خبریں

راجستھان ہائی کورٹ نے گرمی سے ہونے والی اموات کا لیا نوٹس، کہا – قومی آفات قرار دے مرکزی حکومت

عدالت نے حکومتوں کی سرزنش کرتے ہوئے موسم کی مار جھیل رہے لوگوں کی پریشانی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لینے کی اپیل کی۔

(تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

(تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

نئی دہلی: راجستھان ہائی کورٹ نے جمعرات (30 مئی) کو ریاست میں شدید گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات پر از خود نوٹس لیا ہے۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہےکہ وہ شدید گرمی جیسے موسمی واقعات کو قومی آفات قرار دے۔

رپورٹ کے مطابق، راجستھان میں گزشتہ چند دنوں میں درجہ حرارت 48.3 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا ہے۔ ریاست میں ہیٹ ویو کی وجہ سے اب تک پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

عدالت کو کیوں لینا پڑااز خودنوٹس

ہندوستانی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) کی جانب سے 31 مئی کو جاری تازہ ترین پریس ریلیز کے مطابق، راجستھان میں 17 مئی سے شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ڈی نے کہا کہ 30 مئی کی صبح 8:30 بجے سے 31 مئی کی صبح 8:30 بجے تک ریاست کے کئی حصوں میں شدید گرمی تھی۔ 30 مئی کو مغربی راجستھان کے سری گنگا نگر میں ملک میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 48.3 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔

اسی دن راجستھان ہائی کورٹ نے ریاست میں شدید گرمی سے ہونے والی اموات پر از خود نوٹس لیا۔ ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ ریاست میں شدید گرمی کی وجہ سے پانچ لوگوں کی موت ہوگئی ہے۔

غریبوں پر موسم کا ستم زیادہ

ہائی کورٹ نے کہا کہ اس مہینے سینکڑوں لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ موسم کے مزاج کو مدنظر رکھیں تو یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والے لوگ ان واقعات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ہیٹ ویو کی وجہ سے ہونے والی اموات کو اکثر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

جسٹس انوپ کمار ڈھانڈ کی سنگل بنچ نے کہا، ‘بدقسمتی سے وہ غریب لوگ جنہیں ڈھنگ سے کھانا تک نہیں ملتا، جن کے پاس دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے چلچلاتی دھوپ اور کڑی سردی میں کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، ان پر موسموں کی مار زیادہ پڑتی ہے۔ہیٹ ویوسے ہونے والی اموات کی تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ شدید گرمی کو عام طور پر ایسے معاملات میں موت کی بنیادی وجہ نہیں سمجھا جاتا جہاں متاثرہ شخص کو پہلے سے ہی دل یا پھیپھڑوں سے متعلق کوئی  بیماری ہوتی ہے۔’

ہمارے پاس کوئی دوسرا سیارہ نہیں: جسٹس ڈھانڈ

موسمیاتی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے زمین کو بچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ‘دھرتی ماتا چاہتی ہے کہ ہم کچھ اقدامات کریں۔ قدرت تکلیف میں ہے۔ آج کل درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر رہا ہے جس کی وجہ سے راجستھان اور پورے ملک کے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں، قدرت میں انسانوں کی طرف سے کی گئی تبدیلیاں، حیاتیاتی تنوع میں خلل ڈالنے والے جرائم، جیسے جنگلات کی کٹائی، قدرتی آبی ذخائر کی تباہی وغیرہ زمین کی تباہی کی رفتار کو بڑھا سکتے ہیں۔

عدالت نے کہا، ‘زمین واحد سیارہ ہے جس پر زندگی ممکن ہے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا سیارہ نہیں ہے جس پر ہم جا سکیں۔’

اس کے علاوہ جسٹس ڈھانڈ نے شہریوں سے بھی کہا کہ وہ قدرت کو بچانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا، ‘ہر شخص کی ایک چھوٹی سی کوشش سب کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگی۔ ہم اسی وقت کامیاب ہوں گے جب سب اپنا کردار ادا کریں گے۔

تقریباً ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے بل

ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں گرمی اور سردی کی لہروں سے ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے 2015 میں لائے گئے بل کو قانون کے طور پر لاگو کریں۔

سابق ایم پی راجکمار دھوت کے ذریعے 18 دسمبر 2015 کو راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے اس بل کی ایک اہم شق یہ ہے کہ شدید گرمی یا سردی کی لہر (جس کے نتیجے میں لوگوں کی جان چلی جاتی ہے) کو قومی آفات قرار دیا جانا چاہیے اور متعلقہ حکومت ( ریاستی حکومت، مرکزی حکومت یا دونوں) کواس کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات کو حکومتوں کو گرمی یا سردی کی لہروں کی پیش گوئی سے آگاہ کرنا چاہیے اور حکومتوں کو کارروائی کرنی چاہیے۔ پیشگی اطلاع ملنے پر حکومت بے گھر لوگوں کے لیے رین بسیرے بنوا سکتی ہے۔ زرعی شعبوں، تعمیراتی مقامات، سڑکوں اور دیگر عوامی مقامات کے قریب سایہ اور پانی کا انتظام کر سکتی ہے۔

بل میں یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والوں کو گرمی کے موسم میں دوپہر 12 بجے سے 3 بجے تک آرام کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، جو کوئی اس کی اجازت نہیں دیتا ہے، اس کے لیے ایک ماہ تک کی قید اور 2 لاکھ روپے تک جرمانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔

بل میں موت کی صورت میں معاوضے کا بھی اہتمام تھا۔ گرمی یا سردی سے مرنے والوں کے لواحقین کو کم از کم تین لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ بل کے ایکٹ بن جانے کے بعد اس کے نفاذ کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات کے اخراجات مرکزی حکومت کو برداشت کرنے چاہیے۔

تاہم یہ بل ابھی تک پاس نہیں ہوا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا، ‘سال 2015 کا مذکورہ بل ابھی تک سرخانےمیں پڑا ہے۔ تقریباً ایک دہائی گزر جانے کے باوجود بھی اس کو پاس نہیں کیا گیا ہے۔‘

آئی ایم ڈی کے مطابق، شمال مغربی، وسطی اور مشرقی ہندوستان میں جاری ہیٹ ویو کے اگلے دو سے تین دنوں میں بتدریج کم ہونے کا امکان ہے۔