹ کی آواز بلند کی تھی۔ تین سال بعد یکم مارچ 2020 کو جب پیپا پل بنایا گیا تو گاؤں والوں نے اس کا افتتاح کرنے آئے نائب وزیر اعلیٰ اور تعمیرات عامہ کے وزیر کیشو پرساد موریہ سے مستقل پل کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یقین دہانی بھی کرائی۔

پھر جب 29 مارچ 2023 کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کھڈہ تحصیل بھون کا افتتاح کرنے آئے تو ساتوں گاؤں کے سربراہوں نے انہیں ایک میمورنڈم دیا جس میں پل کی تعمیر کا مطالبہ کیا گیا۔

ممبران پارلیامنٹ اور ارکان اسمبلی کی 14 جنوری 2023 کو وزیر اعلی کے ساتھ میٹنگ میں کھڈہ کے ایم ایل اے وویکانند پانڈے نے وزیر اعلیٰ کو پل کی تعمیر کے مطالبے کے بارے میں ایک رپورٹ دی۔ چیف منسٹر کے ایڈیشنل چیف سکریٹری نے محکمہ تعمیرات عامہ سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کارروائی کریں۔ محکمہ تعمیرات عامہ کی پہل پر برج کارپوریشن نے 15 مارچ کو پل کی تخمینی لاگت کی تفصیلات تیار کیں اور اس کے ایک دن بعد 16 مارچ 2023 کو کشی نگر کے ضلع مجسٹریٹ نے پل کی تعمیر کے لیے فنڈز مختص کرنے کی درخواست کرتے ہوئے پرنسپل سکریٹری پبلک ورکس کو ایک خط بھیجا۔

اس پل کے حوالے سے حکومتی سطح پر پچھلے تین ماہ میں جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا وہ بتدریج ماند پڑتا گیا۔ گزشتہ ایک سال سے اس سلسلے میں کوئی نیا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ حکومت کا سرد رویہ دیکھ کر گاؤں والوں نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنا مطالبے کو دوہرایا ہے۔

‘ہم اب  تک پل کے انتظار میں ہیں’

موٹر سائیکل پر اس رپورٹر کو نارائنی ندی پار کرا  رہے سوہگی برواں کے امیر حمزہ اس مشکل صورتحال کے باعث اب کھڈہ میں مکان بنوا کر رہ رہے ہیں تاکہ ان کے بچوں کی  پڑھائی ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں، ‘سوہگی برواں میں صرف پرائمری سطح تک تعلیم کا نظام ہے۔ ایک پرائیویٹ اسکول اب انٹرمیڈیٹ تک چلنے لگاہے۔آپ ہی بتائیےاس ریت میں کون ٹیچر پڑھانے آئے گا؟’

امیر کا مزید کہنا ہے کہ ‘آزادی کے بعد کتنے ہی ایم پی اور ایم ایل اے آئے لیکن پل اور سڑکیں نہیں بن سکیں۔ہم ابھی تک پل کے انتظار میں ہے۔ جٹا بابا (سابق ایم ایل اے جٹاشنکر ترپاٹھی)  نے پیپا پل لگو ا  دیا  تو  کچھ راحت ملی۔ ساری  دقت راستے کی ہی ہے۔ورنہ ندی  اور جنگل کا یہ علاقہ کس کو پسند نہیں آئے گا۔میرے والد بتاتے تھے کہ جب لوگوں نے ناؤ سے آنا جانا شروع کیا  تو سوہگی برواں میں بہت بڑا بازار لگا کرتا تھا۔ لوگ دور دور سے آتے رہے۔ لیکن یہ وقت تو کالے پانی کی سزا کی طرح ہے۔ سیلاب میں سب کچھ پانی پانی ہو جاتا ہے۔ تب مت کہیے کہ  ہم لوگ کیسے رہتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں۔ ریت میں کوئی زندگی  نہیں ہے مہاراج۔’

امیر حمزہ نے بتایا کہ اجتماعی طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ ووٹ کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ پل، سڑک نہیں ، تو  ووٹ نہیں۔ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ‘ہمیں کس بیس (بنیاد) پر ووٹ دیں؟’

ہر گاؤں میں دلت اور پسماندہ ذات کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ سب سے بڑی آبادی تقریباً 30 ہزار مسہروں کی ہے۔ مسہروں کے پاس کھیتی باڑی کم ہے۔ مسہر کا انحصار مزدوری پر ہوتا ہے۔ بارش کے موسم میں کوئی کام نہیں ملتا۔ پھر زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسہر نوجوان گاؤں سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔

بھوتہاں گاؤں کے گیان چندر 30 ہزار مسہروں میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ انہوں نے سدھارتھ نگر جا کر ایم اے اور بی ایڈ کیا۔ وہ سسوا کے ایک ڈگری کالج میں پڑھاتے تھے جہاں انہیں صرف دس ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی۔ انہوں نے نوکری چھوڑ دی ہے اور اس وقت بے روزگار ہے۔ اس وقت مسہروں کو تعلیم کے حوالے سے بیدار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ پلو اور سڑک کے مطالبے کے حوالے سے ووٹنگ بائیکاٹ کی تحریک میں وہ فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

کشی نگر کے ڈی ایم کو میمورنڈم دینے گئے نارائنی سنگھرش سمیتی کے عہدیدار۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کشی نگر کے ڈی ایم کو میمورنڈم دینے گئے نارائنی سنگھرش سمیتی کے عہدیدار۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

وہ اس وفد میں شامل تھے جو مہاراج گنج اور کشی نگر کے ڈی ایم کو میمورنڈم دینے گئے تھے۔ گیان چندر اور سری کانت کا کہنا ہے کہ اس بار لوگ ووٹنگ کا بائیکاٹ کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ دونوں کہتے ہیں کہ 2017 میں اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹنگ کا بائیکاٹ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا تھا کیونکہ کچھ بستیوں میں لوگوں نے عوامی نمائندے کی درخواست پر ووٹ ڈالے تھے، لیکن اس بار سب ایک رائے ہیں۔

سوہگی برواں کے بھوتہاں ٹولہ کے رہنے والے شری کانت نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں 200 گھر ہیں جن میں 125 مسہر، 66 کرمی اور تین گونڈ ذات کے ہیں۔ باقی کا تعلق دوسری ذاتوں سے ہے۔

وہ کہتے ہیں، ‘جون کے مہینے کے بعد بھینسہا گھاٹ سے ہو کر جانا بند ہو جاتا ہے کیونکہ ندی میں پانی بڑھ جاتا ہے۔ اس حالت میں ہم نو کلومیٹر جنگل سے ہوتے ہوئے بہار کے نورنگیا جاتے ہیں اور وہاں سے مدن پور، پنیہوا ہوتے ہوئے کھڈہ آتے ہیں۔ پھر سسوا سے ہوتے ہوئے ہم تحصیل نچلول پہنچتے ہیں۔ کئی بار ہم نورنگیا کے راستے بالمیکی نگر جاتے ہیں اور وہاں سے ٹرین کے ذریعے سیسوا آتے ہیں اور پھر بس یا ٹیکسی سے نچلول جاتے ہیں۔’

بھوتہاں گاؤں کے مہندر پٹیل کہتے ہیں، ‘جب نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ پیپا پل کا افتتاح کرنے آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جہاں پیپا پل لگتا ہے، وہاں پختہ پل بھی بنایا جاتا ہے۔ آپ لوگوں کو تھوڑا صبر کرنا پڑے گا لیکن چار سال گزرنے کے باوجود پختہ  پل کی تعمیر میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کھڈہ تحصیل کا افتتاح کرنے آئے تو انہوں نے بھی پختہ  پل کی یقین دہانی کرائی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ وہ تیز لہجے میں کہتے ہیں، ’75 سال سے ہمیں  بھروسہ ہی ملا ہے۔ حکومت بننے کے بعد کون پوچھتا ہے۔’

شری کانت کہتے ہیں، ‘جب بی جے پی ایم پی پنکج چودھری 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ مانگنے آئے تو ہم نے پل بنانے کا مطالبہ کیا۔ تب انہوں نے کہا کہ آپ سب نے مودی جی کو دیکھنا ہے، ہمیں نہیں۔ اس بار آئے تو پوچھیں گے کہ اب کس کو دیکھنا ہے۔’

شری کانت بتاتے ہیں، ‘ ہمارے گاؤں سے چار کلومیٹر دور نیپال کا سستہ گاؤں ہے۔ وہاں 90-95 گھر ہیں۔ اتنے لوگوں کے لیے نیپال کی حکومت نے 5 کروڑ کی لاگت سے 14 پایے والا  جھولا پل بنوایا ہے لیکن ہماری حکومت 50 ہزار لوگوں کے لیے پل بنانے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔’

بھوتہاں گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع شیو پور گاؤں کشی نگر ضلع میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی چار ہزار ہے جس میں دو ہزار سے زائد ووٹرز ہیں۔ گاؤں میں مسہر، کوئری، راج بھر اور نشاد برادریوں کی آبادی زیادہ ہے۔

اس گاؤں کے رہنے والے نظام الدین نارائنی سنگھرش سمیتی کے نائب صدر ہیں۔ وہ گنڈک ندی پر پل بنوانے کے لیے  کافی سرگرم ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ‘میں بہار والے راستے کو  بنواتے  بنواتے تھک گیا، ہار گیا۔ پھر پیپا پل کے لیے جدوجہد شروع کی گئی جو کامیاب رہی۔ ہم چاہتے ہیں کہ گنڈک ندی پر پل بنانے کے ساتھ ساتھ مہاراج گنج کے تین گاؤں کشی نگر میں جوڑ دیا جائے۔ اس سے ہر گاؤں کی ایک انتظامی اکائی  ہو جائے گی اور ہمیں آمدورفت اور اہم کاموں کے لیے دو اضلاع کے درمیان نہیں بھٹکنا پڑے گا۔’

وہ مزید کہتے ہیں، ‘ہم دو اضلاع کے ساتھ ساتھ دو ریاستوں میں تقسیم ہیں۔ ہم لوگوں کے پتے پر خط بہار کے مغربی چمپارن ضلع کے نام آتا ہے کیونکہ سوہگی برواں میں پوسٹ آفس اسی ضلع کے تحت آتا ہے۔ ہماری تحصیل اور بلاک کھڈہ ہے جبکہ قانون گو کا علاقہ پنیہوا کا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں ریونیو کے کاموں کے لیے دو جگہ جانا پڑتا ہے۔’

سوہگی  برواں بازار میں ووٹنگ کے بائیکاٹ کا بڑا بینر لگا ہے۔وہیں چائے کی دکان پر نارائنی سنگھرش کمیٹی کے صدر رام سہایے دوبے، سرپرست برہما یادو اور کمیٹی کے سینئر ارکان راجیش گپتا، ونے سنگھ، پرشورام یادو ملے۔

رام سہایے دوبے نے بتایا کہ انہیں سیتو نگم کے ڈائریکٹر کا فون آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا میمورنڈم وزیراعظم آفس پہنچ گیا ہے۔ سوہگی برواں سمیت تمام دیہاتوں کو جوڑنے کے لیے بڑی گنڈک پر پانچ کلومیٹر طویل پل بنانا ہوگا جس پر 500 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔

کلیم اللہ میڈیا کے کردار سے بھی مایوس اور ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘میڈیا کے تمام لوگ کیمرہ لے کر آتے ہیں لیکن ہمارا پیغام حکومت تک پہنچا نہیں پاتے ہیں۔’

(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)