الیکشن نامہ

ووٹر ٹرن آؤٹ کا ڈیٹا جاری کرنے کے لیے کوئی قانونی حکم نہیں ہے: الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹنگ فیصد کے حتمی اعداد و شمار ریلیز کرنے میں تاخیر پر سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا ہے کہ ڈیٹا کو پبلک کرنے سے اس کا غلط استعمال ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے انتخابی عمل کے حوالے سے عوام کے درمیان عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/الیکشن کمیشن آف انڈیا)

(تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/الیکشن کمیشن آف انڈیا)

نئی دہلی: الیکشن کمیشن نے بدھ (22 مئی) کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ کمیشن کے پاس فارم 17 سی کی بنیاد پر ووٹنگ فیصد سے متعلق ڈیٹا، یا ہر پولنگ اسٹیشن پر ڈالے  گئے ووٹوں کو ظاہر کرنے کا کوئی لیگل مینڈیٹ نہیں ہے اور اس طرح کے انکشافات کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کمیشن نے یہ حلف نامہ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) اور کامن کاز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کے جواب میں داخل کیا ہے، جس میں موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کو فوری طور پر شائع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فارم 17 سی کی بنیاد پر تصدیق شدہ ووٹنگ فیصد ڈیٹا شیئر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن پابند نہیں ہے، کمیشن نے اپنے حلف نامے میں کہا؛

‘یہ واضح کیا جاتا ہے کہ امیدوار یا اس کے ایجنٹ کے علاوہ کسی اور شخص کو فارم 17سی فراہم کرنے کا کوئی قانونی حکم نہیں ہے۔ درخواست گزار بیچ الیکشن میں ایک درخواست دائر کر کے اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ قانون میں ایسا کوئی حق نہیں ہے۔’

اپنے جواب میں، کمیشن نے فارم 17سی کے ذریعے ووٹروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اپنی قانونی ذمہ داری اور اپنے ایپ، ویب سائٹ اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے ووٹنگ ڈیٹا کے غیر قانونی، ‘رضاکارانہ انکشاف’ کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

الیکشن کمیشن کے حلف نامے کا ایک حصہ۔

الیکشن کمیشن کے حلف نامے کا ایک حصہ۔

الیکشن کمیشن نے کہا، ‘اس عام اور عوامی انکشاف کا بنیادی ڈھانچہ سہولت کے لحاظ سے  تھا، جو کہ بلاشبہ غیر آئینی تھا اور ہے۔’ یہ بھی کہا کہ کمیشن کے ایپ پر ڈیٹا ‘قانون کے مطابق نہیں ہے بلکہ مختلف غیر قانونی ذرائع سے اکٹھا کیے گئے ڈیٹا کی عکاسی کرتا ہے۔’

اس میں کہا گیا ہے کہ آئی ٹی پلیٹ فارم سے ڈیٹا اکٹھا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسے ڈیٹا آپریٹر کے ذریعے فیڈ کیا جاتا ہے اور پھر اسے عوامی طور پر ظاہر کرنے کے لیے آئی ٹی پلیٹ فارم پر جمع کیا جاتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 2014 میں ووٹنگ فیصد ڈیٹا جاری کرنے کے لیے آئی ٹی پلیٹ فارم کو اپنایا تھا۔

آئندہ 24 مئی کو ہونے والی سماعت سے پہلے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے حلف نامہ میں کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ڈیٹا پورے انتخابی عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

کمیشن نے کہا، ‘اصل فارم 17سی صرف اسٹرانگ روم میں دستیاب ہے اور اس کی ایک کاپی صرف ان پولنگ ایجنٹوں کے پاس ہے جنہوں نے اس پر دستخط کیے ہیں۔ لہذا، ہر فارم 17سی اور اس کے ہولڈر کے درمیان ایک آپسی تعلق ہوتاہے۔ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ غیر دانشمندانہ انکشاف، ویب سائٹ پر ڈیٹا کو پبلک کرنا تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے، جس میں گنتی کے نتائج بھی شامل ہیں۔ اس سے پورے انتخابی عمل کے حوالے سے عوام میں بڑے پیمانے پر بے چینی اور عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔’

درخواست گزاروں پر حملہ کرتے ہوئے کمیشن نے کہا کہ ‘بعض ایسے عناصر ہیں جن کے اپنے مفادات ہیں، وہ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے شکوک و شبہات کا ماحول بنتا ہے۔’ کمیشن نے مزید کہا کہ گمراہ کن دعوے کرکے بدنیتی پر مبنی مہم چلائی جارہی ہے۔

شفافیت کے حقوق کی کارکن انجلی بھاردواج نے دی وائر کو بتایا، ‘فارم 17سی کے انکشافات کے بارے میں ای سی آئی  کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ حیران کن ہے۔ اس طرح کے تخلیقی بہانے ریکارڈ کو ظاہر کرنے سے انکار کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لہذا ہم آر ٹی آئی کو الوداع کہہ سکتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ ایس سی آئی بھول گیا ہے کہ ہماری جمہوریت میں لوگوں کو معلومات کا حق  حاصل ہے! دراصل، کنڈکٹ آف الیکشن رولز کا رول 93 لوگوں کو فارم 17 سی  سمیت انتخاب سے متعلق  کاغذات کا معائنہ کرنے اور ان کی کاپیاں طلب کرنے  کی اجازت دیتا ہے۔ شاید ہمیں آر ٹی آئی ایکٹ کی کاپیاں ای سی آئی کو بھیجنے کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔’

بھاردواج نے کہا، ‘انتخابات میں سب سے اہم اسٹیک ہولڈر رائے دہندگان ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ کمیشن رائے دہندگان کو تفصیلات بتانے کی مخالفت کر رہا ہے۔ انتخابی عمل میں عوام کے اعتماد کے لیے شفافیت ضروری ہے۔’

سابق آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن نے بھی الیکشن کمیشن کے کام کرنے کے طریقے پر سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ‘رازداری شک کے بیج بوتی ہے۔’

بتادیں کہ ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کو شائع کرنے میں تاخیر اور حتمی اعداد و شمار اور ووٹنگ کے دن ابتدائی طور پر جاری کیے گئے اعداد و شمار کے درمیان فرق کو لے کر کمیشن کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کمیشن کو پہلے مرحلے کی حتمی ووٹنگ فیصد جاری کرنے میں 11 دن لگے جبکہ اگلے تین مراحل کے حتمی اعداد و شمار جاری کرنے میں اس نے چار دن کا وقت لیا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔