ڈاکوؤں کی وجہ سے بدنام علاقہ چنبل کے کئی ڈاکوؤں نے سول سوسائٹی ترون بھارت سنگھ کی مدد اور حوصلہ افزائی کے بعد تشدد، لوٹ مار اور بندوقیں چھوڑ کر پانی کے بحران کا سامنا کر رہے اس علاقے میں پانی کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ورلڈ واٹر پیس ڈے کے موقع پر ان میں سے کئی کو اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
دھول پور ضلع کا متھارا گاؤں۔ رام پرکاش گجر اور گجراج سنگھ گجر، دو بھائیوں کا گھر۔ گھر کے باہر چار ٹریکٹر اور دو موٹر سائیکل کھڑے ہیں۔ ترون بھارت سنگھ کے سربراہ راجندر سنگھ کے ساتھ ہم دس کے قریب لوگ ان کے مہمان خانے میں داخل ہوتے ہیں۔ دونوں بھائیوں کا پورا خاندان اور گاؤں کے تقریباً 30 لوگ بھی ہمارے استقبال کے لیے وہاں موجود ہیں۔ ہمارے ساتھ ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے سابق سربراہ اور 2030 آبی وسائل گروپ برائے ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے شریک سربراہ باسٹیان مورمین بھی ہیں۔ علاقے کے ایم ایل اے سنجے جاٹو کو بھی گجر خاندان کی جانب سے مدعو کیا گیا ہے۔
یہ سب پڑھتے ہوئے اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ گاؤں کے کسی لیڈر یا قدآور شخص کا گھر ہے تو ذرا ٹھہریے۔ یہ چنبل کے علاقے کے دو نامی گرامی ڈاکوؤں کا گھر ہے، جن کے نام سے کبھی اس علاقے میں دہشت طاری ہو جاتی تھی، اور گاؤں میں موجود 30 افراد میں سے ایک وہ ملکھان سنگھ بھی ہیں، جن کے نام کا پورے علاقے میں خوف تھا اور پولیس کی طرف سے ان کے سر پرانعام بھی۔ لیکن اب یہ سب ماضی کی باتیں ہے۔ اب ان سب کی شناخت گولیوں اور بندوقوں سے نہیں بلکہ اس بات سے ہوتی ہے کہ کس نے اپنے ساتھ، کتنے لوگوں کے ہاتھ سےبندوقیں سے چھڑوائیں اور کتنے لوگوں کو دھول پور اور کرولی ضلع کے دیہاتوں میں پانی کے تحفظ کے کام کے لیے تیار کیا۔
لیکن ایسا کیا ہوا کہ ایک کے بعد ایک دیہاتوں میں تشدد اور لوٹ مار میں مصروف لوگ اپنی بندوقیں چھوڑ کر پانی کے تحفظ اور کھیتی باڑی جیسے محنت اور مشقت کے کام میں لگ گئے۔
ورلڈ واٹر پیس ڈے کے موقع پر (جو 22 مارچ کو تھا)، ترون بھارت سنگھ نے تشدد کو ترک کرکے پانی کے تحفظ کے کام کے ذریعے امن کی راہ پر آچکے ایسے 17 لوگوں کو 20 مارچ کو اعزاز سے نوازا۔ شانتی جل لوک سمیلن میں ملک اور بیرون ملک سے تقریباً دو سو مندوبین کے سامنے انہیں صافہ پہنایا گیا اور سند دیے گئے۔ کچھ ڈاکوؤں نے اپنے سند میں یہ بھی درج کروایا کہ بندوق چھوڑنے کے وقت ان کے خلاف کتنے معاملے چل رہے تھے۔ لیکن آج ان میں سے کسی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ یہ سب اپنی سزا پوری کرنے کے بعد الزامات سے مکمل طور پر آزاد ہو چکے ہیں اور اپنےاپنے گاؤں میں پانی کے تحفظ کا کام کر رہے ہیں اور ان کے سند سے بتاتے ہیں کہ اب وہ جل شانتی (پانی کے لیے امن کے) عالمی سفیر ہیں۔
کانفرنس کے لیے مقام بھی پوری دنیا کو عدم تشدد کا پیغام دینے والے تیرتھنکر مہاویر کی مقدس سرزمین شری مہاویر جی، بنواری پور، ضلع کرولی میں بھی رکھا گیا تھا۔ اعزاز پانے والے سابق ڈاکوؤں میں سیارام، روپ سنگھ، رگھویر سنگھ چپرالہ، دولیا رام، ملکھان سنگھ، رام پرکاش (متھارا) اور رام پرکاش (ناہرپورہ)، جگدیش، نریش، رام اوتار، رستم سنگھ، گجراج سنگھ، مراری لال، بھیروں سنگھ، بچو سنگھ، جگدیش اور ان کی بیوی سمپتی دیوی شامل ہیں۔
سمپتی دیوی نے نہ صرف اپنے شوہر سے بندوق چھڑائی بلکہ کئی گاؤں میں لوگوں کو پانی کا کام کرنے کی ترغیب بھی دی۔
عالمی امن کے سفیر
ان سب کو عالمی امن کے سفیر کہنا درست ہوگا۔ آج جبکہ پوری دنیا جنگ، تشدد، سیلاب، خشک سالی، طوفان، شدید گرمی اور شدید سردی کی ہولناکیوں سے دوچار ہے، بندوق چھوڑ کر پانی کے تحفظ کے ذریعے اپنے اور اپنے خاندان، معاشرے اور ارد گرد کے ماحول میں امن اور خوشحالی قائم کرکے انہوں نے بتا دیا ہے کہ اگر پانی کو بچا لیا جائے تو معاشرہ اور فطرت دونوں کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ 40 سالوں سے مغربی راجستھان کے اراولی علاقے میں مقامی برادریوں کو شامل کر کے پانی کے تحفظ اور دریاؤں کی بحالی کے کام میں مصروف ترون بھارت سنگھ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر مقامی سطح پر کمیونٹی کے مفاد میں اس کو اعتماد میں لے کر ایسے کام کیے جائیں جن سےان کی روزی روٹی اور عزت واپس مل سکے، تو انہیں کہنا نہیں پڑتا کہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر زندگی کی طرف لوٹ آؤ۔ وہ آہستہ آہستہ خود ہی اپنا راستہ بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔
ترون بھارت سنگھ کے سربراہ راجندر سنگھ کہتے ہیں، ‘جب بھی کوئی ڈاکو خاندانی دباؤ میں ہم سے ملنے آیا، تو ہم نے اسے کبھی تشدد کا راستہ ترک کرنے کو نہیں کہا، ہم نے اسے صرف اتنا کہا کہ اگر گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح تم بھی تالاب بنانے کا کام بھی کروگے تو تمہاری اپنی کھیتی باڑی شروع ہو جائے گی۔ تمہارے خاندان اور گاؤں کو پانی ملے گا۔ تمہارے جانوروں کو پانی ملے گا۔ کھیتی باڑی ہوگی تو چارہ بھی ملے گا۔ پانی کی کمی سے مرنے والے جانور اور پرندے اپنی پیاس بجھا سکیں گے۔ تالاب کی تعمیر سے کنوؤں میں بھی پانی آئے گا۔دھوپ کی شدت میں خواتین کو پانی لانے کے لیے میلوں دور نہیں بھٹکنا پڑے گا۔ اگر دھرتی ماں کے پیٹ میں پانی جائے گا تو خشک ندیاں بھی بہنے لگیں گی۔ ان سب سے تمہیں نہ صرف روزی روٹی ملے گی بلکہ دھرتی ماں کے لیے کام کرکے تم نیکی بھی کماؤ گے۔ گھر میں سکون سے رہ سکو گے۔ تشدد، لوٹ مار اور ڈرنے—ڈرانے کی زندگی سے آزادی مل جائے گی۔’
چنبل کے علاقے میں ترون بھارت سنگھ کی جانب سے زمین پر کام کرنے والے ایک کارکن رنبیر سنگھ کہتے ہیں، ‘ہماری اس طرح کی باتوں کے بعد جب بھی کوئی ڈاکو ہمارے پاس واپس آیا، تو اس کا پہلا سوال یہ ہوتا تھا کہ میرے خلاف چل رہے مقدموں کا کیا ہوگا؟ پولیس پکڑ کر جیل میں ڈال دے گی۔’ پھر راجندر بھائی صاحب خود اس سے بات کرتے۔’
راجندر سنگھ کے مطابق، ‘جب آٹھ دس کی تعداد میں ڈاکو آ گئے تو میں نے خود پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کی۔ اس کے بعد ان سب نے پولیس کے سامنے خودسپردگی کی۔ اس کے بعد کوئی ایک مہینہ یا ایک سال جیل میں گزارنے کے بعد فرد جرم سے بالکل آزاد ہو کر پانی کے تحفظ کے کام میں لگ گیا۔ بڑے ڈاکوؤں کی گینگ کے بھی اکثر ڈاکو اورلوٹ مار کرنے والے انہی کے ساتھ اپنے اپنے گاؤں میں پانی کے تحفظ کے کام میں لگ گئے۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے کانفرنس میں صرف 17 ایسے ڈاکوؤں کو اعزاز سے نوازا ہے لیکن حقیقت میں پورے علاقے کے سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈاکو یا چور اب پانی کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔’
رنبیر نے بتایا کہ گزشتہ 15 سالوں میں ترون بھارت سنگھ نے اب تک کرولی اور دھول پور اضلاع کے 100 گاؤں میں کل 222 چھوٹے اور بڑے پانی کے ڈھانچے بنائے ہیں۔ اس سے اس علاقے کی 19 ندیاں جو گزشتہ 40 سالوں میں سوکھ گئی تھیں سیراب ہو چکی ہیں۔ پہلے جو برساتی تھی، وہ بھی اب سال بھر بہتی ہے۔ سیرنی اور مہیشورا ندیاں بھی بہنے لگی ہیں۔ ان کی وجہ سے تقریباً 300 دیہات کے لوگوں نے اب خریف اور ربیع دونوں فصلیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ پہلے وہ صرف برسات کے موسم باجرہ میں پیدا کرتے تھے جو ان کی سال بھر کی خوراک کے لیے ہی کافی ہوتا تھا۔ اب گندم اور سرسوں ان کی اہم فصلیں بن چکی ہیں۔
ارودہ گاؤں سے پانی کے تحفظ کے کام میں مصروف سابق ڈاکو سیارام نے کہا، ‘پہلے ہم روز مرتے تھے اور روز جیتے تھے۔ روز ڈرتے اور روز ڈراتے تھے۔ لیکن اب ہم نہ ڈرے ہیں نہ ڈراتے ہیں۔ اب ہمارے اندر سکون ہے۔ اطمینان ہے۔ ہم اپنوں سے نظر ملا سکتے ہیں۔ اب ہم پانی دار ہیں، اس لیے اب ہم عز ت دار بھی ہیں۔’
سیارام کا مزید کہنا ہے کہ ‘پہلے ڈاکہ زنی کرنے کے بعد بھی ہم کبھی کبھی بھوکے رہتے تھے اور رات کے اندھیرے میں گھر آکر کھانا کھاتے، بیوی بچوں سے ملتے اور واپس لوٹ جاتے تھے۔ لیکن آج گاؤں کے ہر گھر میں گیہوں کے کوٹھار ہیں۔ جانوروں کے لیے چارہ ہے۔ یہاں تک کہ دو بیگھہ اراضی والا گھرانہ بھی کھیتی باڑی اور دودھ سے سالانہ 3 سے 5 لاکھ روپے کماتا ہے۔ زیادہ زمین رکھنے والوں کی سالانہ آمدنی 10 سے 15 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ اور اگر ہم پورے گاؤں کے کھاتوں کو جوڑیں تو اب تقریباً ایک کروڑ روپے گاؤں کے لوگوں کو سالانہ آتے ہیں۔ اب نقل مکانی بھی رک گئی ہے۔’
ان ڈھانچوں کو دیکھنے اور گاؤں والوں سے بات کرنے کے بعد باسٹیان مورمین کا کہنا تھا، ‘یہ کام یقیناً یہاں کے لوگوں کا کام ہے۔ ترون بھارت سنگھ نے انہیں یقین دلایا کہ وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد سارے گاؤں والے اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ تالاب کہاں بنایا جائے گا اور کیسے بنایا جائے گا۔ آج جب پوری دنیا سیلاب، خشک سالی، طوفان اور بے موسمی بارشوں جیسی آفات سے نبرد آزما ہے، تو یہاں کے معاشرے نے دکھایا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو مقامی سطح پر آبی ڈھانچے بنا کر موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے واٹر ورکس کے ذریعے اس علاقے میں امن اور خوشحالی کا جو پیغام دیا ہے وہ پوری دنیا کے لیے قابل تقلید ہے۔ اس لیے یہ جل شانتی (پانی کےامن کے) حقیقی سفیر ہیں۔’
جب میں نے ہندوستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں پانی کے تحفظ کے کاموں سے وابستہ مورمین سے پوچھا کہ کیا پانی کے تحفظ کے مقامی، کمیونٹی اور ڈی سینٹر لائز نظام کے اس ماڈل کو دوسرے علاقوں میں لاگو کیا جانا چاہیے، تو ان کا جواب تھا، ‘ اگر اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے پانی کے تحفظ کا کام ہندوستان اور دیگر ممالک میں کیا جائے تو ایک مستحکم معاشرہ اور مستحکم معیشت کی تشکیل ممکن ہوگی۔ فطرت پھر زندہ شکل میں ہمارے ساتھ ہوگی۔’
(نیلم گپتا سینئر صحافی اور ‘چھوٹی، دربی اور نربدا’ کتاب کی مصنفہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ