امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس وقت امریکی شہری اور خالصتان حامی گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ سازش ہوئی، اس وقت را کے سربراہ سامنت گوئل پر ‘بیرون ملک رہنے والے سکھ بنیاد پرستوں کو ختم کرنے کا کافی دباؤ تھا۔
نئی دہلی: ہندوستانی حکام کے خلاف امریکی شہری اور خالصتان حامی وکیل گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی کوشش کی سازش کے الزامات کے حوالے سے نئی جانکاری سامنے آئی ہے ۔
امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی حکام نے جس گمنام ہندوستانی پر پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کا الزام لگایا ہے، وہ ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (را) کے سابق افسر ہیں اور ان کا نام وکرم یادو ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس وقت پنوں کے قتل کی مبینہ سازش ہوئی ، اس وقت را کے سربراہ سامنت گوئل پر ‘بیرون ملک رہنے والے سکھ بنیاد پرستوں کے مبینہ خطرے کو ختم کرنے کا کافی دباؤ تھا۔’
کیا قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو ‘سازش’ کے بارے میں علم تھا یا انہوں نے اس کی منظوری دی تھی، اس بارے میں رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ڈوبھال کو بیرون ملک سکھوں کو قتل کرنے کے را کے منصوبے کے بارے میں ممکنہ طور پر پتہ تھا، یا انھوں نے اس کی منظوری دی تھی، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس بارے میں کوئی ‘مصدقہ ثبوت’ نہیں ملا ہے۔
ہندوستان کے جن سابق عہدیداروں نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کی، ان کا کہنا تھاکہ وہ گوئل اور ڈوبھال، دونوں سے واقف ہیں اور گوئل شمالی امریکہ میں ڈوبھال کی منظوری کے بغیرقتل کی سازش کو انجام نہیں دے سکتے تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں امریکی استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ نکھل گپتا نامی ہندوستانی شہری نے ہندوستانی حکومت کے ایک اہلکار کے حکم پر امریکہ میں ایک شخص (جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ گرپتونت سنگھ پنوں تھا)کے قتل کے لیے ایک ہٹ مین کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے پنوں کےقتل کی سازش کو جون میں کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے بھی جوڑا تھا۔ جمہوریہ چیک میں گرفتار ہونے کے بعد گپتا اس وقت امریکہ کی حوالگی کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں ۔
پنوں کے پاس امریکہ اور کینیڈا کی دوہری شہریت ہے اور وہ ‘سکھ فار جسٹس’ نامی گروپ کے وکیل کے طور پر کام کرتے ہیں ،جس پر ہندوستان میں پابندی ہے۔ ہندوستان کی مرکزی وزارت داخلہ نے پنوں کو دہشت گرد اعلان کیا ہوا ہے ۔
پلان کی ناکامی کے بعد را میں الزام تراشی کا سلسلہ
واشنگٹن پوسٹ نے ایک سابق ہندوستانی سکیورٹی افسر کے حوالے سے کہا ہے کہ ‘یادو’ را میں ایک جونیئر افسر کے طور پر بحال نہیں ہوئے تھے، بلکہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) میں چند سال کام کرنے کے بعد را میں ان کو تعینات کیا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پر، ‘یادو’ کے پاس شمالی امریکہ میں انجام دیے جانے والے اس طرح کے اہم آپریشن کے لیے ‘ضروری تربیت اور مہارت کی کمی’ تھی۔
امریکی استغاثہ کے مطابق ‘یادو’ نے پنوں کو قتل کرنے کے لیے ایک شخص یعنی نکھل گپتا کو چنا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں سابق ہندوستانی افسران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سازش کی ناکامی کے بعد ’را‘ کے اندر یہ ذمہ داری ’یادو‘ کو سونپنے کے فیصلے کے حوالے سے الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔’
ایک سابق افسر نے بتایا کہ اس ناکام سازش کا پردہ فاش ہونے کے بعد ‘یادو’ کو واپس سی آر پی ایف بھیج دیا گیا۔
‘مودی حکومت کی جانب سے بیرون ملک سکھوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے را کے افسران گرفتار ہوئے اور نکالے گئے’
غور طلب ہے کہ این آر آئیز کے خلاف را کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے نتیجے میں جرمنی، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں اس ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے افسران اور ایجنٹ کو گرفتار یا نکالا جا چکا ہے۔ اس سے قبل جرمنی کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے ہندوستانیوں پر ملک میں رہنے والے سکھوں اور کشمیریوں کی جاسوسی کا الزام لگایا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 اور 2015 میں برطانیہ میں را کی جانب سے سکھوں کی ‘نگرانی اور ہراساں کیے جانے’ کی وجہ سے برطانیہ کی ڈومیسٹک انٹلی جنس سروس نے سامنت گوئل کو خبردار کیا تھا۔ وہ اس وقت لندن میں را کے اسٹیشن چیف تھے۔
آسٹریلوی حکام نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وہاں کے انٹلی جنس چیف نے 2021 میں جب یہ کہا تھا کہ کچھ غیر ملکی اہلکار اپنے تارکین وطن کمیونٹی کی نگرانی کرنے، مقامی پولیس کے محکموں میں گھسنے اور آسٹریلوی ہوائی اڈوں سے حساس سکیورٹی معلومات چرانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے، تب وہ را کا ہی ذکر کر رہے تھے۔
ہندوستان کا جانچ دعویٰ
ہندوستان نے امریکی پراسیکیوٹرز کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی، تاہم کمیٹی میں کون کون ہے اور تحقیقات کس مرحلے تک پہنچی ہے، اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
بتادیں کہ 25 اپریل کو ہوئی میڈیا بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا تھا کہ ‘اعلیٰ سطحی کمیٹی امریکی فریق کی جانب سے شیئر کی گئی متعدد معلومات کا جائزہ لے رہی ہے، کیونکہ وہ ہماری قومی سلامتی کو بھی یکساں طور پر متاثر کرتی ہیں۔’
Our response to media queries on a story in The Washington Post:https://t.co/ifYYng7CT3 pic.twitter.com/LEIso6euN6
— Randhir Jaiswal (@MEAIndia) April 30, 2024
دریں اثنا، ہندوستانی حکومت نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں ‘ایک سنگین معاملے پر غیر منصفانہ اور بے بنیاد الزامات’ لگائے گئے ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کر رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب امریکی حکومت کو پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کا علم ہوا تو اس نے ہندوستان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے سے گریز کیا، تاہم ہندوستانی حکومت نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، جنہیں وہ اس سازش کے لیے ذمہ دار مانتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ‘سازش’ کے عام ہونے کے ممکنہ اثرات کے پیش نظر وہائٹ ہاؤس کے حکام نے اس ماہ کے شروع میں ہندوستانی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ واشنگٹن پوسٹ اس معاملے میں نئی معلومات دینے والی خبر شائع کرنے جا رہا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ وہائٹ ہاؤس نے انہیں بتائے بغیر ایسا کیا تھا۔
اس سے پہلے اسی ماہ کے شروع میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ امریکہ نے ہندوستانی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پنوں کیس میں ہندوستان کو مکمل تحقیقات کرتے دیکھنا چاہتا ہے اور تحقیقات کے نتائج کا انتظار کر رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، امریکی حکام نے کہا ہے کہ مودی اور ‘ان کے قریبی افسران’ نے معاملے میں جوابدہی کا وعدہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہندوستان یہ وعدہ پورا نہیں کرتا ہے تو ‘یادو’ ‘اب بھی الزامات اور دیگر سزاؤں کا سامنا کر سکتے ہیں’۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں