تمل ناڈو ایک بہت بڑا مینوفیکچرنگ مرکز ہے، جس نے شمالی ہندوستان کی بڑی ریاستوں کو مسلسل پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، یہاں صرف 2 فیصد غریب ہیں، جبکہ گجرات میں 12 فیصد، یوپی میں 23 فیصد اور بہار میں 34 فیصد غریب ہیں۔
نئی دہلی: تمل ناڈو کے مدورائی میں گزشتہ ہفتے انتخابی مہم کے دوران ریاست میں حکمراں ڈی ایم کے اور کبھی اس کے گٹھ بندھن کا حصہ رہی اے آئی اے ڈی ایم کے کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی لیڈر اور وزیر داخلہ امت شاہ نے الزام لگایا کہ دونوں پارٹیوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ تمل ناڈو میں ‘وکاس نہ ہو۔’
رپورٹ کے مطابق، امت شاہ نے مبینہ طور پر ریاست کے لوگوں سے کہا کہ دونوں پارٹیوں کی طرف سے کی گئی توہین کا پتہ لگائیں اور انہیں اس الیکشن میں واپس بھیج دیں ۔ انہوں نے کہا کہ مودی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جا رہے ہیں، اس لیے مودی کو تیسری بار وزیر اعظم بنائیں۔
حالانکہ امت شاہ کے بیان حقائق سے بالکل الگ ہیں …
ایک؛ تمل ناڈو ہندوستان کے سب سے بڑے مینوفیکچرنگ علاقوں میں سے ایک ہے۔
وزارت شماریات کے صنعتوں کے سالانہ سروے کے مطابق، مالی سال 2022 میں 39512 فیکٹریاں تھیں، جو ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔
دو؛ نام نہاد گلوبل ‘چین +1’ اسٹریٹجی کے طور پر، ہندوستان خود کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ایک متبادل مینوفیکچرنگ منزل کے طور پر قائم کرنے کی امید کر رہا ہے، جسے امریکہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تمل ناڈو ہندوستان میں الکٹرانک مینوفیکچرنگ سروس کے سیکٹر کا ایک بڑا مرکز ہے ۔
مودی جس ایپل/آئی فون فیکٹریوں کے بارے میں شیخی بگھارتے ہیں، وہ تمل ناڈو میں ہیں۔ دسمبر 2023 میں یہ بتایا گیا تھا کہ ٹاٹا نے تمل ناڈو کے ہوسر میں ہندوستان کے سب سے بڑے آئی فون اسمبلی پلانٹ میں سے ایک بنانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔
بلومبرگ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پلانٹ دو سال کے اندر 50 ہزار لوگوں کو نوکریاں دے گا۔
تین؛ اس سال کی شروعات میں سوشل میڈیا پر یہ پیغامات آئے تھے کہ یوپی نے تمل ناڈو کی گروتھ ریٹ کو ‘پار’ کر لیاہے، سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ یوپی نیا ابھرتا ہوا مرکز ہے۔ آدتیہ ناتھ کو ہر جگہ بی جے پی کے اہم پرچارک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
لیکن سابق وزیر خزانہ اور اب تمل ناڈو میں آئی ٹی کے وزیر پی تیاگ راجن نے کہا، ‘دو دہائی پہلے، اتر پردیش کی معیشت تمل ناڈو (2004-2005) کے مقابلے میں 19 فیصد بڑی تھی اور 2013-2014 تک بڑی بنی رہی۔ ‘اچھے دن’ کے آغاز کے بعد سے یہ صرف تمل ناڈو سے پیچھے رہ گیا ہے، اور حال ہی میں تمل ناڈو کی معیشت (2022-2023) میں اس کا 95.48 فیصد حصہ تھا۔
چار؛ لگاتار بی جے پی کو منتخب کرنے والی ریاستوں کے مقابلے میں جنوبی ہندوستان، خاص طور پر تمل ناڈو میں غریبی کے اعداد و شمار میں بہت فرق ہے۔
نیتی آیوگ کے مطابق، تمل ناڈو کی 2.2 فیصد آبادی غریب ہے۔ گجرات میں، جہاں مودی 12 سال سے زیادہ وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور 1990 کی دہائی سے بی جے پی اقتدار میں ہے، غریب 11.66 فیصد ہیں۔
بہار میں 33.8 فیصد، اتر پردیش میں 22.9 فیصد اور مدھیہ پردیش میں 20.6 فیصد غریب ہیں۔
پانچ؛ صنعتوں کے سالانہ سروے نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ تمل ناڈو نے دو دہائیوں سے زائد عرصے سے فیکٹری ورک فورس میں خواتین کی سب سے زیادہ حصہ داری ریکارڈ کی ہے۔ 2021-2022 تک ہندوستان کی کل خواتین فیکٹری ورک فورس کا 42 فیصد تمل ناڈو میں تھا۔ یہ وہ وقت ہے جب ہندوستان میں خواتین کو افرادی قوت میں شامل کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
چھ؛ انسانی ترقی کے اشاریہ یا ایچ ڈی آئی کے لحاظ سے، تمل ناڈو 2021 میں 0.686 کے اسکور کے ساتھ ہندوستان میں 11 ویں نمبر پر ہے۔ یہ 1990 سے پانچ درجے اوپر ہے، جب یہ 0.475 کے اسکور کے ساتھ 16 ویں نمبر پر تھا۔
بی جے پی لیڈر تمل ناڈو کو لے کر تذبذب میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی یہاں کبھی اقتدار میں نہیں رہی، جہاں، اتفاق سے، ‘وکاس’ اور ترقی کے ساتھ ساتھ سوشل انڈیکس اور سماجی ہم آہنگی کے اعداد و شمار ہندوستانی چارٹ میں سرفہرست ہیں۔
اور اتفاق سے، دانشوروں نے تمل ناڈو اور دیگر جنوبی ریاستوں کے بارے میں بھی یہ بات نوٹ کی ہے، جنہوں نے مسلسل اعلیٰ ترقی، ہم آہنگی اور صحت مند اعداد و شمار درج کیے ہیں، اور جہاں بی جے پی کبھی قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
غور طلب ہے کہ تمل ناڈو کی 39 پارلیامانی نشستوں پراپنے لوک سبھا کے نمائندوں کے انتخاب کے لیے جمعہ (19 اپریل) کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہو رہی ہے۔
Categories: الیکشن نامہ, خبریں