گراؤنڈ رپورٹ: ہماچل پردیش کی منڈی سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار کنگنا رناوت اپنی تقریروں میں یہ نہیں بتاتی ہیں کہ منڈی یا ہماچل کے لیے ان کا وژن کیا ہے۔ انہوں نے اسے ‘مودی جی’ پر چھوڑ رکھا ہے۔ ان کے سامنے کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ ویربھدر سنگھ کے بیٹے وکرم آدتیہ سنگھ کھڑے ہیں، جن کی یہ موروثی سیٹ ہے۔
منڈی: رات کے قریب سوا نو بجے کا وقت ہے۔ شہر میں آپ اسے ‘ابھی تو شام شروع ہوئی ہے’ کہہ سکتے ہیں ،لیکن پہاڑ اس وقت سونے لگتاہے اور دن بھر کی اپھنتی آئی ستلج بھی اچانک ساکت نظر آنے لگتی ہے۔
منڈی لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار کنگنا رناوت دوپہر سے اپنے حلقے کا دورہ کر رہی ہیں۔ منڈی جغرافیائی طور پر ہندوستان کے سب سے بڑے لوک سبھا حلقوں میں سے ایک ہے – جو 6000 میٹر سے 900 میٹر – چمبہ سے لاہول-اسپیتی اور کنور، یہاں تک کہ شملہ ضلع کے رام پور تک پھیلا ہوا ہے۔
پانچ چھ گاڑیوں کا ا ن کا قافلہ پرانی منڈی کے شیتلا دیوی مندر میں آکر ٹھہرتاہے۔ وہ نیچے اترتی ہیں اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہیں۔ مندر کا درشن کرتی ہیں۔ مندر کے قریب ایک چھوٹے سے چبوترے پر ان کا جلسہ ہے۔ تقریباً پانچ سو افراد، جن میں سے ستر-اسی فیصد خواتین ہیں۔ کنگنا سے پہلے، ایک بی جے پی لیڈرمختصرسی تقریر کرتے ہیں، اور وہ فوراً مائیک تھام لیتی ہیں۔ دوسرے لیڈروں کے برعکس اسٹیج پر ان کی آمد تقریباً بغیر کسی تمہید کے ہوتی ہے۔
کنگنا رناوت کے پہلے الفاظ ہیں: ‘جئے جئے شری رام۔ بھارت ماتا کی جئے۔’
اور اس کےبعد کہتی ہیں؛
‘جمہوریت میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ووٹنگ پوری نہیں ہوئی ہے لیکن سب کہتے ہیں- آئے گا تو مودی ہی۔’
کنگنا رناوت 27 مئی کی رات تقریباً نو منٹ بولتی ہیں۔ پوری تقریر صرف ایک موضوع (ہندوتوا) اور ایک شخص (نریندر مودی) پر مرکوز ہے۔ مودی جی نے پچھلے دس سالوں میں ملک کی کھوئی ہوئی شان واپس دلوائی، پچھلی حکومتوں کو ‘یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ملک کی سرحدیں کہاں پر ہیں…(وہ) کیا حکومت کر رہے تھے؟ (مودی جی) نے سیٹلائٹ سے پتہ کروایا’ کہ ملک کی سرحدیں آخر ہیں کہاں۔’
کنگنا کی آواز میں توانائی بھی ہے اور غصہ بھی۔ وہ ہلکے گلابی رنگ کے سلوار سوٹ میں ہیں ، سر پر ہماچلی ٹوپی بھی ہے۔ ان کے الفاظ پہاڑی بولی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور وہ ایک عام ہماچلی کی طرح نظر آ رہی ہیں۔
وہ نہیں بتاتی ہیں کہ اپنے آبائی ضلع منڈی یا ہماچل کے لیے ان کا کیا وژن ہے، کیا خواب ہیں۔ منڈی کا وژن بھی مودی جی نے طے کر رکھا ہے۔ ‘تیسرے ٹرم’ میں آتے ہی مودی جی منڈی کی کایا پلٹ کر دیں گے۔یہاں تک کہ کنگنا اپنے لیے ووٹ بھی نہیں مانگتی۔’ہمیں پردھان منتری جی کو چننا ہے،’ وہ کہتی ہیں۔
لیکن کیوں؟
رام جن کے ہاتھوں سے آئے ہیں۔ چھ سو سال تک رام نہیں آئے… رام بھگوان نے انہیں چنا ہےاپنا مندر بنانے کے لیے، اپنی پران-پرتشٹھا کرانے کے لیے، اس ملک کو نجات دلانے کے، تو ہم کون ہوتے ہیں؟ ہم تو رام کی سینا ہیں۔جیسا رام کہیں گے، ہم ویسا ہی کریں گے۔’
اس کے بعد کنگنا سامعین کو مطلع کرتی ہیں کہ جب لوگ وزیر اعظم بنتے ہیں تو بڑے بڑے کام کرتے ہیں لیکن مودی جی نے 2014 میں آتے ہی ‘بیت الخلاء کی صفائی کروائی ، غسل خانے بنوائے۔ ‘بھوک مری سے ملک مر رہا تھا۔ اسی کروڑ لوگوں کو راشن دیا۔’
اور تیسرے ٹرم میں مودی جی کا کیا وژن ہے؟ ‘ہمارے ملک میں آج تک وہی پرانے زمانے کی ووٹنگ چلی آ رہی ہے۔ ہر دو تین ماہ میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ تمام افسران اور وزراء اس کام میں لگے رہتے ہیں—الیکشن، الیکشن، الیکشن۔’
کنگنا واضح کر دیتی ہیں کہ اگلی حکومت کا ایجنڈا کیا ہونے والا ہے۔
آپ حیران ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں کچھ کیوں نہیں بول رہی ہیں، لیکن کنگنا کو معلوم ہے کہ وہ ایک ‘سناتنی پارٹی’ کی امیدوار ہیں اور ‘ہم لوگ مودی بھکت ہیں۔’
کانگریس کی پوزیشن
منڈی سیٹ سے کانگریس امیدوار وکرم آدتیہ سنگھ کی ماں پرتبھا سنگھ موجودہ ایم پی ہیں۔ منڈی لوک سبھا حلقہ وکرم آدتیہ کے والد اور سابق وزیر اعلیٰ ویربھدر سنگھ کی موروثی سیٹ ہے۔ 1952 سے اب تک کانگریس نے 12 بار اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی ہے، جس میں سے 6 بار ویربھدر کا خاندان اس پر قابض رہا ہے۔
اس غلبے کا اثر دونوں جماعتوں کے جلسوں میں نظر آتا ہے۔ 27 مئی کو کانگریس امیدوار وکرم آدتیہ کی ریلی ستلج ندی کے کنارے منڈی ضلع کے دیہر میں منعقد ہوئی تھی۔ کنگنا کے جلسوں سے کئی گنا زیادہ بھیڑ تھی اور گاڑیوں کا ایک بہت بڑا قافلہ ‘ٹکا صاحب’ عرف وکرم آدتیہ سنگھ کے ساتھ چل رہا تھا۔
‘راجے کا بیٹا جیتے گا’ کی آواز آپ ٹھیلے والوں اور پنچایت کے کارکنوں سے سن سکتے تھے۔ ہماچل میں ویربھدر کی موجودگی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی موت کے بعد 2022 میں جب کانگریس اسمبلی انتخابات لڑ رہی تھی، سڑکوں پر سننے کو ملتا تھا – ‘ویربھدر جیتے گا’۔
ملک میں کئی جگہوں پر کانگریس کی حالت بدتر ہوئی ہے، لیکن ہماچل میں ویربھدر کی موجودگی اور طاقت اب بھی برقرار ہے۔ اپنے والد کی سیاسی روایت اور سماجی اثر و رسوخ کے علاوہ وکرم آدتیہ خود دو بار کے ایم ایل اے ہیں، اور ہماچل کی موجودہ کانگریس حکومت میں وزیر ہیں۔
اس کے برعکس کنگنا کے پاس نہ تو کوئی خاندان ہے، نہ سیاست میں کوئی تجربہ ہے – نہ ہی کوئی ٹیم یا قافلہ۔
کنگناکی جو بھی منڈلی ہے، ابھی تک اس نئے لیڈر کے ساتھ تال میل نہیں بٹھا پا رہی ہے۔ ان کی ذہنی حالت کو سمجھنا آسان نہیں۔ وہ اچانک اپنی تقریرختم کر سکتی ہیں، اور ایک آن میں میٹنگ سے اٹھ سکتی ہیں۔ سوموار کی شام ان کا منڈی چوک پر ہوٹل کمفرٹ سے روڈ شو ہونا تھا۔ ان کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ لمبا چلے گا۔ ان کی آمد سے پہلے ہی کافی ہجوم جمع ہو چکا تھا۔ لیکن وہ دس منٹ کے اندر ہی اٹھ گئیں۔ ‘وہ آئی، تیز تیز بولی اور چلی گئی،’ ہوٹل کمفرٹ کے ہال میں قدرے افسردہ نظر آ رہے پارٹی ممبر بولے۔
لیکن کنگنا کے اندر اشتعال ہے، اور ٹھیٹ ہماچلی لہجہ بھی۔ کانگریس اپنی عوامی میٹنگوں میں ان کے فلمی ماضی پر حملہ کرتی رہتی ہے، لیکن کنگنا گویا اپنے بمبیا کیریئر کو پیچھے چھوڑ آئی ہیں اور پہاڑی وقار کو اپنی ڈھال بنا لیا ہے۔
کنگنا کےتمام ویڈیو آتے رہتے ہیں، جن میں وہ غیر ذمہ دارانہ بیان دیتی نظر آرہی ہیں۔ یہ ان کا مزاج ہو سکتا ہے، لیکن یہ اس نایاب اداکارہ کی ریاضت بھی ہو سکتی ہے جو گزشتہ 15 سالوں میں بغیر کسی سہارے کے صرف اپنی طاقت کے بل بوتے پر بمبئی کی سفاک فلم انڈسٹری میں بے خوف کھڑی رہی ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوگا کہ کنگنا نے وزیر اعظم کی امیج کو اپنے انتخاب کی بنیاد بنایا ہے۔
لیکن کیا کنگنا اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں جانتی ہیں؟ وہ کانگریس پر ہماچل کو لوٹنے کا الزام لگاتی ہیں،انہیں شاید اپنے علاقے کی تاریخ معلوم نہیں کہ ملک کے پہلے لوک سبھا انتخابات میں منڈی سیٹ نے جنہیں پارلیامنٹ بھیجا تھا، وہ عظیم مجاہد آزادی راج کماری امرت کور تھیں۔ ہندوستان کی پہلی وزیر صحت، جنہوں نے ایمس کی بنیاد رکھی تھی اور جنہیں جدید ہندوستانی تاریخ بڑے احترام سے یاد کرتی ہے۔
اس وقت تقریباً گیارہ بج رہے ہیں۔ منڈی سے تقریباً پچیس کلومیٹر دور ریوالسر سے تھوڑا پہلے چیڑ کے جنگل میں آگ پھیل رہی ہے۔ پہاڑی جنگل کی اس سڑک پر فائر بریگیڈ کی گاڑی کھڑی ہے۔
اس موسم میں چیڑ کے پتے سوکھ کر فٹ پاتھ پر بکھر جاتے ہیں اور جلدی آگ پکڑ لیتے ہیں۔ چیڑ کا لسلسا گونداس آگ کو کہیں تیزی سے بھڑکا دیتا ہے۔
‘کنگنا رانی (پرتبھا سنگھ) کو تو آسانی سے شکست دے سکتی تھی۔ لیکن راجے کا بیٹا آ گیا ہے، مقابلہ مزیدار ہو گیا ہے،’ وردی میں ملبوس پدم سنگھ کہتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگ بجھانے آئے ہیں لیکن سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کریں۔
یہ لمبی رات ہے۔ پہاڑ کی سیاست کی طرح چیڑ کا جنگل بھی دہک رہا ہے۔
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ