راجستھان کے بانس واڑہ میں ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن کا اتحاد اقتدار میں آتا ہے تو عوام کی محنت کی کمائی ‘گھس پیٹھیوں’ اور ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والوں’ کو دے دی جائے گی۔
نئی دہلی: ایک انتخابی مہم کے دوران اتوار (21 اپریل) کو راجستھان کے بانس واڑہ میں وزیر اعظم نریندر مودی نہ صرف ہندو مذہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو ‘گھس پیٹھیے’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن کا اتحاد اقتدار میں آیا تو انہیں ‘منگل سوتر بیچنے پر مجبور’ کر دیا جائے گا اور ان کی جائیداد زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دے دی جائے گی۔
انہوں نے کہا، ‘ہمارے آدی واسی لوگوں کے پاس چاندی ہوتی ہے اس کا حساب لگایا جائے گا، جو بہنوں کا سونا ہے اور جو جائیدادیں ہیں، ان سب کو مساوی طورپر تقسیم کر دیا جائے گا، کیا یہ آپ کو منظور ہے؟ کیا آپ کی جائیداد کو حکومت کو لینے کا حق ہے؟ کیا آپ کی محنت سے کمائی گئی جائیداد کو حکومت کو اینٹھنے کا حق ہے؟’
اپنے پیش رو اور 2004 سے 2014 تک یو پی اے حکومت کے وزیر اعظم رہے منموہن سنگھ کا حوالہ دیتے ہوئےمودی نے کہا، ‘پہلے جب ان کی حکومت تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ جائیداد جمع کرکے کس کو تقسیم کریں گے — جن کے زیادہ بچے ہیں ان میں تقسیم کریں گے۔گھس پیٹھیوں میں تقسیم کریں گے۔ آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو دیا جائے گا؟ آپ کو منظور ہے یہ ؟’
مودی یہیں نہیں رکے۔ انہوں نے کانگریس کے منشور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، ‘… یہ کانگریس کا منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماں-بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے، اس کی جانکاری حاصل کریں گے اور پھر اسے تقسیم کر دیں گے اور ان میں تقسیم کر دیں گے۔ اور ان میں تقسیم کریں گے جن کے بارے میں منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے… … یہ اربن نکسل کی سوچ ہے، میری ماؤں اور بہنوں – وہ آپ کے منگل سوتر کو بھی بچنے نہیں دیں گے، یہ یہاں تک جائیں گے۔’
نریندر مودی اور بی جے پی نے اب تک اپنی انتخابی مہم میں کئی بار مذہب، عقیدہ، رام مندر اور رام کا ذکر کیا ہے اور لوگوں سے براہ راست ان سب کے نام پر ووٹ دینے کو کہا ہے۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
کیا واقعی منموہن سنگھ نے ایسا بیان دیا تھا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مبینہ بیان کا حوالہ وزیر اعظم دے رہے ہیں، کیا منموہن سنگھ نے ایسا کچھ کہا تھا۔ جواب ہے نہیں ۔
نریندر مودی اکثر یہی دعویٰ کرتے رہے ہیں، 2006 میں، جب مودی نے پہلی بار یہ کہا تھا، تب خود ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پی ایم او کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی۔ پی ایم او نے کہا تھا کہ ‘نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کے اجلاس میں حکومت کی مالی ترجیحات پر وزیر اعظم کے بیان کی جان بوجھ کر غلط تشریح کی گئی ہے اور اس نے ایک ایسے تنازعہ کو جنم دیا ہے جس کو آسانی سے ٹالا جا سکتا تھا۔’ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ‘الکٹرانک میڈیا کے کچھ حصوں میں بھی وزیر اعظم کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے، جس سے اس بے بنیاد تنازعے کو بڑھاوا ملا۔’
اقلیتوں کو بااختیار بنانے کی جس بات کو لے کر تنازعہ پیدا کیاجا رہا ہے وہ کچھ یوں تھا، ‘میرا ماننا ہے کہ ہماری اجتماعی ترجیحات واضح ہیں؛ زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی انفراسٹرکچر میں اہم سرمایہ کاری، اور مشترکہ انفراسٹرکچر کے لیے عوامی سرمایہ کاری کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ایس سی /ایس ٹی، دیگر پسماندہ طبقات، اقلیتوں اور خواتین اور بچوں کی ترقی کے پروگرام ہوں۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے جزوی اسکیموں کو دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نئے منصوبے بنانے ہوں گے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیتوں کو ترقی کے ثمرات میں یکساں طور پر حصہ لینے کا حق ملے۔ وسائل پر پہلا دعویٰ ان کا ہونا چاہیے۔ مرکز کے پاس دیگر بے شمار ذمہ داریاں بھی ہیں، جن پر مجموعی وسائل کی دستیابی کے حساب سے غور کرنا ہوگا۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس وقت کے پی ایم او نے کہا تھا، ‘…یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کا’وسائل پر پہلے دعوے’ کا حوالہ اوپر درج کیے گئے تمام ‘ترجیحی’ شعبوں سے ہے، جس میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کی بہتری کے پروگرام شامل ہیں۔’
اپوزیشن نے کہا- نفرت کے بیج بو رہے ہیں مودی
نریندر مودی کے بیان کے بعد اپوزیشن اور کانگریس نے اس بیان کی مخالفت کی۔ پارٹی کے میڈیا اور پبلسٹی انچارج پون کھیڑا نے ٹوئٹر (اب ایکس ) پر جاری ایک ویڈیو بیان میں کہا، ‘وزیراعظم نے آج پھر جھوٹ بولا، ایک الیکشن جیتنے کے لیے آپ عوام کے سامنے جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں گے۔ آپ کی گارنٹی اور وعدے جھوٹے ہیں، آپ ہندو اور مسلم کے نام پر جھوٹ بول کر ملک کو تقسیم کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو چیلنج ہے کہ ہمارے منشور میں کہیں بھی ہندو مسلم لکھا ہو تو دکھا دیں … اس قسم کا ہلکا پن آپ کی ذہنیت میں ہے، آپ کی سیاسی اقدار میں ہے۔ ہم نے نوجوانوں، خواتین، کسانوں، آدی واسیوں، متوسط طبقے اور مزدوروں کے لیے انصاف کی بات کی ہے۔ کیا آپ کو اس پر بھی کوئی اعتراض ہے؟’
کھیڑا مودی کی طرف سے اس سے پہلے کانگریس کے منشور کو ‘مسلم لیگ’ سے جوڑنے کا حوالہ دے رہے تھے۔
आज मोदी जी के बौखलाहट भरे भाषण से दिखा कि प्रथम चरण के नतीजों में INDIA जीत रहा है।
मोदी जी ने जो कहा वो Hate Speech तो है ही, ध्यान भटकाने की एक सोची समझी चाल है। प्रधानमंत्री ने आज वही किया जो उन्हें संघ के संस्कारों में मिला है।
सत्ता के लिए झूठ बोलना, बातों का अनर्गल…
— Mallikarjun Kharge (@kharge) April 21, 2024
اس دوران، کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے پی ایم مودی کے بیان پر کہا کہ ہندوستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے اپنے عہدے کے وقار کو اتنانہیں گرایا جتنا مودی جی نے گرایا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘آج مودی جی کی بوکھلاہٹ نے ظاہر کر دیا کہ پہلے مرحلے کے نتائج میں ‘انڈیا’ جیت رہا ہے۔ مودی جی نے جو کہا وہ ہیٹ اسپیچ تو ہے ہی ، توجہ ہٹانے کی ایک دانستہ چال ہے۔ آج وزیر اعظم نے وہی کیا جو انہیں سنگھ سے ملا ہے۔ اقتدار کے لیے جھوٹ بولنا، چیزوں کا جھوٹا حوالہ دینا اور مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانا سنگھ اور بی جے پی کی تربیت کی خاصیت ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘ملک کے 140 کروڑ لوگ اب اس جھوٹ کے جھانسے میں نہیں آنے والے ہیں۔ ہمارا منشور ہر ہندوستانی کے لیے ہے۔ سب کے لیے برابری کی بات کرتا ہے۔ سب کے لیے انصاف کی بات کرتا ہے۔ کانگریس کے منشور کی بنیادسچائی پرہے، مگر لگتا ہے گوئبلز جیسے آمر کی کرسی اب ڈگمگا رہی ہے۔
اس دوران، یوتھ کانگریس کے لیڈر بی وی شری نواس نے پی ایم مودی کے اس بیان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی خاموشی پر سوال اٹھایا ۔
پی ایم مودی کے بیان کا ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہ شخص اس ملک کا وزیر اعظم ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا اب زندہ نہیں بچاہے۔ہار کی بوکھلاہٹ میں کھلے عام ہندوستان کے وزیر اعظم نفرت کے بیج بو رہے ہیں، منموہن سنگھ جی کے 18 سال پرانے ادھورے بیان کا غلط حوالہ دے کر پولرائزیشن کر رہے ہیں ،لیکن الیکشن کمیشن (مودی کا پریوار) قدموں میں پڑا ہے۔’
اس کے ساتھ ہی انہوں نے منموہن سنگھ کے مبینہ بیان سے متعلق ایک فیکٹ چیک کا لنک بھی شیئر کیا ہے ۔
Categories: الیکشن نامہ, خبریں