جی بی روڈ کی زیادہ تر سیکس ورکرز کے لیے لوک سبھا انتخابات اور اس کے نتائج کوئی معنی مطلب نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے برسوں سے ان کے لیے کچھ نہیں کیا، اس لیے اب کوئی امید بھی نہیں ہے۔ یہ علاقہ چاندنی چوک پارلیامانی حلقہ کے تحت آتا ہے، جہاں اس بار ‘انڈیا’ الائنس سے کانگریس کے جے پی اگروال اور بی جے پی کے پروین کھنڈیلوال کے درمیان مقابلہ ہے۔
نئی دہلی: دہلی کا جی بی روڈ، اگرچہ 1965 میں اس کا نام بدل کر شردھانند مارگ رکھ دیا گیا، پھر بھی یہ دہلی کے لوگوں کے لیے ‘ریڈ لائٹ ایریا’ جی بی روڈ ہی ہے۔ یہاں کی تنگ گلیاں، بجلی کے تاروں کا جال، سڑکوں پر غلاظت، خستہ حال عمارتیں اور ان میں چلنے والے بے شمار کوٹھے، کئی دہائیوں سے یہی اس جگہ کی پہچان ہیں۔ اور شاید آگے بھی یہی اس کی پہچان رہنے والی ہے۔
یہ علاقہ مٹیا محل اسمبلی حلقہ اور دہلی کی چاندنی چوک لوک سبھا سیٹ کے تحت آتا ہے۔ اجمیری گیٹ اور لاہوری گیٹ کے درمیان ڈھائی کلومیٹر لمبی اس سڑک کو لوگ اکثر حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ سینکڑوں سیکس ورکر کا ٹھکانہ ہے۔
دہلی کے دیگر علاقوں کے مقابلے اس علاقے میں انتخابی سرگرمیاں اور گہما گہمی بہت کم ہے۔ شاید یہی اس علاقے کی ابتر حالت کی وجہ بھی ہے۔
دہلی انتخابات کے چڑھتے پارے کے درمیان دی وائر کی ٹیم نے جی بی روڈ کا دورہ کیا اور یہاں کی کچھ سیکس ورکر سے انتخابات کے حوالے سے ان کے خیالات اور مسائل کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
اس علاقے میں کیمروں کی سخت ممانعت ہے۔ جیسے ہی آپ اجمیری گیٹ سے آگے بڑھتے ہیں، بہت سے لوگ آپ کو شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ یا تو آپ کا پیچھا کریں گے یا آپ انہیں کوٹھے کے متلاشی لگے، توآپ کی رہنمائی کر دیں گے۔ ایسا ہی ایک شخص ہمیں کوٹھے پر لے گیا۔
الیکشن آئی کارڈ تو ہے، لیکن انتخابات سے کوئی خاص مطلب نہیں
یہاں کی کوٹھا مالک، جنہیں ’میڈم‘ کہا جاتا ہے، گزشتہ کئی سالوں سے اس کوٹھے کو سنبھال رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لڑکیاں بہت کم عمری میں مجبوری یا کسی اور وجہ سے ملک کے دوسرے شہروں سے یہاں لائی جاتی ہیں اور پھر یہیں کی ہو جاتی ہیں۔ ان لڑکیوں کے پاس یہاں کا الیکشن آئی کارڈ تو ہے، لیکن ان کو انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
میڈم حق رائے دہی میں یقین رکھتی ہیں لیکن ان انتخابات کے حوالے سے ان کی رائے مختلف ہے۔
وہ کہتی ہیں، ‘انتخابات اور لیڈر ہمارے مسائل کو تھوڑی حل کر دیں گے۔ یہ لوگ صرف اپنے فائدے کے لیے آتے ہیں، انہیں ہم لوگوں سے کیا مطلب؟ ہماری زندگی برسوں سے ایسی ہی ہے۔ آگے بھی ایسی ہی رہے گی۔ کوئی کچھ نہیں بدلنے والا۔’
اس کوٹھے سے تھوڑے فاصلے پر ہی وہ کوٹھا ہے، جہاں سال 2020 میں آگ لگ گئی تھی۔ علاقے میں بجلی کی تاروں کا جال بچھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اکثر یہاں آگ لگتی رہتی ہے۔ تب دہلی خواتین کمیشن کی اس وقت کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے اس علاقے کا دورہ کرتے ہوئے کوٹھے کے مالکان، میونسپل کارپوریشن اور فائر ڈپارٹمنٹ کو نوٹس جاری کیا۔ اس کوٹھے پر آج بھی آگ کی لپٹوں کے نشان ہیں۔
یہاں رہنے والی کئی خواتین نے بتایا کہ جس وقت آگ لگی اس وقت کئی اعلیٰ افسران آچکے تھے۔کئی دنوں تک ان کا کام بند ہو گیا تھا۔ ان لوگوں میں خوف سما گیا تھا، کیونکہ اس وقت کوٹھے کو بند کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ تاہم، ایسا کچھ نہیں ہوا۔
اگر ایک طرف انتخابات کے تئیں بے حسی کا عالم تھا وہیں دوسری طرف ایک دوسرےکوٹھے کی خواتین نے کہا،’ہم ووٹ دیں گے کیونکہ یہ واحد حق ہے جو ہمیں باقی لوگوں کے برابر لائن میں کھڑا کرتا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہونے والا، پھر جو مرضی جیتے۔ کیونکہ اس جگہ کے ساتھ شروع سے ہی امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے، صرف بدنام کیا جاتا رہا ہے، لیکن کسی لیڈر، کسی پارٹی نے اس کے لیے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔’
امیدوار کی نہیں، صرف کیجریوال اور مودی کی جانکاری
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان خواتین کو معلوم ہے کہ یہاں سے کون الیکشن لڑ رہا ہے، ان کے علاقے سے کون امیدوار ہے تو ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، انہوں نے صرف کیجریوال اور مودی کے پوسٹر دیکھے ہیں۔ کئی خواتین کو ان دو بڑے ناموں کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔
وہیں، کچھ وزیر اعلیٰ کیجریوال کو بجلی اور پانی مفت دینے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی آئے، ایسی حکومت آئے جو غریبوں کے بارے میں سوچے۔
جی بی روڈ کی اکثر سیکس ورکرز کا الیکشن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کی دنیا صرف ان کا کام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے برسوں سے ان کے لیے کچھ نہیں کیا، اس لیے انھیں مستقبل میں بھی کوئی امید نہیں ہے، بس ان کے کام دھندے کو کچھ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ انھیں فاقہ کشی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ سیکس ورکرز ابھی تک نوٹ بندی اور کورونا کے اثرات سے نکل نہیں پائی ہیں۔
چاندنی چوک لوک سبھا حلقہ سے اس بار ‘انڈیا الائنس’ کی جانب سے کانگریس کے ٹکٹ پر جئے پرکاش اگروال الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ دہلی کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ (79 سال) ہیں اور یہ ان کا دسواں انتخاب ہے۔ اگروال چار بار—چاندنی چوک سیٹ سے تین بار اور ایک بار شمال-مشرقی دہلی (2009) سے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔
جے پی اگروال کا مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پروین کھنڈیلوال سے ہے، جنہیں پارٹی نے موجودہ ایم پی اور مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن کی جگہ میدان میں اتارا ہے۔
کھنڈیلوال تاجروں کی سب سے بڑی تنظیم کنفیڈریشن آف انڈیا ٹریڈرز کے جنرل سکریٹری ہیں۔ کھنڈیلوال کو سال 2017 میں جی ایس ٹی پینل کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ انہیں 2021 میں مرکزی حکومت کے پینل کے مشیر کے طور پر اوپن نیٹ ورک فار ڈیجیٹل کامرس (او این ڈی سی) کا رکن بنایا گیا تھا۔ چاندنی چوک کو تاجروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس بار بی جے پی نے اس سیٹ سے کھنڈیلوال پر داؤ لگایا ہے۔
جے پی اگروال اور پروین کھنڈیلوال کا جی بی روڈ سے کوئی سرکار نہیں
تاہم، ان دونوں رہنماؤں سے جی بی روڈ کی خواتین یا دکانداروں کا کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ ان میں سے اکثر نے ان کے نام تک نہیں سنے۔ کوٹھوں کے نیچے گراؤنڈ فلور پر بڑی تعداد میں آٹو پارٹس یا مشینری کی دکانیں ہیں۔ دکاندار بھی ان دونوں کے ناموں سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ کچھ لوگ جے پی اگروال کو جانتے ہیں، لیکن پروین کھنڈیلوال ان کے لیے بالکل نئے ہیں۔
وہیں کئی لوگوں کے لیے تو وزیر اعظم نریندر مودی ہی ان کے امیدوار ہیں کیونکہ ہر پرچے، پوسٹر اور دکان پر انہی کی تصویر نظر آتی ہے۔
یہاں رکشہ چلانے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے، یہ لوگ آس پاس ہی رہتے ہیں اور کئی سالوں سے یہاں کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی ہر کوٹھے تک اچھی رسائی ہے۔ انہیں کوٹھے پر گاہک لانے کے لیے الگ سے کمیشن بھی ملتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس بھی ووٹر شناختی کارڈ ہے۔ کئی لوگوں کو مفت راشن بھی ملتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہےکہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور کمائی گھٹتی جا رہی ہے۔ اس لیے یہ سرکار بدلنی چاہیے۔ اس سے زیادہ انہیں کچھ نہیں پتہ، نہ ہی کچھ بولنے میں ان کی دلچسپی ہے۔
سیکس ورکرز کسمپرسی کی زندگی گزارنے کو مجبور
غور طلب ہے کہ ملک کی پارلیامنٹ سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ‘بدنام گلی’ جی بی روڈ، یہاں کی سیکس ورکرز اور یہاں رہنے والے عام لوگوں کے مسائل بھلے ہی لیڈروں کے لیے اہم نہ ہوں، لیکن ان کا ووٹ ضروری ہے، پھراس سے کچھ بھلے ہی نہ بدلے۔
اس بارے میں کوئی واضح ڈیٹا نہیں ہے کہ یہاں کتنی سیکس ورکرز ہیں۔ لیکن یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سو کے قریب کوٹھے ہیں، جن میں ہزاروں سیکس ورکرز کسمپرسی کی زندگی گزارنے کو مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے خاندان بھی یہاں رہتے ہیں، جو اپنی شناخت کو مکمل طور پر خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کی بھی بدنامی ہوگی اور پولیس انہیں بھی ہراساں کرے گی۔
واضح ہو کہ سال 2022 کے ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے سیکس ورک کو پیشہ مانتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ پیشہ کوئی بھی ہو، آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ہندوستان کے ہر شہری کو عزت کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
تاہم، عدالت کے کہنے کے باوجود ان خواتین کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی پولیس کا خوف انہیں سکون سے جینے نہیں دیتا۔ گاہکوں کے نازیبا کلمات اور جھگڑے ان کے لیے عام ہیں۔ کسی طرح کی کوئی سرکاری مدد ان تک نہیں پہنچتی اور نہ ہی یہ خواتین مدد کے لیے کہیں پہنچ پاتی ہیں۔
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ